اسلامی نظمِ معیشت اور اس کے ارکان

اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ اخلاق اور قانون دونوں سے مدد لیتا ہے۔ اپنی اخلاقی تعلیم سے وہ جماعت اور اس کے ہر ہر فرد کی ذہنیت کو اپنے نظام کی رضاکارانہ اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے۔ اور اپنے قانون کی طاقت سے وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہےجو انہیں اس نظام کی بندش میں رہنے پر مجبور کریں’ اور اس کے حدود سے نکلنے نہ دیں۔ یہ اخلاقی اصول اور قانونی احکام اس نظم معیشت کے قوائم و ارکان ہیں اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان پر ایک تفصیلی نظر ڈالیں۔

اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق

سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروؤں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد کے لحاظ سے جائز اور ناجائز کا امتیا زقائم کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس قاعدہ کلیہ پر مبنی ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام وہ طریقے ناجائز ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے شخص یا اشخاص کے نقصان پر مبنی ہو’ اور ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں فوائد کا مبادلہ اشخاص متعلقہ کے درمیان منصفانہ طور پر ہو۔
: قرآن مجید میں اس قاعدہ کلیہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے

يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا لاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلاتَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (٢٩)وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا (٣٠) (النسا)

‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقوں سے نہ کھایا کرو بجز اس کے کہ تجارت ہو آپس کی رضامندی سے اور تم خود اپنے آپ کو (یا آپس میں ایک دوسرے کو) ہلاک نہ کرو’ اللہ تمہارے حال پر مہربان ہے۔ جو کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے ظلم کے ساتھ ایسا کرے گاتو اس کو ہم آگ میں جھونک دیں گے۔’’

اس آیت میں تجارت سے مراد ہے اشیاء اور خدمات کا تبادلہ بالعوض۔ آپس کی رضامندی کے ساتھ اسے مشروط کرکے تبادلے کی ان تمام صورتوں کو ناجائز کردیا گیا ہے جن میں کسی نوعیت کا دباؤ شامل ہو’ یا کوئی دھوکا یا ایسی چال ہو جو اگر دوسرے فریق کے علم میں آجائے تو وہ اس پر راضی نہ ہو۔ پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا گیا ہے لاتقتلوا انفسکم۔ اس کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرو۔ دوسرا یہ کہ تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان کرتا ہے وہ گویا اس کا خون پیتا ہے اور مآل کار میں خود اپنی تباہی کا راستہ کھولتا ہے۔
اس اصولی حکم کے علاوہ مختلف مقامات پر قرآن مجید میں اکتساب مال کی جن صورتوں کو حرام کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:۔

رشوت اور غصب (البقرۃ۔18)
خیانت۔ خواہ افراد کے مال میں ہو یا پبلک کے مال میں۔ (البقرہ۔ 283’ آل عمران۔

(11
چوری ( المائدہ۔ 83
مال یتیم میں بے جا تصرف (النساء۔ 10
ناپ تول میں کمی (المطففین۔ 3
فحش پھیلانے والے ذرائع کا کاروبار (النور-19
قحبہ گری اور زنا کی آمدنی (النور2۔ 33
شراب کی صنعت’ اس کی بیع اور اس کا حمل و نقل (المائدہ۔ 90
جوا اور تمام ذرائع جن سے کچھ لوگوں کا مال دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو۔ (المائدہ۔ 90
بت گری’ بت فروشی اور بت خانوں کی خدمات۔ (المائدہ۔ 90
سود خواری (البقرہ۔ 275۔ 278۔ تا280 ’آل عمران۔ 130

مال جمع کرنے کی ممانعت

دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے’ کیونکہ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے’ اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بد ترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے’ اور اس کا نتیجہ آخر کار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے:۔

وَلايَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَشَرٌّ لَهُمْ (آلِ عمران:۱۸۰

‘‘جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے’ بلکہ درحقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔ ’’

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلايُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ(التوبۃ:٣٤

‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر دے دو۔ ’’
یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا’ یہی در اصل سرمایہ داری کی جڑ ہے۔ مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کرکے رکھے۔

