جیسا کہ ہم ابھی اشارہ کر چکے ہیں،بے قید معیشت کے “وسیع المشرب”نظریہ پر جس معاشی نظام کی عمارت اٹھی اس کا نام اصطلاح میں “جدید نظام سرمایہ داری (modern capitalism) ہے “
بے قید معیشت کے اصول
1 – شخصی ملکیت کا حق
2 – ۔آزادی سعی کا حق
3 – ذاتی نفع کا محرک عمل ہونا
4 – مقابلہ اور مسابقت
5 – اجیر اور مستاجر کے حقوق کا فرق
6 – ۔ارتقا کے فطری اسباب پر اعتماد
7 – ریاست کی عدم مداخلت
1 – شخصی ملکیت کا حق ۔ صر ف انہی اشیا کا حق نہیں جنھیں آدمی خود استعمال کرتا ہے ،مثلا کپڑے، برتن، فر نیچر،مکان،سواری،مویشی وغیرہ۔ بلکہ ان اشیا کی ملکیت کا حق بھی جن سے آدمی مختلف قسم کی اشیاء ضرورت پیدا کرتا ہے تاکہ انھیں دوسروں کے ہا تھ فروخت کرے، مثلا مشین ،آلات،زمین،خام مواد وغیرہ۔پہلی قسم کی چیزوں پر تو بلا نزاع ہر نظام میں انفرادی حقوق ملکیت تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن بحث دوسری قسم کی اشیا یعنی ذرائع پیدوار کے معاملے میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے کہ آیا ان پر بھی انفرادی ملکیت کا حق جائز ہے کہ نہیں۔نظام سرمایہ داری کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ نہیں،بلکہ درحقیت یہی حق اس نظام کا سنگ بنیاد ہے ۔
2 – آزادی سعی کا حق ۔ یعنی افراد کا یہ حق کہ دہ فردا فردا ، یا چھوٹے بڑے گروہو ں کی شکل میں مل کر اپنے ذرائع کو جس میدان عمل میں چاہیں استعمال کریں۔ اس کو شش کے نتیجہ میں جو فوائد حاصل ہو ں ،یا جو نقصانات پہنچیں،دونوں انہی کے لئے ہیں ۔نقصان کا خطرہ بھی وہ خود برداشت کریں گے ، اور ان کے فائدے پر بھی کرئی پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ان کو پو ری آزادی ہے کہ اپنی پیداوار اور اشیا کی تیاری کو جس قدر چاہیں بڑھائیں یا گھٹائیں ،اپنے مال کی جو قیمت چاہیں رکھیں ،جتنے آدمیوں سے چا ہیں ،اجرت پر یا تنخواہ پر کام لیں ،اپنے کا روبا ر کے سلسلے میں جو شرائط اور جو ذمہ داریاں چاہیں قبول کریں اور جو ضابطے چاہیں بنائیں۔بائع اور مشتری،اجیر اور مستاجر ،مالک اور نوکر کے درمیان کا روبار کی حد تک سارے معا ملات آزادانہ طے ہونے چاہئیں،اور جن شرائط پر بھی ان کی باہمی قرار داد ہوجائے اسے نافذ ہونا چاہئے ۔
3 – ذاتی نفع کا محرک عمل ہونا ۔ نظام سرمایہ داری اشیاء ضرورت کی پیدوار ترقی کے لئے جس چیز پر انحصار کرتا ہے وہ فائدے کی طمع اور نفع کی امید ہے جو ہر انسان کے اندر فطرۃموجو د ہے اور اس کو سعی و عمل پر ابھارتی ہے ۔نظام سر مایہ داری کے حامی کہتے ہیں کہ انسانی ز ندگی میں اس سے بہتربلکہ اس کے سواکوئی دوسر امحرک عمل فراہم نہیں کیا جا سکتا۔آپ نفع کے امکانات جس قدر کم کر دیں گے اسی قدر آدمی کی جددجہد اور محنت کم ہو جائے گی نفع کے امکانات کھلے رکھیے اور ہر شخص کو موقع دیجیے کہ اپنی محنت و قابلیت سے جتنا کما سکتا ہے کمائے ۔ہر شخص خود زیادہ سے زیا دہ اور بہتر سے بہتر کام کرنے کی کو شش کرنے لگے گا ۔اس طرح آپ سے آپ پیداوار بڑھے گی، اس کا معیار بھی بلند سے بلند ہوتا چلا جائے گا،تمام ممکن ذرائع و وسائل استعمال ہوتے چلے جائيں گے ،اشیا ء ضرورت کی بہم رسانی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا جائے گااور ذاتی نفع کا لالچ افراد سے اجتماعی مفاد کی وہ خدمت خود ہی لے لے گا جو کسی دوسری طرح ان سے نہیں لی جاسکتی۔
