یہ تھے وہ اصول جن کو پو رے زور شور کی ساتھ جدید سرمایہ داری کی پیدائش کے زمانے میں پیش کیا گیا ،اور چونکہ ان کے اندر کسی حد تک مبا لغہ کے باوجو د صداقت پائی جاتی تھی،اس لئے ان کو بالعموم دنیا بھر سے تسلیم کرالیا گیا۔درحقیقت ان میں نئی بات کوئی بھی نہ تھی۔ساری با تیں وہی تھیں جن پر غیر معلوم زمانے سے انسانی معیشت کا کاروبار انجام پا تا چلا آ رہا تھا۔جدت اگر تھی تو اس مبالغہ آمیز شد ت میں تھی جو بعض اصولو ں کو صنعتی انقلاب کے دورکی معیشت پر چسپاں کر نے میں بو رژوا حضرات نےاختیار کی۔مزید برآں انھو ں نے اپنا سا را نظام صر ف ان فطری اصولو ں ہی پر نہیں اٹھایا جن کا اوپر ذکر ہوا ہے بلکہ ان کے ساتھ کچھ غلط اصولو ں کی آمیزش بھی کر دی۔پھر انھوں نے بعض دوسرے ایسے اصولوں کو نظر انداز بھی کردیاجو ایک فطر ی نظام معیشت کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنے آزاد معیشت کے مذکو رہ بالا اصول۔اس کے ساتھ انھوں نے اپنی خو د غرضیو ں سے خود اپنے ہی پیش کر دہ بعض اصولو ں کی نفی بھی کر دی۔یہی چاروں چیزیں مل جل کر ان خرابیوں کا مو جب ہو تیں جو بالآخر جدید سر ما یہ داری میں پیدا ہوتی چلی گئیں اور اس حد تک بڑھیں کہ دنیا میں اس کے خلاف ایک شورش برپا ہو گئی۔مختصرا ہمیں ان اسباب خرابی کا بھی جا ئزہ لے لینا چاہئے ۔
1 – بے قید معیشت کی حمایت میں جن “فطری قوانین”کایہ لوگ باربار حوالہ دیتے رہے ہیں وہ اس مبا لغہ کی حد تک صحیح نہیں ہیں جو ان لو گوں نے نہ صرف اپنے بیان میں،بلکہ اپنے عمل میں برتنا چاہا ۔لارڈ کنیز نے با نکل ٹھیک کہا ہے کہ ” دنیا پر اخلاقی و فطری قوانین کی ایسی مضبوط حکومت قائم نہیں ہے جس کے زور سےافراد کے ذاتی مفاد اور سوسائٹی کے اجتماعی مفاد میں ضرور آپ ہی آپ موافقت ہو تی رہے ۔معاشیات کے اصولوں سے یہ استنباط کو ئی صحیح استنباط نہیں ہے کہ روشن خیال خود غرضی ہمیشہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے کو شش کیا کرتی ہے ۔اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ خو د غرضی ہمیشہ روشن خیال ہی ہو ا کرتی ہے ۔اکثر تو یہ د یکھا جاتا ہے کہ جو لو گ انفرادی طور پر اپنے اغراض کے لئے جدوجہد کرتے ہیں وہ اس قدر نادان یا کمزور ہو تے ہیں کہ وہ اپنی اغراض کو بھی پو را نہیں کر سکتے کجا کہ ان کے ہاتھوں اجتماعی مفاد کی خدمت ضرور اور ہمیشہ انجام پاتی رہے ۔”
صر ف یہی نہیں کہ یہ مبالغہ آمیز باتیں عقلا صحیح نہ تھیں،بلکہ تجربہ سے خود بوروژا سرمایہ داروں کے اپنے عمل نے ثابت کر دیا کہ ان کی خود غرضی روشن خیال نہیں تھی۔انھوں نے خریدار پبلک،اجرت پیشہ کارکن اور پر امن حالا ت پیدا کر نے والی حکو مت،تینو ں کے مفاد کے خلاف جھتہ بندی کی اور با ہم یہ سازش کر لی کہ صنعتی انقلاب کے سارے فوائد خود لو ٹ لیں گے ۔ان کے اس با ہمی ساز باز نے ان کی اس سے بڑ ی دلیل کو خود ہی تو ڑ دیا جو و ہ آزاد معیشت کے حق میں پیش کر تے تھے ،یعنی یہ کہ فطرۃ کسر و انکسار سے خود ہی سب لوگوں کے درمیان منفعت کا تو ازن قائم ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آخر کار آدم سمتھ جیسے شخص کو بھی، جو آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا یہ کہنا پڑا:
کم ہی ایسا ہو تا ہے کہ جب کاروباری لوگ کہیں باہم جمع ہو ں اور ان کی صحبت پبلک کے خلاف کسی سازش پر اور قیمتیں چڑ ھانے کےلئےکسی قرارداد پر ختم نہ ہو۔حد یہ ہے کہ تقریبات تک میں مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے ا س کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے
اسی طر ح شخصی ملکیت اور آزاد سعی کے بارے میں ان کے یہ دعو ے بھی با لکل مبالغہ آمیز تھےکہ ان عنوانات کے تحت افراد کو کچھ ایسے حقوق حاصل ہیں جن پر کوئی حد عائد نہ ہو نی چاہیے ۔ ایک شخص اپنی ملکیت میں اگر ایسے طر یقہ سے تصرف کرتا ہے جس سے ہزار ہا آدمیو ں کی معیشت متاثر ہو جاتی ہے ،یا ایک آدمی اپنےذاتی نفع کے لئے سعی و عمل کی کو ئی ایسی راہ نکالتا ہے جس سے پو ری سوسائٹی کی صحت،یا اخلاق ،یا عافیت پر برا اثر پڑتا ہے ،تو آخر کیا وجہ ہے کہ اسکو ان کاموں کے لئے کھلی چھٹی دے دی جائے اور قانون ایسے حدود عائد نہ کرے جن سے اس کے انفرادی حقوق کا استعمال اجتماعی مفاد کے لئے مضر نہ ہو نے پائے ؟
حکومت کی عدم مداخلت کے مضمو ن کو ان لو گو ں نے اس کی جائز حد سے اتنا زیادہ بڑ ھا دیا کہ وہ برے نتائج پیدا کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔جب طاقت ور افر اد جتھہ بندی کر کے کثیر ا لتعداد لو گو ں سے نا جائز ےفائدے اٹھانے لگیں اور حکومت یا تو تماشا دیکھتی رہے یا خود ان طاقت ور افراد ہی کے مفاد کی حفاظت کرنے لگے، تو اس کا لازمی نتیجہ شووش ہے ، اورشو رش جب برپا ہو جاتی ہے تو ہمیشہ اپنے ظہور کے لئے معقول راستوں ہی کی پابندی نہیں کیا کرتی۔
2 – خصوصیت کے سا تھ صنعتی انقلاب کے دور میں بے قید معیشت کے اصولو ں کا اتنا سخت مبالغہ اور بھی زیادہ غلط تھا۔صنعتی انقلاب کی وجہ سے طریق پیدوار میں جو بنیادی تغیر واقع ہو گیا تھا وہ یہ تھا کہ پہلے جو کام انسانی اور حیوانی طاقت سے کیے جاتے تھے اب ان کے لئے مشین کی طاقت استعمال کی جانے لگی ۔ایک مشین لگا نے کے معنی یہ ہو گئے کہ دس آدمی وہ کام کر نے لگیں جو پہلے ہزار آدمی کر تے تھے ۔اس طریق کی عین فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ چند انسانوں کو کام پر لگا کر ہزاروں انسانوں کو بے کار کر دیتا ہے ۔ایسے ایک طریقے کے متعلق ملکیت اور آزادی سعی کے مطلق حقوق کا دعو ی اور حکو مت کی عدم مداخلت کا مطالبہ اصولا با لکل بے جا تھا۔