خرچ کرنے کا حکم

جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ عیش وآرام اور گلچھرے اڑانے میں دولت لٹائیں۔ بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے’ یعنی آپ کے پاس اپنی ضروریات سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کردی کہ یہی سبیل اللہ ہے۔

ویسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو (البقرة:219

‘‘اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہو کہ جو ضرورت سے بچ رہے۔’’

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَامَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ (النسا:٣٦

‘‘اور احسان کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتہ داروں اور نادار مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ۔ ’’

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات:١٩

“اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے”۔
یہاں پہنچ کر اسلام کا نقطہ نظر سرمایہ داری کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔ سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجاؤں گا اور جمع کرنے سے مال دار بنوں گا۔ اسلام کہتاہے خرچ کرنے سے برکت ہوگی’ تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔

اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الفَقْرَ ویامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا (البقرۃ: ٢٨

شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور بخل جیسی شرمناک بات کا حکم دیتا ہے’ مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے”۔ ”
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کردیا وہ کھو گیا۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں’ وہ کھو نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمہاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔

وَمَاتُنْفِقُوامِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لاتُظْلَمُونَ (البقرۃ:٢٧٢

اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کروگے وہ تم کو پورا پورا واپس ملے گا اور تم پر ہرگز ظلم نہ ہوگا”۔ ”

وانفقوا مما رزقنہم سرا وعلانیۃ یرجون تجارۃً لن تبور لیوفیہم اجورہم ویزیدھم من فضلہ (فاطر:٣٠

‘‘اور جن لوگوں نے ہمارےبخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقہ سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پورے اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔’’
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں’ سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ (البقرۃ:٢٧٦

“اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقا ت کو نشوونما دیتا ہے”

وَمَاآتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلايَرْبُو عِنْدَاللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (٣٩

“اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہرگز نہیں بڑھتا۔ بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے جو تم اللہ کے لیے زکوۃ میں دیتے ہو”۔
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظریہ کی بالکل ضد ہے۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کیے ہوئے مال کا ضائع نہ ہونا بلکہ اس کا پورا بدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا’ سود سے دولت میں اضافہ ہونے کے بجائے الٹا گھاٹا ہونا’ زکوۃ و صدقات سے دولت میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہونا’ یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتوں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے’ اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے’ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔ دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پاس اکٹھی ہوجائے۔ جمہور کی قوت خرید (Purchasing Power) روز بروز گھٹتی چلی جائے۔ صنعت اور تجارت اور زراعت میں کساد بازاری رونما ہو’ قوم کی معاشی زندگی تباہی کے سرے پر جا پہنچے’ اور آخر کار خود سرمایہ دارانہ افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے ۔ بخلاف اس کے خرچ کرنے اور زکوۃ و صدقات دینے کا مآل یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے’ ہر ہر شخص کو کافی قوت خرید حاصل ہو’ صنعتیں پرورش پائیں’ کھیتیاں سرسبز ہوں’ تجارت کو خوب فروغ ہو’ اور چاہے کوئی لکھ پتی اور کروڑ پتی نہ ہو’ مگر سب خوشحال و فارغ البال ہوں۔ اس مآل اندیشانہ معاشی

___________________________

اسی بات کی طرف اشارہ ہے اس حدیث میں جس میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان الربا و ان کثر فان عاقبۃ تصیر الی قد (ابن ماجہ۔ بیہقی۔ احمد) یعنی سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ مگر انجام کار وہ کمی کی طرف پلٹتا ہے

نظریہ کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو امریکہ کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھئے جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا توازن بگڑ گیا ہے’ اور صنعت و تجارت کی کساد بازاری نے قوم کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے۔ اسکے مقابلہ میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھیے کہ جب اس معاشی نظریہ کو پوری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا تو چند سال کے اندر قوم کی خوش حالی اس مرتبہ کو پہنچ گئی کہ لوگ زکوۃ کے مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جو خود صاحب نصاب نہ ہو۔ ان دونوں حالتوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے۔

پھر اسلام جو ذہنیت پید اکرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ سرمایہ دار کے ذہن میں کسی طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے رأس المال اور سود کی بازیافت کے لیے قرض دار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرالیتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجت مند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی نہ کرو’ حتی کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کردو۔

