جدید بینکنگ

مگر سود کی شناعتوں کا مضمون ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی اپنی ذاتی برائیوں کو اس تنظیم نے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے جو زمانہ حال میں مہاجنی و ساہوکاری کے پرانے طریقوں کی جگہ جدید بینکنگ کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس تنظیم نے قدیم صراف کی گدّی پر دور جدید کے بینکر اور فینانشیر کو لا بٹھایا ہے ۔ جس کے ہاتھ میں آ کر سود کا ہتھیار ہر زمانے سے زیادہ غار ت گر بن گیا ہے۔

ابتدائی تاریخ

اس نئے نظامِ ساہوکاری کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ابتدائی تاریخ آپ کے سامنے ہو۔
مغربی ممالک میں اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ پہلے جب کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور اسے گھروں میں رکھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سناروں کے پاس رکھوا دیتے تھے۔ سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فلاں سنار کے پاس محفوظ ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رسیدیں خرید وفروخت اور قرضوں کی دائیگی اور حسابات کے تصفیہ میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ آسان تھی کہ سونے کی رسید ایک دوسرے کو دے دیں۔ بہ نسبت اس کے کہ ہر لین دین کے موقع پر سونا سنار کے ہاں سے نکلوایا جائے اور اس کے ذریعہ سے کاروبار ہو۔ رسید حوالہ کردینے کے معنی گویا سونا حوالہ کردینے کے تھے۔ اس لیے تمام کاروبار اغراض کے لیے یہ رسیدیں اصل سونے کی قائم مقام بنتی چلی گئیں اور اس امر کی نوبت بہت ہی کم آنے لگی کہ کوئی شخص وہ سونا نکلوائے جو ایک رسید کے پیچھے سنار کے پاس محفوظ تھا۔ اس کا موقع بس انہی ضرورتوں کے وقت پیش آتا تھا۔ جب کسی کو بجائے خود سونے ہی کی ضرورت ہوتی تھی ورنہ ذریعہ مبادلہ کی حیثیت سے جتنے کام سونے سے چلتے تھے وہ سب ان ہلکی پھلکی رسیدوں کے ذریعہ سے چل جایا کرتے تھے جن کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس قدر سونے کا مالک ہے۔

اب تجربہ سے سناروں کو معلوم ہوا کہ جو سونا ان کے پاس لوگوں کی امانتوں کا جمع ہے اس کا بمشکل دسواں حصہ نکلوایا جاتا ہے’ باقی 9 حصے ان کی تجوریوں میں بے کار پڑے رہتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ 9 حصوں کو استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے یہ سونا لوگوں کو قرض دے کر اس پر سود وصول کرنا شروع کردیا اور اسے اس طرح استعمال کرنے لگے گویا کہ وہ ان کی اپنی ملک ہے۔ حالانکہ در اصل وہ لوگوں کی ملک تھا۔ مزید لطیفہ یہ ہے کہ وہ اس سونے کے مالکوں سے اس کی حفاظت کا معاوضہ بھی وصول کرتے تھے اور چپکے چپکے اسی سونے کو قرض پر چلا کر اس کا سود بھی وصول کرلیتے تھے۔