آخر یہ کس طرح جائز ہو سکتا تھا کہ ایک شخص یا گروہ محض اس وجہ سے کہ وہ ایسا کرنے کے ذرائع رکھتا ہے ،ایک خاص قسم کا مال تیار کرنے کے لئے اچانک ایک بڑا کارخانہ قائم کر دے اور اس کی کچھ پروا نہ کرے کہ اس کی اس حرکت سے پو رے علاقے کے ان ہزار ہا آدمیوں پر کیا اثر پڑتا ہے جو پہلے اپنے گھروں یا دوکانوں میں یا دستی کا ریگری کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بیٹھے وہی مال تیار کر رہے تھے ؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشین کی طاقت کو صنعت میں استعمال نہ ہو نا چاہیے تھا مطلب یہ ہے کہ اس طاقت کے استعمال کی اندھا دھندا جا زت نہ ہو نی چاہیے تھی اور حکومت کو اول روز سے ہی یہ فکر کرنی چاہیے تھی کہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کے روزگار کا بندوبست بھی ہو تا جائے جن کو یہ نئی صنعتی طاقت بے کار کر رہی تھی
چونکہ ایسا نہیں ہو ا،اسی وجہ سے مشینی طریق پیدوار کے وجود میں آتے ہی انسانی سوسائٹی میں بے روزگاری کا ایک مستقل مسئلہ اتنے بڑ ے پیمانہ پر پیدا ہو گیا جس سے تاریخ پہلے آشنا نہ ہو ئی تھی۔اور یہ بات ظاہر ہے کہ بے روزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادی،روحانی،اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کامورث اعلی ہے ۔سو ال یہ ہے ایک فرد یا چند افراد کا کیا حق ہے کہ اپنی ملکیت میں ایسے طریقہ سے تصرف کر یں جس سے اجتماعی زندگی میں اتنی زبردست پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں؟ اور اس طرح کے تصرف کے بارے میں کو ئی مرد عاقل یہ کیسے دعوی کر سکتا ہے کہ یہ افراد کی وہ روشن خیال خود غرضی ہے جو آپ سے آپ اجتماعی مفا د کی خدمت کرتی رہتی ہے ؟اور ایسے انفرادی تصرفات کے معاملے میں یہ خیال کر نا کتنی بڑی حماقت ہے کہ اس کا کھلا لا ئسنس دے کر قومی حکو مت کو خاموش بیٹھ جا نا چا ہیے اور ان اثرات کی طرف سے آنکھیں بند کر لینی چاہیں جو ایک قلیل التعداد گروہ کی کا رروا ئیو ں سے پو ری قوم پر پڑ رہے ہو ں ؟
3 – پھر اس طریق پیداوار نے جب ہزار ہا بلکہ لکھو کھا آدمیوں کو بے روزگار کر دیا اور وہ مجبو ر ہو گئے کہ اپنے دیہات اور قصبات سے اور اپنے محلوں اور گلیوں سے نکل نکل کر ان بڑے کا ر خانہ داروں اور تاجروں کے پاس مزدوری یا نوکری تلاش کرتے ہو ئے آئیں، تو لا محالہ اس کا نتیجہ یہی ہو نا چاہیے تھا اور یہی ہو ا کہ یہ بھوکے مرتے ہو ئے طالبین روزگار ان کم سے کم اجرتو ں پر کام کرنے کے لئے مجبور ہو گئے جو سرما یہ داروں نے ان کے سامنے پیش کیں۔ کام ان سب کو نہ ملا ،بلکہ قا بل کار آد میو ں کا ایک حصہ مستقلا بے کار رہا۔پھر جنہیں کا م ملا وہ بھی اس پو زیشن میں نہ تھے کہ سرمایہ دار سے سود اچکا کر بہتر شرائط منوا سکتے کیو نکہ وہ تو خود طالب روزگار ہو کر آئے تھے ،سرمایہ دار کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرتے تو شام کی روٹی تک کا بندوبست ان کے پاس نہ تھا،اور اس پر بھی کچھ اکڑ دکھاتے تو دوسرے ہزاروں بھوکے جھپٹ کر انہی شرائط پر روزگار اچک لینے کے لئے تیار تھے ۔اس طرح بوروژا حضرات کا وہ سا را استدلال غلط ثا بت ہو گیاجو وہ اس اصول کے حق میں پیش کرتے تھے کہ کھلے مقابلے میں اجیر اور مستاجر کے درمیان کسر و انکسار سے مناسب اور منصفانہ اجرتیں آپ ہی آپ طے ہو تی رہتی ہیں۔اس لئے کہ یہاں حقیقت میں مقابلے کے ساتھ اس کے “کھلے ہونے” کی شر ط مفقود تھی۔