سوال 11: اسلامی تمویل کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا اسلامی تمویل کے جدید طریقوں سے یہ مقاصد پورے ہو رہے ہیں؟
جواب: اسلام کے مالی معاملات کے حوالے سے عہدِ حاضر کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اپنی تحریروں میں کثرت سے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس نظام کی بنیاد اخلاقی اقدار اور حصولِ مقاصدِ شریعت پر قائم ہونی چاہیے۔ ان سکالرز کے نزدیک‘ اسلام کے مالیاتی نظام کو درج ذیل اقدار اور مقاصد سے ہم آہنگ ہونا چاہیے:
(i سرمایہ داری اور ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی
(ii سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور سرمایہ کاروں کے لیے منصفانہ منافع
(iii سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی
(iv حقیقی معاشی سرگرمی کا ماحول پیدا کرنے میں معاونت
(v معاشرتی ذمہ داریوں میں شرکت
اگر افادیت اور مقاصد کے اعتبار سے‘ موجودہ اسلامی بینکنگ اور مالیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہاں شریعت کے مقاصد جلیلہ اور اقدار کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو ان کاحق تھا۔ بینک اپنی تمام تر توجہ کاروباری معاہدے کے فقہی اور قانونی پہلوؤں کے التزام پر مرکوز رکھتے ہیں‘ بجائے اس کے کہ افادیت اور مقاصد کو سامنے رکھا جائے۔ عمومی طور پر وہ اپنے لین دین میں مقاصد شریعت کے حصول کی بجائے شریعت کے صرف نواہی کا خیال رکھتے ہیں‘ جیسے کہ ربا‘ غرر‘ میسر ‘قمار (جوا) وغیرہ۔ یہ طرزِفکر بعض اوقات حقیقی مقاصد کے حصول میں ناکامی کا باعث بنتا ہے۔ اسلامی بینک اپنے کاروبار میں کبھی کبھی حیلوں پر بھی انحصار کرتے ہیں‘ یعنی ایسے عذر اور حیلے اختیار کرنا جن سے اسلامی قانون کی گرفت سے بچاجا سکے۔ اس قسم کے طریقوں میں تورق‘ عینہ کی بنیاد پر سکوک اور کئی دوسرے لین دین شامل ہیں‘ جن کے ذریعے زیادہ سرمایہ جمع کرانے والوں کو منافع کی بلند شرح کے وعدے دلائے جاتے ہیں۔ ایسے سودے بظاہر ایک مؤثر قانونی معاہدے کی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد سے اسلامی مالیاتی نظام کے اصل اہداف تک رسائی ممکن نہیں رہتی۔اس لیے کہ ایسے آلاتِ زر بالبداہت کسی معاشی سرگرمی کا باعث نہیں بنتے۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص منافع کے ساتھ سیّالیت کی سہولت بھی فراہم کر دی جائے۔ بھاری رقوم جمع کرانے والوں کو ’’ہبہ‘‘کے نام پرمنافع کی تقسیم بھی ایک حیلہ ہی ہے۔
اسلامی بینک عموماً کسی قسم کی معاشرتی فلاح و بہبود میں حصہ نہیں لیتے‘ حالانکہ وہ آسانی کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کرنٹ کھاتوں میں جمع شدہ بھاری رقوم کے فوائد میں سے کچھ حصہ مختص کر سکتے ہیں‘ جن پر وہ خود تو کثیر منافع کماتے ہیں لیکن کھاتے داروں کو کچھ ادا نہیں کرتے ‘کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ کی حیثیت ایک طرح کے قرض کی ہوتی ہے جو رقم جمع کرانے والے کی جانب سے بینک کو دیا جاتا ہے۔ لہٰذا قرض دہندہ اس کے عوض کسی قسم کے نفع کا استحقاق نہیں رکھتا۔
اسلام کی روح سے ہم آہنگ اپنی ایک الگ شناخت بنانے کے لیے اسلامی بینکنگ کی زیادہ توجہ کسی معاہدے کے قواعدوضوابط اور قانونی موشگافیوں کے بجائے مقاصدِ شریعہ اور اقدار پر ہونی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ایک ایسا بینکنگ نظام وجود میں آئے گا جس کی بنیاد شریعت پر ہو اور وہ معاشرتی اہداف کے حصول کے اعتبار سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروفِ عمل ہو۔ لیکن اس کے لیے لازم ہے سودی بینکوں کے ساتھ ’’مقابلہ‘‘ کی کیفیت کا خاتمہ ہو‘ جو سود پر مکمل پابندی کے بغیر ممکن نہیں!