4 – مقابلہ اور مسابقت ۔ نظام سرما یہ داری کے وکلا کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جو بے قید معیشت میں افراد کی خود غرضی کو بے جا حد تک بڑھنے سے روکتی ہے اور ان کے درمیان اعتدال و توازن قائم کرتی رہتی ہے ۔ یہ انتظام فطرت نے خود ہی کر دیا ہے ۔کھلے بازار میں جب ایک ہی جنس کے بہت سے تیار کرنے والے ،بہت سےسوداگر اور بہت سے خریدار ہوتے ہیں تو مقابلے میں آ کر کسر و انکسار سے خود ہی قیمتوں کا ایک مناسب معیار قائم ہوجاتا ہے اور نقع اندوزی نہ مستقل طور پر حد سے بڑھنے پاتی ہے نہ حد سےگھٹ سکتی ہے ۔اتفاقی اتار چڑھاؤ کی بات دوسری ہے ،علی ہذا القیاس کام کرنے والے اور کام لینے والے بھی اپنی اپنی جگہ مقابلے کی بدولت خود ہی اجرتوں اور تنخواہوں کے متوازن معیار قائم کرتے رہتے ہیں بشرطیکہ مقابلہ کھلا اور آزاد نہ ہو ،کسی قسم کی اجارہ داریوں سے اس کر تنگ نہ کر دیا جائے ۔
5 – اجیر اور مستاجر کے حقوق کا فرق ۔ نظام سر ما یہ داری میں ہر کا روباری ادارے کے کا رکن دو فریقوں پر منقسم ہو تے ہیں۔ایک مالک ،جو اپنی ذمہ داری پر کسی تجارت یا صنعت کو شروع کرتے ہیں اور چلاتے ہیں اور آخر تک اس کے نفع و نقصان کے ذمہ دار رہتے ہیں۔دوسرے مزدور یا ملازم جن کو نفع و نقصان سے کچھ سروکار نہیں ہو تا،وہ بس اپنا وقت اور اپنی محنت وقابلیت اس کاروبار میں صرف کرتے ہیں اور اس کی ایک طے شدہ اجرت لے لیتے ہیں۔بسا اوقات کا روبار میں مسلسل گھاٹا آتا رہتا ہے مگر اجیر اپنی اجرت لے جاتا ہے ۔بسا اوقات کا روبار بالکل بیٹھ جاتا ہے جس میں مالک تو بالکل بربا د ہو جاتا ہے مگر اجیر کے لئے صر ف اتنا فرق پڑتا ہے کہ آج اس دکان یا کا رخانے میں کام کر ر ہا تھا تو کل دوسری جگہ جا کھڑا ہو ا۔نظام سرمایہ داری کے حامی کہتے ہیں کہ معا ملہ کی یہ نوعیت آپ ہی یہ بات کر دیتی ہے کہ از روئے انصاف کا روبار کا منا فع اس کا حصہ ہے ۔ جس کے حصے میں کا روبار کا نقصان آتا ہے اور جو کاروبار کا خطر ہ مول لیتا ہے ۔رہا اجیر تو وہ اپنی مناسب اجرت لینے کا حق دار ہے جو معروف طریقہ پراس کے کام کی نوعیت اور مقدار کے لحاظ سے مارکیٹ کی شرح کے مطابق طے ہو جائے ۔اس اجرت کو نہ تو اس دلیل کی بنا پر بڑھنا چاہئے کہ کا روبار میں منافع ہو رہا ہے اور نہ اس دلیل پر گھٹنا چاہئے کہ کا روبار میں گھاٹا آ رہا ہے ۔اجیر کا کام اس کو طے شدہ اجرت کا بہر حال مستحق بناتا ہے اور بس طے شدہ اجرت ہی کا مستحق بناتا ہے ۔ ان اجرتو ں میں کمی بیشی اگر ہو گئ تو اس فطر ی قانون کے تحت ہو تی رہے گی جس کے تحت دو سر ی تمام اشیا کی قیمتیں گھٹتی اور بڑ ھتی رہتی ہیں۔کام لینے والے کم اور کام کے خواہش مند زیادہ ہو ں گے تو اجرتیں آپ ہی آپ کم ہو ں گی۔کام کرنے والے کم اور کام لینے و الے زیادہ ہو ں گے تو اجرتیں خود بڑ ھ جائیں گی۔ اچھے اور ہو شیار کارکن کا کام آپ زیادہ اجرت لائے گااور کا روبار کا مالک خود اپنے فائدہ کی خاطر اس کو انعام اور ترقی دے دے کر خو ش کرتا رہے گا۔خود کا رکن بھی جیسی کچھ اجرت پائے گا ویسی ہی رہ کا روبار کی تر قی و بہتری میں جان لڑائے گا۔مالکو ں کی خواہش فطرۃ یہ ہو گی کہ لاگت کم سے کم اور منا فع زیادہ سے زیا دہ ہو۔اس لیے وہ اجرتیں کم رکھنے پر مائل ہو ں گے ۔کارکن فطرۃ یہ چا ہیں گے کہ ان کی ضروریات زیادہ سے زیا دہ فراغت کے ساتھ پو ری ہو ں اور ان کا معیار زندگی بھی کچھ نہ کچھ بلند ہو تا رہے ، اس لئے وہ ہمیشہ اجرتیں بڑھوانے کے خواہش مند رہے گے۔اس تضادسے ایک گو نہ کشمکش پیدا ہو نی ایک قدرتی بات ہے لیکن جس طرح دنیا کے ہر معاملے میں ہوا کرتا ہے ،اس معاملے میں بھی فطری طور پر کسر وانکسار سےا یسی اجرتیں طے ہو تی رہیں گی جو فریقین کے لئے قابل قبول ہو ں۔