یہاں یہ صورت تھی کہ ایک آدمی نے ہزاروں آدمیوں کا رزق چھین کر پہلے اپنے قابو میں کر لیا،اور جب وہ بھوک سے تڑپ کر اس کے پاس آئے تو وہ ان سب کو نہیں بلکہ ان کے صرف دسویں یا بیسویں حصہ کو کام دینے پر راضی ہو ا۔ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ سودا چکانے کی سا ری طاقت اس ایک شخص کے پاس جمع ہو گئی اور ان ہزارو ں طالبین روزگار میں سے کو ئی بھی اپنی شرط منوانے کے قابل نہ رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنعتی انقلاب کے دور میں جدید سرمایہ داری جیسی جیسی بڑھتی گئی، سو سا ئٹی میں بے روزگاری کے علاوہ افلاس اور خستہ حالی کی مصیبت بھی بڑھتی گئی ۔بڑے بڑے صنعتی و تجارتی مرکزوں میں جو لوگ محنت مزدوری اور نو کری کے لئے جمع ہو ئے انھیں بہت کم اجرتو ں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کر نے پر راضی ہو نا پڑا۔وہ جا نوروں کی طرح کام کرنے لگے۔جانوروں سے بد تر حالت میں شہروں کے تنگ و تاریک مکا نا ت میں رہنے لگے ۔ان کی صحتیں برباد ہو نے لگیں۔ان کی ذہینتیں پست ہو نے لگیں۔ ان کے اخلاق بری طرح بگڑ نے شروع ہو گئے ۔نفسی نفسی کے عالم میں باپ بیٹے اور بھائی بھائی تک کے درمیان ہمدردی با قی نہ رہی۔والدین کے لئے اولاد اور شو ہروں کے لئے بیویاں تک وبال جا ن بن گئیں۔غرض زندگی کا کو ئی شعبہ ایسا نہ رہا جو اس غلط اور یک رخی قسم کی آزاد معیشت کے برے اثرات سےبچا نہ گیا ہو ۔
4 – اس پر مزید لطف یہ ہے کہ وہی بورژوا حضرات جو وسیع المشربی اور جمہو ریت کے زبردست داعی تھے ، اور جنھوں نے لڑ بھٹر کر مالکان ز مین کے مقابلہ میں اپنا وڈ ٹ کا حق تسلیم کرایا تھا،اس بات کے لئے تیار نہ تھے کہ یہی ووٹ کا حق ان لا کھوں کروڑوں عوام کو بھی حاصل ہو جن کی روزی کے یہ ما لک بن گئے تھے ۔وہ اپنے لئے تو یہ حق سمجھتے تھے کہ ایک ایک پیشے کے مالکان کاروبار اپنی اپنی انجمنیں بنا ئیں اور با ہمی قرار داد سے اشیا کی قیمتیں ، نو کروں کی تنخواہيں اور مزدوروں کی اجرتیں تجو یز کریں۔ لیکن وہ نو کروں اور مزدوروں کا یہ حق ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ وہ بھی منظم ہو ں اور اجتماعی قوت سے اجر تو ں اور تنخواہو ں کے لئے سو د اچکائیں۔ حد یہ ہے کہ ان حضرات کو اپنے اس حق پر بھی اصرار تھاکہ وہ جب چاہیں کارخانہ بند کر کے ہزار ہا ملازموں اور مز دوروں کو بیک وقت بے کار کر دیں اور اس طرح ان کو بھوکا مار کر کم اجر تو ں پر راضی ہو نے کے لئے مجبو ر کر دیں۔ مگر وہ نو کروں اور مزدورں کا یہ حق تسلیم کرنے کے لئے بلکل تیار نہ تھے کہ وہ بھی ہڑتال کرکے اپنی اجرتیں بڑھوانے کی کو شش کریں۔ اس کے ساتھ یہ حضرات اس بات کو سراسر جائز سمجھتے تھے کہ جو شخص انہی کے کارخانے یا تجارتی ادارے میں کام کرتے کرتے بو ڑھا ،یا بیمار ، یا کسی طور پر ازکار رفتہ ہو گیا ہو اسے وہ رخصت کر دیں ،مگر وہ شخص جو رخصت کیا جا رہا ہو اس کی یہ گزارش ان کے نزدیک ناروا تھی کہ حضور ! صحت ،طاقت،جوانی سب کچھ تو آپ کے کاروبار کی ترقی میں کھپا بٹیھا، اب اس جان نا تو ان کو کہاں لے جا ؤں اور ہا تھ پاؤں کی قوت کھو دینے کے بعد جو پیٹ بچا رہ گیا ہے اسے کس طر ح بھروں ؟ یہا ں پہنچ کر بو رژوا حضرات اپنے اس استدلال کو بھی با لکل بھو ل گئے جو وہ ذاتی مفاد کو ایک ہی صحیح محرک عمل قرار دینے کے حق میں پیش کر تے تھے ۔ انھیں اپنے متعلق تو یہ یاد رہا کہ اگر ان کے لئے نفع کے امکانات غیر محدود ہو ں گے تو وہ خوب کام کر یں گے اور اس پر اجتماعی ترقی و خو شحالی کی خدمت آپ سے آپ انجام پائے گی۔ لیکن اپنے نو کروں اور مزدوروں کے معا ملہ میں وہ بھو ل گئے کہ جس کا نفع محدود ہی نہیں بلکہ تنگ بھی ہو اور جس کا حال خراب اور مستقبل تا ریک ہو وہ آخر کیوں دل لگا کر اور جان لڑا کر کام کرے اور کس بنا پر اپنے کام میں دلچسپی لے ؟
5 – علاوہ بریں ان لو گوں نے کاروبار کے فطری اور معقول طریقوں سے ہٹ کر اپنے ذاتی مفاد کے لئے ایسے طریقے اختیار کرنے شروع کر دئیے جو صریحا اجتماعی مفاد کے خلاف ہیں اور جن سے مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھتی ہیں اور جن سے دولت کی پیداوار رکتی اور ترقی کی رفتار سست ہو تی ہے۔ مثال کے طور پر :
یہ طریقہ کہ اپنے سرمائے کے زور سے اشیائے ضرورت کو خرید خرید کر ان کے کھتے بھرتے چلے جائیں یہاں تک کہ بازار میں ان کی رسد کم اور مانگ بڑ ھ جائے اور اس طرح قیمتیں مصنوعی طور پر گراں کی جا سکیں۔
اور یہ طریقہ کہ مال پیدا کرنے والے اور اصل استعمال کرنے والے درمیان سینکڑوں آدمی محض اپنے بنک کے روپے اور ٹیلیفون کے بل پر اس کو غائبانہ بیچتے اور خریدتے چلے جائیں اور اس طرح زبردستی ان کا منافع لگ لگ کر اس کی قیمت بڑھتی رہے بغیر اس کے کہ ان بیچ والو ں نے اس مال کے پیدا کرنے یا ڈھو نے یا اسے کا رآمد بنانے کی کو ئی خدمت انجام دی ہو جس کی بنا پر وہ منافع میں حصہ لینے کے جائز حقدار ہو ں ۔
اور یہ طریقہ کہ پیدا شدہ مال کو صرف اس اندیشے سے جلا دیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے کہ اتنی بڑ ی مقدار مال کے منڈی میں پہنچ جانے سے قیمتیں گر جائیں گی۔
اور یہ طریقہ کہ وافر سرمایہ کے بل پر ایک چیز از قسم سامان تعیش تیار کی جائے اور پھر اشتہار سے ،ترغیب سے ،مفت با نٹ با نٹ کر ، طرح طرح کی سخن سازیاں کر کے زبردستی اس کی مانگ پیدا کی جا ئے اور اسے ان غریب اور متو سط الحال لو گو ں کی ضروریات زندگی میں خواہ مخواہ ٹھونس دیا جائے جو بیچارے اپنے فرائض حیات بھی پو ری طرح بجا لا نے کے قابل نہیں ہیں ۔
اور یہ طریقہ کہ عامہ الناس کو حقیقتا جن چیزوں کی ضرورت اور شدید ضرورت ہے ان کی فراہمی پر تو سر مایہ اور محنت صرف نہ ہو اور ان کاموں پر وہ بے دریغ صر ف کیا جائے جو با لکل غیر ضروری ہیں،صرف اس لئے کہ پہلی قسم کے کاموں کی بہ نسبت یہ دوسرے کام زیادہ نفع آور ہیں۔
اور یہ طریقہ کہ شخص یا گروہ نہایت مضر صحت اور مخرب اخلاق اور مفسد تہذ یب و تمدن چیزوں کو اپنے سرمائے کے زور سے خوشنما اور دلفر یب بنا بنا کر لائے اور علانیہ پبلک کے سفلی جذبات کو اپیل اپیل کر کر کے انھیں اپنے اس کاروبار کی طرف کھینچے اور ان کو دیوانہ بنا بنا کر ان کی قلیل آمدنیو ں کا بھی ایک معتدبہ حصہ بٹو ر لے در آنحا لیکہ ان غریبو ں کی آمدنیاں ان کااور ان کے بال بچوں کا پیٹ بھرنے تک کے لئے کا فی نہ ہو ں۔