پھر ان کی چلاکی اور دغا بازی اس حد پر بھی نہ رکی۔ وہ اصل سونا قرض پر دینے کے بجائے اس کی قوت پر کاغذی رسیدیں چلانے لگے۔ اس لیے کہ ان کی دی ہوئی رسیدیں بازار میں وہ سارے کام کر رہی تھیں جو ذریعہ مبادلہ ہونے کی حیثیت سے سونا کرتا تھا۔ اور چونکہ انہیں تجربہ سے معلوم ہوچکا تھا کہ محفوظ سونے کا صرف دسواں حصہ ہی عموماً واپس مانگا جاتا ہے اس لیے انہوں نے باقی 9 حصوں کی قوت پر 9 کی نہیں بلکہ 90 حصوں کی جعلی رسیدیں بنا کر زر کاغذی کی حیثیت سے چلانی اور قرض دینی شروع کردیں۔ اس معاملہ کو مثال کے ذریعہ سے یوں سمجھیے کہ اگر سنار کے پاس ایک شخص نے 3 روپے کا سونا جمع کرایا تھا تو سنار نے سو سو روپے کی رسیدیں بنائیں’ جن میں سے ہر ایک پر لکھا کہ اس رسید کے پیچھے سو روپے کا سونا میرے پاس جمع ہے۔ ان دس رسیدوں میں سے ایک (جس کے پیچھے فی الواقع سو روپے کا سونا موجود تھا ) اس نے سونا جمع کرانے والے کے حوالہ کی’ اور باقی 9 سو روپے کی نو رسیدیں (جن کے پیچھے در حقیقت کوئی سونا موجود نہ تھا) دوسرے لوگوں کو قرض دیں اور اس پر ان سے سود وصول کرنا شروع کردیا۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت قسم کا دھوکا اور فریب تھا۔ اس دغا بازی اور جعل سازی کے ذریعہ سے ان لوگوں نے 90 فی صدی جعلی روپیہ بالکل بے بنیاد کرنسی کی شکل میں بنا ڈالا اور خواہ مخواہ اس کے مالک بن بیٹھے اور سوسائٹی کے سر پر اس کو قرض کے طور پر لاد لاد کر اس پر دس بارہ فی صدی سود وصول کرنے لگے۔ حالانکہ انہوں نے اس مال کو کمایا تھا’ نہ کسی جائز طریقہ سے اس کے حقوق ملکیت انہیں پہنچتے تھے’ اور نہ وہ کوئی حقیقی روپیہ تھا جس کو ذریعہ تبادلہ کے طور پر بازار میں چلانا اور اس کے عوض اشیاء اور خدمات حاصل کرنا کسی اصولِ اخلاق و معیشت و قانون کی رو سے جائز ہوسکتا تھا۔ ایک سادہ مزاج آدمی جب ان کے اس کرتوت کی روداد سنے گا تو اس کے ذہن میں قانون تعزیرات کی وہ دفعات گھومنے لگیں گی جو دھوکے اور جعل سازی کے جرائم سے متعلق ہیں’ اور وہ اس کے بعد یہ سننے کا متوقع ہوگا کہ پھر شاید ان سناروں پر مقدمہ چلایا گیا ہوگا۔ لیکن وہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ یہ سنار اس مسلسل جعل سازی سے ملک کی 90 فی صدی دولت کے مالک ہوچکے تھے۔ بادشاہ اور امراء اور وزراء سب ان کے قرض کے جال میں پھنس چکے تھے۔ خود حکومتیں لڑائیوں کے موقع پر اور اندرونی مشکلات کی عقدہ کشائی کے لیے ان سے بھاری قرض لے چکی تھیں۔ اب کسی کی مجال تھی جو یہ سوال اٹھا سکتا کہ یہ لوگ کہاں سے اتنے بڑے سرمائے کے مالک ہوگئے۔ پھر جیسا کہ ہم اپنی کتاب “اسلام اور جدید معاشی نظریات” میں بیان کرچکے ہیں’ پرانی جاگیرداری کے مقابلہ میں جو نئی بورژوا تہذیب وسیع المشربی اور آزادی اور جمہوریت کے زبردست اسلحہ لے کر نشاۃ ثانیہ کے دور میں اٹھ رہی تھی اس کے میر کاروں اور مقدمۃ الجیش یہی ساہوکار اور کاروباری لوگ تھے جن کی پشت پر فلسفہ اور ادب اور آرٹ کاایک لشکر عظیم ہر اس شخص اور گروہ پر ہلہ بول دینے کے لیے تیار تھا جو مسٹر گولڈ سمتھ کے سرمایہ عظیم کا ماخذ دریافت کرنے کی جرات کرتا۔ اس طرح وہ دغابازی وہ جعل سازی’ جس سے یہ دولت بنائی گئی تھی’ قانون کی گرفت سے صرف محفوظ ہی نہیں رہ گئی بلکہ قانون نے اس کو بالکل جائز تسلیم کرلیا’ اور حکومتوں نے ان سناروں کا جواب بینکر اور فینانشر بن چکے تھے’ یہ حق مان لیا کہ وہ نوٹ جاری کریں’ اور ان کے جاری کردہ نوٹ باقاعدہ زرِ کاغذی کی حیثیت سے کاروبار کی دنیا میں چلنے لگے۔