6 ۔ ارتقا کے فطری اسباب پر اعتماد ۔ نظام سرمایہ داری کے وکیل کہتے ہیں کہ جب کاروبار میں منافع کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ لاگت کم اورپیدوار زیادہ ہو ،تو کا روباری آدمی کو اس کا اپنا ہی مفاداس با ت پر مجبو ر کرتا رہتاہے کہ پیدوار بڑھانے کے لئے زیادہ زیادہ بہتر سائٹفک طریقے اختیار کرے ،اپنی مشینوں اور آلات کو زیادہ سےزیادہ اچھی حالت میں رکھے،خام مواد بڑی مقدار میں کم قیمت پر حاصل کر ے۔اور اپنے کاروبار کے طریقوں کو اور اپنی تنظیمات کو ترقی دینے میں ہر وقت دماغ لڑاتا رہے۔یہ سب کچھ کسی بیرونی مداخلت اور مصنوعی تد بیر کے بغیر،بے قید معیشت کی اندورنی منطق خود ہی کراتی چلی جاتی ہے ۔فطرت کے قوانین کثیر التعداد منتشر افراداور گروہو ں کی انفرادی سعی و عمل سے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کا وہ کام آپ ہی آپ لیتے رہتے ہیں جو کسی اجتماعی منصوبہ بندی سے اتنی خوبی کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔یہ فطر ت کی منصوبہ بندی ہےجو غیر محسوس طور پر عمل میں آتی ہے۔
7 – ریاست کی عدم مداخلت ۔ اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ با لا اصولوں پر سوسا ئٹی کی فلاح و بہبود کا بہترین کام اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ افرادکو بلا کسی قید و بندکے آزادانہ کا م کرنے کا موقع حا صل ہو ۔فطرت نے معاشی قوانیں میں ایک ایسی ہم آہنگی رکھ دی ہے کہ جب وہ سب مل جل کر کام کر تے ہیں تو نتیجہ میں سب کی بھلائی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایک فرداپنے ہی ذاتی نفع کے لئے سعی کر رہا ہےجیسا کہ اوپر دکھا یا جا چکا ہے،جب افراد کو اپنی سعی کا صلہ غیر محدود منافع کی شکل میں ملتا نظر آتا ہے تو وہ زیا دہ سے زیادہ دولت پیدا کرنے کے لئے اپنی ساری قوت و قا بلیت صرف کر دیتا ہے ۔اس سے لا محا لہ سب لوگوں کے لئے اچھے سے اچھا مال وافر سے وافر مقدار میں تیار ہو تا ہے کھلے با زار میں جب تاجروں اور صناعوں اور خام مقدار بہم پہنچانے والوں کا مقابلہ ہو تا ہے تو قیمتوں کا اعتدال آپ سے آپ قائم ہوتا ہے،اشیا کا معیار آپ سے آپ بلند ہوتا جاتا ہے اور خود ہی معلوم ہوتا رہتا ہے کہ سو سائٹی کو کن چیزوں کی کتنی ضرورت ہے ۔اس سارے کا روبار میں ریاست کا کام یہ نہیں کہ پیدائش دولت کے فطری عمل میں خواہ مخواہ مداخلت کرے اس کا توازن بگاڑے ،بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کرے جن میں انفرادی آزادی عمل زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو سکے ۔اسے امن اور نظم قائم کرنا چاہئے ،حقوق ملکیت کی حفاظت کرنی چاہئے ،معا ہدوں کوقانون کے زور سے پورا کر ا نا چاہئے اور بیرونی حملوں اور مزاحمتوں اور خطروں سے ملک کو اور ملک کے کاروبار کو بچانا چاہئے ۔ریا ست کا منصب یہ ہے کہ منصب اور نگران اور محافظ کی خدمت انجام دے نہ یہ کہ خود تا جر اور صناع اور زمیندار بن بیھٹے، یا تا جروں اور صناعوں اور زمینداروں کو اپنی بار بار کی خلل اندازی سے کام نہ کرنے دے۔