اور سب سے بڑھ کر خطر ناک اور تباہ کن یہ طریقہ کہ اپنے تجارتی اور مالی مفاد کے لیے کمزور قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جائیں اور دنیا کو مختلف حلقہ ہائے اثر میں تقسیم کیا جائے ،اور ہر قوم کے بڑے بڑے سا ہو کار اور صناع اور تا جر اپنی اپنی قوموں کو اپنی حد سے بڑ ھی ہو ئی اغراض کا آلہ کار بنا کر ایک دوسرے کے خلاف ایسی دائمی کشمکش میں الجھا دیں جو نہ میدان جنگ میں سلجھنے پائے نہ ایوان صلح میں۔
کیا یہ سب واقع اس بات کا ثبو ت ہیں کہ اگر افراد کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے بے روک ٹو ک کام کرنے دیا جائے تو ان کے ہا تھو ں اجتماعی مفاد کی خدمت خود بخود انجام پا تی رہتی ہے ؟ اس طرح تو دراصل انھوں نے اپنے عمل سے خود یہ ثابت کر دکھایا کہ بے قید خود غر ضی بہت ہی کم روشن خیال ہو تی ہے ۔ خصوصا جب کہ معاشی و سیا سی طاقت بھی اسی کے ہا تھ میں مرتکز ہو جائے اور قانون ساز بھی وہ خود ہی ہو ۔ایسے حالات میں تو اس کی بیشتر کو شش اجتماعی مفاد میں نہیں بلکہ جماعت کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر بھینٹ چڑھانے میں صرف ہو نے لگتی ہے ۔
6 – ان سب حرکات پر مزید غضب انھوں نے یہ کیا کہ افراد کے لئے اس بات کو با لکل جائز اور معقول اور برحق ٹھرایا کہ وہ سرمایہ کو جمع کر کے سود پر چلائیں۔سود ایک قابل نفرت برائی کی حیثیت سے تو دنیا کے اکثر معاشروں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور دنیا کے قوانین نے بھی بسا اوقات اس کو بکراہت گوارا کیا ہے ۔ لیکن قدیم جاہلیت عرب کے بعد یہ فخر صرف جدید جاہلیت غرب کے بو رژوا مفکرین کو حا صل ہو ا کہ انھوں نے اسے کاروبار کی ایک ہی معقول صورت اور پو رے نظام مالیات کی ایک ہی صحیح بنیاد بنا کر رکھ دیا اور ملکی قوانین کو اس طرز پر ڈھالا کہ وہ قرضدار کے بجائے سود خوار کے مفاد کی پشت پناہ بن گئے ، اس عظیم الشان غلطی پر اور اس کے نتائج پر تو ہم نے اپنی کتا ب “سود” میں مفصل بحث کی ہے ،مگر یہاں اس سلسلہ کلام میں مختصرا صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ سو د کو قرض و استقراض اور مالی لین دین کی بنیاد بنا دینے کا نتیجہ یہ ہو ا کہ بے روک ٹو ک صنعتی انقلاب کی وجہ سے طاقت دولت، رسوخ و اثر اور تمام فوائد و منافع کا جو بہاؤ پہلے ہی ایک رخ پر چل پڑا تھا وہ اس کاروائی کی وجہ سے اور زیادہ یک رخا ہو گیا اور اس کی بدولت اجتماعی زندگی کا عدم تو ازن اپنے انتہا کو پہنچ گیا۔اب سو سا ئٹی میں سب سے زیادہ خو ش قسمت وہ لو گ ہو گئے جو کسی نہ کسی ترکیب سے کچھ سرمایہ اکھٹا کر کے بیٹھ گئے ہو ں ۔