دوسرا مرحلہ

یہ تھی اس سرمائے کی اصلیت جس کے بل بوتے پر قدیم سنار دورِ جدید کے ساہوکار اور اقلیم زر کے فرماں روا بنے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک قدم اور بڑھایا جو پہلے قدم سے بھی زیادہ فتنہ انگیز تھا۔
جس دور میں یہ جدید ساہوکار اس جعلی سرمایہ سے طاقت پکڑ کر سر اٹھا رہی تھی یہ وہی دور تھا جب مغربی یورپ میں ایک طرف صنعت اور تجارت سیلاب کی سی شدت کے ساتھ اٹھ رہی تھی اور تمام دنیا کو مسخر کیا چاہتی تھی’ دوسری طرف تمدن و تہذیب کی ایک نئی عمارت اٹھ رہی تھی جو یونیورسٹیوں سے لے کر میونسپلٹیوں تک زندگی کے ہر شعبے کی تعمیر جدید چاہتی تھی۔ اس موقعہ پر ہر قسم کے معاشی اور تمدنی کاموں کو سرمائے کی حاجت تھی ’نئی نئی صنعتیں اور تجارتیں اپنے آغاز کے لیے سرمایہ مانگ رہی تھیں۔ پہلے کے چلتے ہوئے کاروبار اپنی ترقی اور پیش قدمی کے لیے بڑی اور روز افزوں مقدار میں سرمائے کے طالب تھے۔ اور تہذیبی و تمدنی ترقی کی مختلف انفرادی و اجتماعی تجویزیں بھی اپنی ابتدا اور اپنے ارتقا کے لیے اس چیز کی محتاج تھیں۔ ان سب کاموں کے لیے خود کارکنوں کا اپنا ذاتی سرمایہ بہرحال ناکافی تھا۔ اب لا محالہ دو ہی ذرائع تھے جن سے یہ خونِ حیات اس تمدنِ جدید کے نوخیز شباب کی آبیاری کے لیے بہم پہنچ سکتا تھا۔

۔ وہ سرمایہ جو سابق سناروں اور حال کے ساہوکاروں کے پاس تھا۔
۔ وہ سرمایہ جو متوسط اور خوش حال طبقوں کے پاس ان کی پس انداز کی ہوئی آمدنیوں کی شکل میں جمع تھا۔
ان میں سے پہلی قسم کا سرمایہ تو تھا ہی ساہوکاروں کے قبضہ میں’ اور وہ پہلے سے سود خواری کے عادی تھے’ اس لیے اس کا ایک حبّہ بھی حصہ داری کے اصول پر کسی کام میں لگنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس ذریعہ سے جتنا روپیہ بھی صناعوں اور تاجروں اور دوسرے معاشی و تمدنی کارکنوں کو ملا قرض کے طور پر ملا اور اس شرط پر ملا کہ خواہ ان کو نفع ہو یا نقصان اور خواہ ان کا نفع کم ہو یا زیادہ ’ بہرحال ساہوکار کو انہیں ایک طے شدہ شرح کے مطابق منافع دینا ہوگا۔

اس کے بعد صرف دوسرا ذریعہ ہی ایسا رہ جاتا تھا جس سے معاشی کاروبار اور تعمیر و ترقی کے کاموں کی طرف سرمایہ اچھی اور صحت بخش صورتوں سے آ سکتا تھا ۔ مگر ان ساہوکاروں نے ایک ایس چال چلی جس سے یہ ذریعہ بھی انہی کے قبضہ میں چلا گیا اور انہوں نے اس کے لیے بھی تمدن و معیشت کے معاملات کی طرف جانے کے سارے دروازے’ ایک سودی قرض کے دروازے کے سوا بند کردیے’ وہ چال یہ تھی کہ انہوں نے سود کا لالچ دے کر تمام ایسے لوگوں کا سرمایہ بھی اپنے پاس کھینچنا شروع کردیا جو اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی بچا رکھتے تھے’ یا اپنی ضرورتیں روک کر کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کے عادی تھے۔ یہ بات اوپر آپ کو معلوم ہوچکی ہے کہ یہ سنار ساہوکار پہلے سے اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ربط ضبط رکھتے تھے’ اور ان کی جمع پونجی انہی کے پاس امانت رہا کرتی تھی۔ اب جو انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگانے لگے ہیں اور ان کی پس انداز کی ہوئی رقمیں ہمارے پاس آنے کے بجائے کمپنیوں کے حصے خریدنے میں زیادہ صرف ہونے لگی ہیں’ تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگ اس زحمت میں کہاں پڑتے ہیں؟ اس طرح تو آپ کو خود شرکت کے معاملات طے کرنے ہوں گے’ خود حساب کتاب رکھنا ہوگا’ اور سب سے زیادہ یہ کہ اس طریقہ سے آپ نقصان کے خطرے میں بھی پڑیں گے اور نفع کا اتار چڑھاؤ بھی آپ کی آمدنی پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ اس کے بجائے آپ اپنی رقمیں ہمارے پاس جمع کرائیے۔ ہم ان کی حفاظت بھی بلا معاوضہ کریں گے’ ان کا حساب کتاب بھی مفت رکھیں گے’ اور آپ سے کچھ لینے کے بجائے الٹا آپ کو سود دیں گے۔

