اس دور میں دہی”لبرلزم” جس نے پچھلی لڑائی جیتی تھی،نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اٹھااور اس نے سیاست میں جمہوریت کا تمدن و معاشرت ادب و اخلاق میں انفرادی آزادی کا اور معاشیات میں بے قیدی (laissez faire policy) کا صور پھونکھنا شروع کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ چرچ ہو ، اسٹیٹ ہو یا سوسائٹی، یا کسی بھی فرد کی سعی ارتقا ء اور سعی انتفاع میں رکا وٹیں عا ئد کر نے کا حق نہیں ہے ۔ ہر شخص کو بالکل آزادی کے ساتھ یہ مو قع حا صل ہونا چاہئے کہ قوتوں اورقابلیتوں کو اپنے ر جحانات کے مطابق استعمال کر ے۔اور جتنا آگے بڑھ سکتا ہے بڑھتا چلا جائے۔ خود سو سا ئٹی کے مفاد کی بھی بہترین خدمت اسی طر ح ہو سکتی ہے کہ اس کے ہر فرد کو غیر محدود آزادی حاصل ہو ۔ہر شعبہ حیات اور ہر راد عمل میں مکمل آزادی۔ہر خارجی رکاوٹ سے ،ہر رسمی قید سے،ہر مذہبی واخلاقی بندش سےاور ہر قانونی یا اجتماعی مداخلت سے پوری آزادی۔
اس طر ح اس نظر یہ کے حامیوں نے ہر طرف رواداری،بے قیدی،اباحیت،انفرادیت اور قصہ مختصریہ کہ اپنی اصطلاح خاص میں “مقبولیت” کو برسر کارلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
سیاست میں ان کا مطالبہ یہ تھا کہ حکو مت کے اختیارات کم سے کم ہوں اور ہر فرو کی آزادی کے حدود زیا دہ سے زیا دہ ۔حکومت صرف ایک عدل قائم کرنے والی ایجنسی ہو جو افراد کو ایک دوسرے کے حدود میں دخل انداز ہو نے سے ر وکتی ر ہے اور انفرادی آزادی کی حفا ظت کرے ۔باقی رہی معاشی و تمدنی زندگی،تو اس کا سارا کا روبار افراد کی سعی و عمل اور فکر و تدبر کے بل پر چلنا چاہئے ۔اس میں حکومت کو نہ عامل کی حیثیت ہی سےدخل دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی رہنما کی حیثیت سے ۔اس کے ساتھ سیا سیات میں وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ حکمرانی اقتدار نہ تو کسی شاہی خاندان کی ملک ہے اور نہ چند زمیندارگھرانوں کا اجارہ بن کر رہ جائے۔ ملک عام باشندوں کا ہے ۔حکومت کا سارا کاروبار انہی کے دیئے ہوئے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔لہذا انہی کی رائے سےحکومتیں بننی اور ٹوٹنی اور بدلنی چاہئیں اور انہی کی آواز کوقانوں سازی اور نظم و نسق میں فیصلہ کن اثر حاصل ہونا چاہئے ۔یہی نظریات ان جدید جمہوریتوں کی بنیاد بنےجو اٹھارویں صدی کے آخر سے دنیا میں قائم ہونا شروع ہوئیں۔
معاشیات میں جن اصولوں پر انھوں نے زور دیا وہ یہ تھا کہ اگر فطری قوانیں معیشت کو خارجی مداخلت اور خلل اندازی کے بغیر خود کام کرنے دیا جائے تو افراد کی انفرادی کوششوں سے آپ ہی آپ اجتماعی فلاح کی بڑی سے بڑی خدمت انجام پاتی جائے گی۔پیدوار زیادہ سے زیادہ ہو گی اور اس کی تقسیم بھی بہتر سے بہتر طریقہ پرہو تی رہے گی۔بشرطیکہ لوگوں کو سعی و عمل کی آزادی حاصل رہے اور حکومت اس فطری عمل میں مصنوعی طور پر مداخلت نہ کرے ۔بے قید معیشت کا یہی اصول جدید نظام سرمایہ داری کا بنیادی فارمولا قرار پایا۔
اس میں شک نہیں کہ نشاۃ جدیدہ کے دور کی وسیع المشربی کی طرح یہ صنعتی انقلاب کے دور کی وسیع المشربی بھی اپنے اندر صداقت کے کچھ عناصر رکھتی تھی اور یہی عناصر آخر کار اس کی فتح یابی کے موجب ہوئے لیکن یہاں پھر مغربی ذہن کی وہی دوبنیادی کمزوریاں اس صداقت کے ساتھ لگی ہوئی تھیں جن کو پاپائی وجاگیرداری کے دور سے ہم برابر کار فر ما دیکھتے چلے آ رہے ہیں یعنی خود غرضی اور انتہا پسندی۔
خود غرضی کا کرشمہ یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کے مطالبہ حق و انصاف میں کو ئی خلوص نہ تھا۔جو صحیح اصول وہ پیش کرتے تھے ان کا اصل محرک حق پسندی نہ تھی بلکہ صرف یہ بات تھی کہ وہ ان کی اغراض کے لئے مفید تھے اور اس کا ثبو ت یہ تھا کہ وہ جن حقوق کا خود اپنے لئے مطالبہ کرتے تھے وہی حقوق اپنے مزدوروں اور نادار عوام کو دینے کے لئے تیار نہ تھے ۔رہی انتہا پسندی،تو وہ ان کے مخلص اہل علم اور اہل قلم حضرات کی بات بات میں نمایاں تھی۔چند صداقتوں کو انھوں نے لیا اور انھیں ان کی حد سے بہت زیادہ بڑھا دیا۔چند دوسری صداقتوں کو انھوں نے نظر انداز کردیا ۔اور زندگی میں جو مقام ان کے لئے تھااس میں بھی اپنی منظور نظر صداقتوں کو لا بٹھا یا حالانکہ ہر صداقت اپنی حد سے نکل جانے کے بعد جھوٹ بن جاتی ہے اور الٹے نتائج دکھانے لگتی ہے ۔ یہ افراط و تفریط اس نظام حیا ت کے سارے ہی گوشوں میں پائی جاتی ہے جو “بے قیدی”،”انفرادیت”،اور”جمہوریت”کے ان نظریات کے زیر اثر مرتب ہوا۔لیکن اس وقت ہمارا موضوع چونکہ خاص طور پر صرف معیشت کا گو شہ ہے ،اس لئے ہم دوسرے گوشوں کو چھوڑتے ہوئے صر ف اسی گوشےکا جائزہ لے کے دکھائیں گے کہ فطری قومی معیشت کے ساتھ خود غرضی اور انتہا پسندی کی آمیزش سےکس قسم کا غیر متوازن نظام معاشی ان لوگوں نے بنایا اور اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے ۔