دماغی قابلیت رکھنے والے ، محنت کرنے والے ،کا روباری اسکیمیں سو چنے اور ان کی تنظیم کرنے والے اپنی جان کھپا کر کاروبار کو ہر مرحلے پر چلانے والے اور اشیاء ضرورت کی تیاری و فراہمی کے سلسلے کی ساری خدمات انجام دینے والے ،غر ض سب کے سب اس ایک آدمی کے سامنے ہیچ ہو گئے جو کاروبار میں روپیہ قرض دےکر اطمینان سے گھر بیٹھا ہو ا ہو ۔ان سب کا نفع غیر معین اور غیر یقینی ہے اور اس کا نفع معین اور یقینی۔ان سب کے نقصان کا خطرہ بھی ہے مگر اس کے لئے خالص منافع کی گارنٹی۔ یہ سب کا روبار کے بھلے اور برے میں دلچسپی لینے پر مجبو ر ہیں،اور وہ ہر چیز سے بے پروا صرف اپنے سود سے غرض رکھتا ہے ۔کا روبار فروغ پاتا نظر آئے تو وہ بے تحا شا اس میں سرمایہ لگانا شروع کر دیتا ہے ۔یہاں تک کے نفع کے امکا نا ت ختم ہو نے لگتے ہیں۔کاروبار سرد پڑتا نظر آئے تو وہ مدد کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاتا بلکہ پہلے کا لگا ہو ا سرمایہ بھی کھینچنے لگتا ہے یہاں تک کہ ساری دنیا پر سخت کسا وبازاری کا دورہ پڑ جا تا ہے ،ہر حال میں نقصان ،زحمت ،خطرے ،سب کچھ دوسروں کے لئے ہیں اور اگر اس کے لیے حد سے حد اگر کو ئی اتار چڑھاؤ ہے تو وہ صرف نفع کی کمی بیشی کا تا جر اور صناع اور زمیندار ہی نہیں،حکومتیں تک اس کی مزدور بنی ہو ئی ہیں۔اس کے دئیے ہو ئے روپے سے وہ سڑکیں،ریلیں ،نہریں اور دوسری چیزیں بناتی ہیں اور برسوں نہیں،صدیو ں ایک ایک شخص سے ٹیکس وصول کر کے اس کا سود اس کے گھر پہنچاتی رہتی ہیں۔حد یہ ہے کہ قوم کو اگر کو ئی لڑائی پیش آجاتی ہے تو جس کی جان جائے ،یا ہاتھ پاؤں کٹیں،یاجس کا گھر بر باد ہو ،یا جو اپنے باپ بیٹے یا شو ہر سےمحروم ہو ں ، ان سب کے بار سے تو قومی خزانہ بآسانی سبکدوش ہو جاتا ہے ،لیکن قوم ہی کے چند افراد نے لڑائی کے لیے سرمایہ قرض سے دیا ہو ان کا سو د سو سو اور دودو سو برس تک ادا کیا جاتا رہتا ہے اور اس سود کی ادائیگی میں ان لوگوں تک کو “چندہ” دینا پڑتا ہے جنھوں نے اسی جنگ میں جانیں قربان کی تھیں۔اسی طرح یہ سودی نظام مالیات سوسائٹی کی دولت پیدا کرنے والے اصل عاملین کے ساتھ ہر طرح ہو جہت میں ایک ہمہ گیر نا انصافی کر تا ہے ۔اس کی ساری اجتماعی معیشت کی با گیں چند خود غرض سرمایہ داروں کے ہا تھ میں دے دی ہیں جو نہ تو اجتماع کی فلاح و بہبو د سے کو ئی دلچپسی رکھتے ہیں ،نہ فی الواقع اجتماع کی کو ئی خدمت ہی انجام دیتے ہیں،مگر چو نکہ پو رے معاشی کاروبار کی جان ، یعنی سر مایہ ان کے قبضے میں ہے اور قانون نے ان کو اسےروک رکھنے اور سود پر چلانے کے اختیارات دے رکھے ہیں،اس لئے وہ صرف یہی نہیں کہ اجتماع کی مجموعی محنت سے پیدا ہو نے والی دولت کے شریک غالب بن گئے ہیں ،بلکہ ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی ہے کہ پو رے اجتماع کو اپنے مفاد کا خادم بنا لیں اور قوموں اور ملکوں کی قسمتو ں سے کھیلتے رہیں۔
