یہ تھے وہ اصل اسباب جن کی وجہ سے صنعتی انقلاب کے پیدا کیے ہو ئے نظام تمدن و معیشت میں خرابیاں رونما ہو ئيں ۔پچھلے صفحات میں ہم نے ان پر جو تجزیہ کیا ہے اس پر غو ر کرنے سے یہ بات با لکل عیاں ہو جاتی ہے کہ درحقیقت ان خرابیو ں کے موجب وہ فطری اصول نہیں تھے جن کو بو رژوا حضرات بے قید معیشت کی تا ئید میں پیش کرتے تھے ،بلکہ ان کی اصل مو جب وہ غلطیاں تھیں جو ان صحیح اصولوں کے ساتھ انھوں نے ملا دی تھیں۔
اگر بر وقت ان غلطیو ں کو سمجھ لیا جا تا اور اہل مغرب کو وہ حکیمانہ رہنمائی مل جاتی جس سے وہ اس نئے انقلابی دور میں ایک متوازن اور متعدل معیشت کی تعمیر کر لیتے تو ان کے لیے بھی اور ساری دنیا کے لیے بھی صنعتی انقلاب ایک نعمت اور برکت ہو تا،مگر افسوس یہ ہے کہ مغربی ذہن اور کیرکٹر نے اس دور میں بھی اپنی انہی کمزوریوں کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کے زمانوں میں اس سے ظاہر ہو چکی تھیں،اور اسی بے اعتدالی کی ڈگر پر تا ریخ بھی آگے بڑھی جس پر وہ پہلے سے بھٹک کر جا پڑی تھی۔ پہلے جس مقام پر مالکان زمین اور ارباب کلیسا اور شاہی خاندان تھے ،اب اسی ہٹ دھرمی اور ظلم و زیا دتی کی جگہ بورژوا طبقہ نے سنبھال لی اور پہلے حق طلبی اور شکوہ و شکایت اور غصہ و احتجاج کے جس مقام پر بورژوا حضرات کھڑے تھے ،اب اس جگہ محنت پیشہ عوام آ کھڑے ہو ئے۔پہلے جس طرح جاگیرداری نظام کے مطمئن طبقے نے اپنے بے جا امتیازات اور اپنے نا روا”حقوق” اور اپنی ظالمانہ قیود کی حمایت میں دین اور اخلاق اور قوانین فطرت کی چند صداقتوں کو غلط طریقہ سے استعمال کرکے محروم طبقوں کا منہ بند کرنے کی کو شش کی تھی،اب بعینہ وہی حرکت سرمایہ داری نظام کے مطمئن طبقوں نے شروع کر دی۔اور پہلے جس طرح غصے اور ضد اور جھحھلا ہٹ میں آکر بو رژوا لوگوں نے جاگیر داروں اور پادریوں کی اصل غلطیوں کو سمجھنے اور ان کا ٹھیک ٹھیک تدارک کرنے کی بجائے اپنی نبرد آزمائی کا بہت سا زور ان صداقتوں کے خلاف صرف کر دیاجن کا سہارا ان کے حریف لیا کرتے تھے، اسی طرح اب محنت پیشہ عوام اور ان کے لیڈروں نے بھی غیط و غضب میں نظر و فکر کا تو ازن کھو دیا اور بورژوا تمدن کی اصل خرابیو ں اور غلطیوں پر حملہ کرنے کی بجائے ان فطری اصولوں پر ہلہ بو ل دیا جن پر ابتدائے آفرمنیش سے انسانی تمدن و معیشت کی تعمیر ہو تی چلی آ رہی تھی۔متوسط طبقوں کے لوگ تو اپنی کمزوریاں اور برائیوں کے با وجو دپھر کچھ ذہین اور تعلیم یا فتہ ہو تے ہیں،اس لئے انھوں نے شکائیت اور ضد کے جوش میں بھی تھوڑا بہت توازن برقرار رکھا تھا۔لیکن صدیو ں کے پسے اور دبے ہو ئے عوام جن کے اندر،علم ، ذہانت،تجربہ ہر چیز کی کمی تھی،جب تکلیفوں سے بے قرار اور شکا یات سے لبریز ہو کر بپھر گئے تو کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے عقل و حکمت کے ترازو میں تو ل کر اسے دیکھ لینے کا کو ئی سوال ان کے سا منے نہ رہا۔ان کو سب سے بڑھ کر اپیل اس مسلک نے کیا جس نے سب سے زیادہ شد ت کے ساتھ ان کی نفرت اور ان کے غصے اور ان کے انتقام کے تفاضے پورے کیے ۔