یہ چال تھی جس سے 90 فی صدی’ بلکہ اس سے بھی زیادہ پس انداز رقمیں براہ راست معیشت و تمدن کے کاموں کی طرف جانے کے بجائے ساہوکار کے دست تصرف میں چلی گئیں اور قریب قریب پورے قابل حصول سرمائے پر اس کا قبضہ ہوگیا۔ اب صورت حال یہ ہوگئی کہ ساہوکار اپنے جعلی سرمائے کو تو سود پر چلا ہی رہا تھا’ دوسروں کا سرمایہ بھی اس نے سستی شرح سود پر لے کر زیادہ شرح پر قرض دینا شروع کردیا۔ اس نے یہ بات ناممکن بنا دی کہ اس کی مقرر کی ہوئی شرح کے سوا کسی دوسری شرط پر کسی کام کے لیے کہیں سے کوئی سرمایہ مل سکے۔ جو تھوڑے بہت لوگ ایسے رہ بھی گئے جو ساہوکار کی معرفت سرمایہ لگانے کے بجائے خود براہ راست کاروبار میں لگانا پسند کرتے تھے ان کو بھی ایک لگا بندھا منافع وصول کرنے کی چاٹ لگ گئی اور وہ سیدھے سادھے حصے (Share)خریدنے کے بجائے وثیقوں (Debenture) کو ترجیح دینے لگے جن میں ایک مقرر منافع کی ضمانت ہوتی ہے۔
اس طریق کار نے تقسیم مکمل کردی۔ وہ ساری آبادی ایک طرف ہوگئی جو معیشت اور تمدن کی کھیتیوں میں کام کرتی ہے’ جس کی محنتوں اور کوششوں اور قابلیتوں ہی پر ساری تہذیبی و معاشی پیداوار کا انحصار ہے۔ اور وہ تھوڑی سی آبادی دوسری طرف ہوگی جس پر ان ساری کھیتیوں کی سیرابی کا انحصار ہے۔ پانی والوں نے کھیتی والوں کے ساتھ رفاقت اور منصفانہ تعاون کرنے سے انکار کردیا اور یہ مستقل پالیسی طے کرلی کہ وہ پانی کے اسی پورے ذخیرے کو اجتماعی مفاد کے لحاظ سے استعمال کریں گے۔

اس طریق کار نے یہ بھی طے کردیا کہ مغرب کا نوخیز تمدن’ جو تمام دنیا پر حکمراں ہونے والا تھا’ ایک خالص مادہ پرستانہ تمدن ہو’ اور اس میں شرح سود وہ بنیادی معیار قرار پائے جس کے لحاظ سے آخر کار ہر چیز کی قدر و قیمت متعین ہو۔ اس لیے کہ پوری کشت تمدن کا انحصار تو ہے سرمایہ کے آب حیات پر’ اور اس آب حیات کے ہر قطرے کی ایک مالی قیمت معین ہے شرح سود کے مطابق۔ لہذا پورے تمدن کی کھیتی میں اگر کسی چیز کی تخم ریزی کی جا سکتی ہے’ اور اگر کوئی پیداوار قدر کی مستحق ہوسکتی ہے’ تو بس وہ جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنا مالی فائدہ کم از کم اس حد تک دے جائے جو بورثوا تمدن کے قائد اعظم ’ ساہوکار نے شرحِ سود کی شکل میں مقرر کر رکھی ہے۔
اس طریق کار نے قلم اور سیف’ دونوں کی حکمرانی کا دور ختم کردیا اور اس کی جگہ بہی کھاتے کی فرماں روائی قائم کردی۔ غریب کسانوں اور مزدوروں سے لے کر بڑے سے بڑے صنعتی و تجارتی اداروں تک اور بڑی سے بڑی حکومتوں اور سلطنتوں تک سب کی ناک میں ایک غیر مرئی نکیل پڑ گئی اور اس کا سرا ساہواکر کے ہاتھ میں آگیا۔