7 – جدید سرمایہ داری کی ان بنیادوں پر جو نیا معاشرہ وجو د میں آیا وہ ہمدردی،تعاون ، رحم ، شفقت اور اس نوع کے تمام جذبات سے عاری اس کے بر عکس صفات سے لبریز تھا۔اس نظام میں غیر تو غیر، بھائی پر بھائی کا یہ حق نہ رہا کہ وہ اسے سہارا دے ۔ایک طرف ہر نئی مشین کی ایجاد سینکڑوں اور ہزاروں کو بہ یک وقت بیکار کیے دے رہی تھی،اور دوسری طرف حکومت ،سوسائٹی،کارخانہ دار یا ساہو کار ، کسی کی بھی یہ ذمہ داری نہ تھی کہ جو لو گ بے روزگار ہو جائیں،یا کام کرنے کے قابل نہ ہو ں ،یا ناکارہ ہو جائیں،ان کی بسر اوقات کا کو ئی بندوبست کرے ۔یہی نہیں بلکہ اس نئے نظام نے ایسے حالات پیدا کر دئے اور ایسے اخلاقیات بھی عام لوگو ں کے اندر ابھار دئیے کہ کسی گرے ہو ئے یا گرتے ہو ئے انسان کو سنبھا لنا کسی کافرض نہ رہا۔ حوادث ، بیماری ،موت اور تمام دوسرے نا موافق حالات کے لیے اس نظام نے جتنے بھی علاج تجویز کیے ،ان لو گوں کے لیے جو فی الوقت کما رہے ہو ں اور اپنی موجو دہ ضروریات سے اتنا زیادہ کما رہے ہو ں کہ کچھ پس انداز کر سکیں۔لیکن جو کما ہی نہ رہا ہو ،یا بس بہ قدرسدرمق کما رہا ہو ، وہ اپنے برے وقت پر کہاں سے مدد پائے ؟ اس کا کو ئی جواب جدید سرمایہ دار ی کے پا س اس کے سوا نہیں ہے کہ ایسا شخص مہاجن کے پاس جائے اور اپنے پہنے کے کپڑے یا گھر کا برتن،یا جو رو کا زیور رہن رکھ کر تین تین سو فی صدسالانہ سود پر قرض لے،اور جب یہ قرض مع سود ادا نہ ہو سکے تو پھر اسی مہاجن سے اسی کا قرض و سو د ادا کرنے کے لیے مز ید سودی قرض لے لے ۔
8 – ظاہر ہے کہ جب سوسائٹی میں لاکھو ں آدمی بے روزگار ہو ں،اور کروڑوں اس قدر قلیل المعاش ہو ں کہ سخت حاجت مند ہو نے کے باوجو د وہ مال نہ خرید سکیں جو دوکانوں میں بھر ا پڑا ہو ، تو صنعت اور تجارت کو پورا پو را ممکن فروغ کس طرح ہو سکتا ہے ۔اسی وجہ سےہم یہ عجیب و غریب صورت حال دیکھ رہے ہیں کہ اگر چہ ابھی دنیا میں بے حد و حساب قابل استعمال ذرائع موجو د ہیں،اور کڑوروں آدمی کام کرنے کے قابل بھی موجو د ہیں،اور وہ انسان بھی کروڑہا کروڑ کی تعداد میں ومو جو د ہیں جو اشیاء ضرورت کے محتاج اور اشیاء عیش ورفاہیت خریدنے کے خواہشمند ہیں،مگر یہ سب کچھ ہو تے ہو ئے بھی دنیا کے کارخانے اپنی استعداد کار سے گھٹ کر جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی منڈیو ں میں اس لیے پڑا رہ جاتا ہے کہ لوگوں کے پاس خریدنے کا روپیہ موجود نہیں،اور لاکھوں بے روزگار آدمیوں کو کام پر اس لیے نہیں لگایا جا سکتا کہ جو تھوڑا مال بنتا ہے وہی بازار میں نہیں نکلتا، اور سرمایہ اور قدرتی ذرائع بھی پو ری طرح زیر استعمال اس لیے نہیں آنے پاتے کہ جس قلیل پیمانے پر وہ استعمال میں آ رہے ہیں اسی کا بار آور ہو نا مشکل ہو رہا ہے کجا کہ مزید ذرائع کی ترقی پر مزید سرمایہ لگانے کی کوئی ہمت کر سکے ۔یہ صورت حال بو رژوا مفکرین کے اس استدال کی جڑ کا ٹ دیتی ہے جو وہ اپنے دعو ے کے ثبو ت میں پیش کرتے تھے کہ بے قید معیشت میں اپنے انفرادی نفع کے لیے افراد کی تگ دوو خود بخودذرائع و وسا ئل کی ترقی اور پیداوار کی افزائش کا سامان کرتی رہتی ہے ۔ ترقی اور افزائش تو درکنار،یہاں تو تجربہ سے یہ ثابت ہو ا کہ انھوں نے اپنی نادانی سے خود اپنے منافع کے راستے میں بھی رکا وٹیں پیدا کر لیں۔