وَإِنْ كَانَ ذُوعُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُواخَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:٢٨٠

“اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اس کی حالت درست ہونے تک اسے مہلت دے دو’ اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو”۔
سرمایہ داری میں امداد باہمی کے معنی یہ ہیں کہ آپ انجمن امداد باہمی کو پہلے روپیہ دے کر اس کے رکن بنیے’ پھر اگر کوئی ضرورت آپ کو پیش آئے گی تو انجمن آپ کو عام بازاری شرح سود سے کچھ کم پر قرض دے دے گی۔ اگر آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے تو “امداد باہمی” سے آپ کچھ بھی امداد حاصل نہیں کرسکتے۔ برعکس اس کے اسلام کے ذہن میں امداد باہمی کا تصور یہ ہے کہ جو لوگ ذی استطاعت ہوں وہ ضرورت کے وقت اپنے کم استطاعت بھائیوں کو نہ صرف قرض دیں بلکہ قرض ادا کرنے میں بھی حسبۃ للہ ان کی امداد کریں۔ چنانچہ زکوۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف والغارمین بھی ہے’ یعنی قرض داروں کے قرض ادا کرنا۔

سرمایہ دار اگر نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے تو محض نمائش کے لیے’ کیونکہ ا س کم نظر کے نزدیک اس خرچ کا کم سے کم یہ معاوضہ تو اس کو حاصل ہونا ہی چاہیے کہ اس کا نام ہوجائے’ اس کو مقبولیت عام حاصل ہو’ اس کی دھاک اور ساکھ بیٹھ جائے مگر اسلام کہتا ہے کہ خرچ کرنے میں نمائش ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ خفیہ یا علانیہ جو

2 اشارہ ہے اس خوفناک کساد بازاری کی طرف جو اس کتاب کی تصنیف کے زمانے یعنی 1936 وغیرہ میں رونما تھی۔

کچھ بھی خرچ کرو اس میں یہ مقصد پیش نظر ہی نہ رکھو کہ فورا اس کا بدل تم کو کسی نہ کسی شکل میں مل جائے۔ بلکہ مآل کار پر نگاہ رکھو۔ اس دنیا سے لے کر آخرت تک جتنی دور تمہاری نظر جائے گی تم کو یہ خرچ پھلتا پھولتا اور منافع پر منافع پیدا کرتا ہی دکھائی دے گا۔ ‘‘جو شخص اپنے مال کو نمائش کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی تھی’ اس نے اس مٹی پر بیج بویا’ مگر پانی کا ایک ریلا آیا اور مٹی کو بہا لے گیا۔ اور جو شخص اپنی نیت کو درست رکھ کر اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک عمدہ زمین میں باغ لگایا اگر بارش ہوگئی تو دوگنا پھل لایا اور اگر بارش نہ ہوئی تو محض ہلکی سی پھوار اس کے لیے کافی ہے” (سورہ بقرہ ’رکوع 36

إِنْ تُبْدُواالصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّاهِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ (البقرۃ:٢٧١

” صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر دو اور غریب لوگوں تک پہنچاؤ تو یہ زیادہ بہتر ہے۔”
سرمایہ دار اگر نیک کام میں کچھ صرف بھی کرتا ہے تو بادل ناخواستہ بدتر سے بد تر مال دیتا ہے اور پھر جس کو دیتا ہے اس کی آدھی جان اپنی زبان کے نشتروں سے نکال لیتا ہے۔ اسلام اس کے بالکل برعکس یہ سکھاتا ہے کہ اچھا مال خرچ کرو’ اور خرچ کرکے احسان نہ جتاؤ’ بلکہ اس کی خواہش بھی نہ رکھو کہ کوئی تمہارے سامنے احسان مندی کا اظہار کرے۔

انْفِقُوامِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأرْضِ وَلاتَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ (البقرۃ:٢٦٧

“تم نے جو کچھ کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ اموال کو راہ خدا میں صرف کرو نہ یہ کہ بد تر مال چھانٹ کر اس میں سے دینے لگو”