تیسرا مرحلہ

اس کے بعد اس گروہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور اپنے کاروبار کو وہ شکل دی جسے اب جدید نظام ساہوکاری کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے تھے۔ اگرچہ بعض ساہوکار گھرانوں کا مالیاتی کاروبار بڑھتے بڑھتے عظیم الشان اداروں کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ جن کی شاخیں دور دراز مقامات پر قائم ہوگئی تھیں’ لیکن بہرحال یہ الگ الگ گھرانے تھے اور اپنے ہی نام پر کام کرتے تھے۔ پھر ان کو یہ سوجھی کہ جس طرح کاروبار کے سارے شبعوں میں مشترک سرمائے کی کمپنیان بن رہی ہیں’ روپے کے کاروبار کی بھی کمپنیاں بنائی جائیں اور بڑے پیمانے پر ان کی تنظیم کی جائے۔ اس طرح یہ بینک وجود میں آئے جو آج تمام دنیا کے نظام مالیات پر قابض و متصرف ہیں۔
اس جدید تنظیم کا طریقہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ چند صاحبِ سرمایہ لوگ مل کر ایک ادارہ ساہوکاری قائم کرتے ہیں جس کا نام بینک ہے۔ اس ادارے میں دو طرح کا سرمایہ استعمال ہوتا ہے۔ ایک حصہ داروں کا سرمایہ جس سے کام کی ابتداء کی جاتی ہے۔ دوسرا امانت داروں یا کھاتہ داروں (Depositors)کا سرمایہ جو بینک کا کام اور نام بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملتا جاتا ہے اور اسی کی بدولت بینک کے اثر اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک بینک کی کامیابی کا اصل معیار یہ ہے کہ اس کے پاس اس کا اپنا ذاتی سرمایہ (یعنی حصہ داروں کا لگایا ہوا سرمایہ) کم سے کم ہو اور لوگوں کی رکھوائی ہوئی رقمیں زیادہ سے زیادہ ہوں۔ مثال کے طور پر پنجاب نیشنل بینک کو لیجیے جو قبل تقسیم کے بڑے کامیاب بینکوں میں سے تھا۔ اس کا اپنا سرمایہ صرف ایک کروڑ تھا جس میں سے 80 لاکھ سے کچھ ہی زائد روپیہ حصہ داروں نے عملاً ادا کیا تھا۔ لیکن 1945 میں یہ بینک تقریبا 52 کروڑ روپے کا وہ سرمایہ استعمال کر رہا تھا جو امانتیں رکھوانے والوں کا فراہم کردہ تھا۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بینک اپنا سارا کام تو چلاتا ہے امانتداروں کے روپے سے’ جن کا دیا ہوا سرمایہ بینک کے مجموعی سرمائے میں 90۔ 95 فی صدی بلکہ 98 فی صدی تک ہوتا ہے’ لیکن بینک کے نظم و نسق اور اس کی پالیسی میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ چیز بالکل ان حصہ داروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو بینک کے مالک ہوتے ہیں اور جن کا سرمایہ مجموعی سرمائے کا صرف دو تین یا چار پانچ فی صدی ہوا کرتا ہے۔ امانت داروں کا کام صرف یہ ہے کہ اپنا روپیہ بینک کے حوالہ کردیں اور اس سے ایک خاص شرح کے مطابق سود لیتے رہیں۔ رہی یہ بات کہ بینک اس روپے کو استعمال کس طرح کرتا ہے’اس معاملہ میں وہ کچھ نہیں بول سکتے۔ اس کا تعلق صرف حصہ داروں سے ہے وہی منتظمین کا انتخاب کرتے ہیں’ وہی پالیسی کا تعین کرتے ہیں’ وہی نظم و نسق اور حساب کتاب کی نگرانی کرتے ہیں’ اور انہی کے منشا پر اس امر کا فیصلہ منحصر ہوتا ہے کہ سرمایہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ پھر حصہ داروں میں سب یکساں نہیں ہوتے۔ متفرق چھوٹے چھوٹے حصہ داروں کا اثر بینک کے نظام میں برائے نام ہوتا ہے۔ در اصل چند بڑے اور بھاری حصہ دار ہی سرمائے کی اس جھیل پر قابض ہوتے ہیں اور وہی اس پر تصرف کرتے رہتے ہیں۔

بینک اگرچہ بہت سے چھوٹے بڑے کام کرتا ہے جن میں سے بعض یقیناً مفید’ ضروری اور جائز بھی ہیں’ لیکن اس کا اصل کام سرمائے کو سود پر چلانا ہوتا ہے۔ تجارتی بینک ہو یا صنعتی یا زراعتی’ یا کسی اور نوعیت کا’ بہرحال وہ خود کوئی تجارت یا صنعت یا زراعت نہیں کرتا بلکہ کاروباری لوگوں کو سرمایہ دیتا ہے اور ان سے سود وصول کرتا ہے۔ اس کے منافع کا اصلی سب سے بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ امانت داروں سے کم شرح سود پر سرمایہ حاصل کرے اور کاروباری لوگوں کو زیادہ شرح پر قرض دے ۔ اس طریقے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ حصہ داروں میں اسی طرح تقسیم ہوجاتی

___________________________

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تھوڑی سی تفصیل بینکوں کے طریقِ کار کی بھی دے دی جائے تاکہ لوگ ان کے کاروبار کی واقعی حیثیت اچھی طرح سمجھ لیں۔
بینک میں جو امانتیں رکھوائی جاتی ہیں وہ دو بڑی قسموں پر مشتمل ہوتی ہیں ایک مؤجل (Fixed) دوسری معجل یا عند الطلب (Current) پہلی قسم کم از کم تین مہینے یا اس سے زیادہ مدت کے لیے بینک کے حوالہ کی جاتی ہےاور دوسری قسم میں سے ہر وقت آدمی لیتا دیتا رہتا ہے۔ بینک کا قاعدہ یہ ہے کہ جتنی زیادہ مدت کے لیے کوئی رقم اس کے پاس رکھوائی جائے اسی قدر زیادہ شرح سود اس پر دیتا ہے اور جتنی مدت کم ہوجاتی ہے اسی قدر شرح بھی کم ہوجاتی ہے۔ بعض بینک عند الطلب یا چالو کھاتے (Current account) پر برائے نام کچھ سود دے دیتے ہیں’ لیکن بالعموم اب اس پر سود دینے کا قاعدہ نہیں رہا ہے۔ بلکہ جو لوگ اپنے چالو کھاتے میں سے بہت زیادہ اور بار بار رقمیں نکالتے رہتے ہیں ان سے یا تو بینک ان کا حساب کتاب رکھنے کی اجرت وصول کرتے ہیں یا ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک خاص تناسب کے مطابق اپنی رقم کا کچھ حصہ بینک میں مستقل طور پر رکھوا دیں تاکہ اس کے سود سے بینک کا وہ خرچ نکل آئے جو وہ ان کا حساب کتاب رکھنے پر برداشت کرتا ہے۔ بینک اپنے سرمائے کا ایک حصہ (تقریبا 10 سے 25 فی صدی تک) نقد اپنے پاس رکھتا ہے تاکہ روز مرہ کے لین دین میں کام آ سکے ۔ اس کے بعد کچھ سرمایہ بازار صرافہ

ہے جس طرح تمام تجارتی اداروں کی آمدنیاں ان کے حصہ داروں میں مناسب طریقہ سے تقسیم ہوا کرتی ہیں۔

نتائج

اس طریقے پر ساہوکارے کی تنظیم کرلینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے زمانے کے منفرد اور منتشر مہاجنوں کی بہ نسبت آج کے مجتمع اور منظم ساہوکاروں کا وقار اور اثر اور اعتماد کئی گنا زیادہ بڑھ گیا اور پورے پورے ملکوں کی دولت سمٹ کر ان کے پاس مرتکز ہوگئی۔ اب اربوں روپے کا سرمایہ ایک ایک بینک میں اکٹھا ہوجاتا ہے جس پر چند با اثر ساہوکار قابض و متصرف ہوتے ہیں اور وہ اس ذریعہ سے نہ صرف اپنے ملک کی’ بلکہ دنیا بھر کی معاشی’ تمدنی اور سیاسی زندگی پر کمال درجہ خود غرضی کے ساتھ فرماں روائی کرتے رہتے ہیں۔

ان کی طاقت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ تقسیم سے پہلے ہندوستان کے دس بڑے بینکوں کے پاس حصہ داروں کا فراہم کیا ہوا سرمایہ تو صرف 17 کروڑ تھا مگر امانت داروں کے رکھوائے ہوئے سرمایہ کی مقدار چھ ارب بارہ کروڑ روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ان بینکوں کے پورے نظم و نسق اور ان کی پالیسی پر چند مٹھی بھر ساہوکاروں کا قبضہ تھا جن کی تعداد حد سے حد ڈیڑھ دو سو ہوگی۔ مگر یہ سود کا لالچ تھا جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں آدمیوں نے اتنی بڑی رقم فراہم کرکے ان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور اس بات سے ان کو کچھ غرض نہ تھی کہ اس طاقتور ہتھیار کو یہ لوگ کس طرح کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ اندازہ ہر شخص خود لگا سکتا

_________________________

Market) کو قرض دیا جاتا ہے ۔ یہ تقریبا نقدی کی طرح ہر وقت قابل حصول اور قابل استعمال (Liquid) رہتا ہے اور اس پر ½ سے ایک فی صدی تک سود مل جاتا ہے۔ پھر ایک حصہ ہنڈی کے کاروبار میں اور دوسرے قلیل المدت قرضوں میں صرف کیا جاتا ہے۔ ان کی واپسی بھی چونکہ جلدی جلدی ہوتی رہتی ہے اس لیے ان پر بھی سود کم لگتا ہے مثلاً دو سے 4 فی صدی تک یا اس سے کم و بیش۔ اس کے بعد سرمایہ کا ایک معتد بہ حصہ ایسی چیزوں پر لگایا جاتا ہے جن میں سرمایہ کی حفاظت کا بھی زیادہ سے زیادہ اطمینان ہوتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر انہیں بیچ کر بھی سرمایہ واپس نکالا جا سکتا ہے۔ اور پھر ان پر دو چار فی صدی سود بھی مل جاتا ہے’ مثلاً حکومتوں کی کفالتیں (Govt. securities) اور قابل اعتماد کمپنیوں کے حصے اور وثیقے (Debenture) ۔نقدی کے بعد یہ تین مدیں ہر بینک اپنے کاروبار میں اس لیے لازما شامل رکھتا ہے کہ یہ اس کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ ان سے بینک کی کمر مضبوط رہتی ہے اور خطرے یا ضرورت کے وقت یہ اس کے کام آجاتی ہیں۔
اس کے بعد ایک بڑی مد ان قرضوں کی ہے جو کاروباری لوگوں کو اور ذی حیثیت اصحاب کو اور اجتماعی اداروں کو دیے جاتے ہیں۔ یہ بینک کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس پر سب سے زیادہ شرح سود ملتی ہے اور ہر بینک یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے سرمایہ کا زیادہ سے زیادہ حصہ اس مد پر صرف کرنے کا موقعہ ملے۔ عام طور پر بینک اس مد میں 30 سے لے کر 60 فی صدی تک سرمایہ لگایا کرتے ہیں اور اس میں کمی بیشی زیادہ تر ملک کے اور دنیا کے سیاسی و معاشی حالات کی بنا پر ہوتی رہتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بینک اپنے امانت داروں سےلیا ہوا اور خود اپنا لگایا ہوا سرمایہ جتنی مدات میں بھی صرف کرتے ہیں وہ سب ایسے سود طلب قرضوں کی مدیں ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ سوسائٹی کے سر پر چڑھائے جاتے ہیں اور پھر امانت داروں کو جو چیز “منافع” کے نام سے دی جاتی ہے وہ اسی سود کا ایک حصہ ہوتی ہے جو ان قرضوں پر سوسائٹی سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بینک کچھ ایسی خدمات بھی انجام دیتا ہے جو جائز نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان کی اجرت یا کمیشن بھی اس کے ذرائع آمدنی میں سے ایک ذریعہ ہے لیکن اس ذریعہ سے کمائی ہوئی آمدنی بینک کی کل آمدنی کا بمشکل 5۔10 فی صدی حصہ ہوتی ہے۔

ہے کہ جن مہاجنوں کے پاس اتنی بڑی رقم جمع ہو وہ ملک کی صنعت’ تجارت’ معیشت’ سیاست اور تہذیب و تمدن پر کس قدر زبردست اثر ڈال رہے ہوں گے’ اور یہ اثر آیا ملک اور باشندگان ملک کے مفاد میں کام کر رہا ہوگا یا ان خود غرض لوگوں کے اپنے مفاد میں۔

یہ تو اس سرزمین کا حال ہے جس میں ابھی ساہوکاروں کی تنظیم بالکل ابتدائی حالت میں ہے اور جہاں بینکوں کی امانتوں کا مجموعہ کل آبادی پر بمشکل 7 روپے فی کس ہی کے حساب سے پھیلتا ہے۔ اب ذرا قیاس کیجیے کہ جن ملکوں میں یہ اوسط اس سے ہزار دو ہزار گنے تک پہنچ گیا ہے وہاں سرمایہ کی مرکزیت کا کیا عالم ہوگا۔ 1026 کے اعداد و شمار کی رو سے صرف تجارتی بینکوں کی امانتوں کا اوسط امریکہ کی آبادی میں 1317 پونڈ فی کس’ انگلستان کی آبادی میں 1664 پونڈ فی کس’ سوئٹزر لینڈ میں 275 پونڈ’ جرمنی میں 216 پونڈ اور فرانس میں 165 پونڈ فی کس کے حساب سے پڑتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ان ملکوں کے باشندے اپنی پس انداز کی ہوئی آمدنیاں اور اپنی ساری پونجی اپنے ساہوکاروں کے حوالہ کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ گھر گھر سے کھچ کھچ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہورہا ہے اور پھر جن کے پاس وہ مرتکز ہوتا ہے وہ نہ کسی کو جوابدہ ہیں۔ نہ اپنے نفس کے سوا کسی سے ہدایت لینے والے ہیں اور نہ وہ اپنی اغراض کے سوا کسی دوسری چیز کا لحاظ کرنے والے۔ وہ بس سود کی شکل میں اس عظیم الشان مرکوز دولت کا “کرایہ” ادا کردیتے ہیں اور عملاً اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ پھر اس طاقت کے بل پر وہ ملکوں اور قوموں کی قسسمتوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں قحط برپا کرتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پنہیا کال ڈال دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جنگ کراتے ہیں اور جب چاہتے ہیں صلح کرا دیتے ہیں۔ جس چیز کو اپنے زر پرستانہ نقطہ نظر سے مفید سمجھتے ہیں اسے فروغ دیتے ہیں اور جس چیز کو ناقابل التفات پاتے ہیں اسے تمام ذرائع و وسائل سے محروم کردیتے ہیں۔ صرف منڈیوں اور بازاروں ہی پر ان کا قبضہ نہیں ہے۔ علم و ادب کے گہواروں’ اور سائنٹیفک تحقیقات کے مرکزوں اور صحافت کے اداروں’ اور مذہب کی خانقاہوں اور حکومت کے ایوانوں’ سب پر ان کی حکومت چل رہی ہے۔ کیونکہ قاضی الحاضات حضرت زر ان کے مرید ہوچکے ہیں۔ وہ یہ بلائے عظیم ہے جس کی تباہ کاریاں دیکھ دیکھ کر خود مغربی ممالک کے صاحب فکر لوگ چیخ اٹھے ہیں۔ اور وہاں مختلف سمتوں سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے کہ مالیات کی اتنی بڑی طاقت کا ایک چھوٹے سے غیر ذمہ دار خود غرض طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہوجانا پوری اجتماعی زندگی کے لیے سخت مہلک ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہ تقریریں ہوئے جا رہی ہیں کہ سود خواری تو پرانے گدی نشین مہاجن کی حرام و نجس تھی۔ آج کا کرسی نشین و موٹر نشین بینکر بیچارہ تو بڑا ہی پاکیزہ کاروبار کر رہا ہے’ اس کے کاروبار میں روپیہ دینا اور اس سے اپنا حصہ لے لینا آخر کیوں حرام ہے؟ حالانکہ فی الحقیقت اگر پرانے مہاجنوں اور آج کے بینکروں میں کوئی فرق واقع ہوا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلے یہ لوگ اکیلے اکیلے ڈاکہ مارتے تھے’ اب انہوں نے جتھ بندی کرکے ڈاکؤں کے بڑے بڑے گروہ بنا لیے ہیں۔ اور دوسرا فرق جو شاید پہلے فرق سے بھی زیادہ بڑا ہے یہ ہے کہ پہلے ان میں کا ہر ڈاکو نقب زنی کے آلات اور مردم کشی کے ہتھیار سب کچھ اپنے ہی پاس سے لاتا تھا’ مگر اب سارے ملک کی آبادی اپنی حماقت اور قانون کی غفلت و جہالت کی وجہ سے بے شمار آلات اور اسلحہ فراہم کرکے “کرائے” پر ان منظم ڈاکؤں کے حوالے کردیتی ہے۔ روشنی میں یہ اس کو کرایہ ادا کرتے ہیں اور اندھیرے میں اسی آبادی پر اسی کے فراہم کیے ہوئے آلات و اسلحہ سے ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
!اس “کرائے” کے متعلق ہم سے کہا جاتا ہے کہ اسے حلال و طیب ہونا چاہیے

Previous Chapter Next Chapter