لاتُبْطِلُواصَدَقَاتِ كُمْ بِالْمَنِّ وَالأذَى (البقرہ:٢٦٤

اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ملیا میٹ نہ کرو”۔”

ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا۔ إِنَّمَانُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُمِنْكُمْ جَزَاءً وَلاشُكُورً (االدھر:٩

‘‘اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے لیے تم کو کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی جزاء اور شکریہ کے خواہش مند نہیں ۔’’
چھوڑئیے اس سوال کو کہ اخلاقی نقطہ نظر سے ان دونوں ذہنیتوںمیں کتنا عظیم تفاوت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ خالص معاشی نقطہ نظر ہی سے دیکھ لیجیے کہ فائدے اور نقصان کے ان دونوں نظریوں میں سے کون سا نظریہ زیادہ محکم اور دور رس نتائج کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ پھر جب کہ منفعت و مضرت کے باب میں اسلام کا نظریہ وہ ہے جو آپ دیکھ چکے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کسی شکل میں بھی سودی کاروبار کو جائز رکھے۔

زکوٰۃ

جیسا کہ اوپر بیان ہوا’ معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آ گئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں’ اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امداد باہمی کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے’ تاکہ لوگ خود اپنے میلان طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کردینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جو لوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتاد طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں’ یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہوجائے’ ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوا لیا جائے اسی چیز کا نام زکوۃ ہے۔ اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکان اسلام میں شامل کردیا گیا ہے۔ نماز کے بعد سب سے زیادہ اسی کی تاکید کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو شخص دولت جمع کرتا ہے’ اس کی دولت اس کے لیے حلال ہی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ زکوۃ نہ ادا کرے۔

خُذْمِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا (التوبة:١٠٣

” اے نبی ﷺ ان کے اموال میں سے ایک صدقہ وصول کرو جو ان کو پاک کردے اور ان کا تزکیہ کرے”۔
آیت کے آخری الفاظ سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے’ ایک ناپاکی ہے’ اور وہ پاک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ایک مقرر مقدار راہ خدا میں نہ خرچ کردے۔ “راہ خدا” کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے’ اس کو نہ تمہارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے

_______________________

یہ ایک صدقہ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس سے مراد ایک خاص مقدار صدقہ ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ا سکے وصول کرنے کا حکم دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عام رضاکارانہ صدقات کے علاوہ یہ ایک واجب اور فرض صدقہ ہے جو لازماً مال دار لوگوں سے وصول کیا جائے گا۔چنانچہ اس حکم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اقسام کی دولتوں کے معاملہ میں ایک مقدار نصاب مقرر کی جس سے کم دولت پر صدقہ واجبہ نہ لیا جائے گا۔ پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد دولت پر مختلف چیزوں کے معاملہ میں مختلف شرح سے زکوۃ عائد فرمائی۔ سونے اور چاندی اور زر نقد پر یہ زکوۃ ڈھائی فیصد سالانہ ہے۔ زرعی پیداوار پر بارانی زمینوں کے معاملہ میں 10 فی صدی معدنیات (جو نجی ملکیتوں میں ہوں) اور دفینوں پر 20 فی صدی۔ اسی طرح مواشی پر بھی جو افزائش نسل اور فروخت کے لیے ہوں’ مختلف قسم کے جانوروں کے معامہ میں مختلف شرحیں حضور نے مقرر فرمائیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔

تنگ حال لوگوں کو خوش حال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے۔

إِنَّمَاالصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ (التوبة:٦٠

‘‘صدقات تو در اصل فقراء اور مساکین کے لیے ہیں اور ان کارکنوں کے لیے جوصدقات کی تحصیل پر مقرر ہوں۔ اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو ۔ اور لوگوں کی گردنیں بند اسیری سے چھڑانے کے لیے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے کے لیے اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے ۔’’

یہ مسلمانوں کی کواپریٹوسوسائٹی ہے ۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے بے کاروں کا سرمایہ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں’ اپاہجوں’ بیماروں’ یتیموں’ بیواؤں اور بے روزگاروں کا ذریعہ پرورش ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکرِ فردا سے بے بالکل بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو۔ کل تم نادار ہوگئے تو دوسرے تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہوگئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آ پڑی’ بیمار ہوگئے’ گھر میں آگ لگ گئی’ سیلاب آ گیا’ دیوالہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی کیا سبیل ہوگی؟سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیونکر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیتی ہے۔ تمہارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ایک حصہ دے کر’ اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں ہے’ یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں’ کل جب تم ضرورت مند ہوگے یا تمہاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمہارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔

یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضاء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کے بڑھانے کے لیے سود لیا جائے تاکہ ان نالیوں کے ذریعہ سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی

______________________

فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی ضرورت سے کم معاش پانے کے باعث مدد کا محتاج ہو (لسان العرب ‘لفظ فقیر” )اور مسکین کی تعریف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بیان کی ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جو کما نہ سکتا ہو’ یا کمانے کا موقع نہ پاتا ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ غریب بچے جو ابھی کمانے کے قابل نہ ہوئے ہوں’ اور وہ اپاہج اور بوڑھے جو کمانے کے قابل نہ رہے ہوں’ اور وہ بے روز گار یا بیمار جو عارضی طور پر کمانے کے مواقع سے محروم رہ گئے ہوں’ سب مساکین ہیں۔
2 اس میں وہ نو مسلم آجاتے ہیں جو کفر سے اسلام میں داخل ہونے کے باعث مشکلات میں مبتلا ہو گئے ہوں۔
3 مسافر اگر اپنے گھر پر دولت مند بھی ہو تو حالت سفر میں تنگی پیش آجانے پر وہ زکوۃ کا مستحق ہوتا ہے۔

سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہوجائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو روک کر نہ رکھا جائے’ اور اگر رک گیا ہو تو اس تالاب میں سے زکوۃ کی نہریں نکال دی جائیں تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہوجائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے’ اور اسلام میں آزاد سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو’ ورنہ آپ ایک قطرہ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام کے خزانہ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک نظمِ معیشت میں ان دونوں کو جمع کرنا در حقیقت اضداد کو جمع کرنا ہے جس کا تصور بھی کوئی عاقل نہیں کرسکتا۔

قانون وراثت

اپنی ضروریات پر خرچ کرنے اور راہ خدا میں دینے اور زکوۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ گئی ہو’ اس کو پھیلانے کے لیے پھر ایک تدبیر اسلام نے اختیار کی ہے اور وہ اس کا قانون وراثت ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مرجائے’ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم’ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نزدیک و دور کے تمام رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے۔ اور اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہو یا نہ ملے تو بجائے اس کے کہ اسے متبنی بنانے کا حق دیا جائے’ اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کردینا چاہیے تاکہ اس سے پوری قوم فائدہ اٹھائے۔ تقسیم وراثت کا یہ قانون جیسا اسلام میں پایا جاتا ہے’ کسی اور معاشی نظام میں نہیں پایا جاتا۔ دوسرے معاشی نظاموں کا میلان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے سمیٹ کر جمع کی ہے وہ اس کے بعد بھی ایک یا چند خاص اشخاص کے پاس سمٹی رہے ۔ مگر اسلام دولت کے سمٹنے کو پسند ہی نہیں کرتا۔ وہ اس کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ دولت کی گردش میں آسانی ہو۔

غنائم جنگ اور اموال مفتوحہ کی تقسیم

اس معاملہ میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں’ چار حصے فوج میں تقسیم کردیے جائیں’ اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔

_______________________

اولاد اکبر کی جانشینی کا قانون (Primogenitare) اور مشترک خاندان کا طریقہ (Joint family system)اسی مقصد پر مبنی ہے۔

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (الانفال:۴۱

“جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور کے رسول اور اس کے رشتہ داروں اور یتمی اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے”
اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسول کے تحت حکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسول کے رشتہ داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ زکوۃ میں ان کا حصہ نہ تھا ۔ اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
قوم کے یتیم بچے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔

مساکین جن میں بیوہ عورتیں’ اپاہج’ معذور’ بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر’ سلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور ا سکے ساتھ زکوۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت’ سیاحت’ تعلیم اور مطالعہ و مشاہدہ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کردیں۔
جنگ کے نتیجہ میں جو اراضی اور اموال اسلامی حکومت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضہ میں رکھا جائے۔

مَاأَفَاءَاللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأغْنِيَاءِ مِنْكُمْ۔۔۔۔ لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔۔۔۔ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُ والدَّارَ وَالإيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔۔۔وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ (الحشر:۷تا١٠

” جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستیوں کے باشندوں سے فے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین او رمسافروں کے لیے ہے تاکہ یہ مال صرف تمہارے دولتمندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے ۔۔۔ اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھر بار اور جائدادوں سے بے دخل کرکے نکال دیے گئے ہیں۔ ۔۔۔ اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں ایمان لے آئے تھے۔۔۔ اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں”۔
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموال فے کو صرف کیا جائے گا۔ بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے جس کو اسلام نے نہ صرف اموالِ فے کی تقسیم میں’ بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیش نظر رکھا ہے یعنی کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم(مال تمہارے مال داروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے)۔ یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کردیا ہے’ اسلامی معاشیات کا سنگِ بنیاد ہے۔

اقتصاد کا حکم

ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افرادِ قوم میں گردش دینے اور مال داروں کے مال میں ناداروں کو حصہ دار بنانے کا انتظام کیا ہے’ جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا
فریط کی روش اختیار کرکے ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ

وَلاتَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا
(بنی اسرائیل‘٢٩)

نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھ (کہ کھلے ہی نہیں) اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے”۔”

وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا (الفرقان‘٦٧

اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں”۔ ”
اس تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسائل کی حد میں رہ کر خرچ کرے۔ نہ اس قدر حد سے تجاوز کرجائے کہ اس کاخرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے’ یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے’ دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے’ حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کے قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتنے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کیے کرتوتوں سے فقراء و مساکین کے زمرہ میں شامل کردے۔ نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی وسائل جس قدر خرچ کرنے کی اس کو اجازت دیتے ہوں اتنا بھی نہ خرچ کرے۔ پھر اپنی حد کے اندر رہ کر خرچ کرنے کے بھی یہی معنی نہیں ہیں کہ وہ اگر اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنے عیش و آرام اور تزک و احتشام پر صرف کردے’ در آں حالیکہ اس کے عزیز ’ قریب دوست’ ہمسائے مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ اس قسم کے خود غرضانہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے۔

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (٢٦) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (٢٧) (بنی اسرائیل

اور اپنے رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔ فضول خرچی نہ کر۔ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے” ۔”
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے’ بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے ہیں اور ایسے تمام طریقوں کا سد باب کرنے کی کوشش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔ وہ جوئے کو حرام قرار دیتا ہے۔ شراب اور زنا سے روکتا ہے۔ لہو ولعب کی بہت سی مسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاعِ وقت اور ضیاعِ مال ہے’ ممنوع قرار دیتا ہے۔ موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے جہاں انسان کا انہماک دوسری اخلاقی و روحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بد نظمی پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے اور فی الواقع ہوجاتا ہے۔ جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پابند بناتا ہے۔ قیمتی ملبوسات’ زروجواہر کے زیورات’ سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسرے مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کہ جو دولت تمہارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرسکتی ہے’ ان کو زندگی کے مایحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے’ اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین و آرائش کردینا جمالیت نہیں’ شقاوت اور بدترین خود غرضی ہے۔ غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زندگی ہے کہ اس میں انسان کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ ایک اوسط درجہ کی آمدنی میں گزر بسر نہ کرسکتا ہو اور اسے اپنے دائرہ سے پاؤں نکال کر دوسروں کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا اگر وہ اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنا مال خود اپنی ذات پر خرچ کردے’ اور اپنے ان بھائیوں کی مدد نہ کرسکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہوں۔

ایک سوال

یہ ایک مرقع ہے جس میں اسلام کے پورے معاشی نظام کو آپ کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ اب اس تصویر کو دیکھیے اور بار بار دیکھیے’ اور بتائیے کہ اس میں آپ سود کو کس جگہ کھپا سکتے ہیں؟ اس کی روح کو دیکھیے’ اس کی ساخت کو دیکھیے’ اس کے اجزاء اور ان کے باہمی ربط و تعلق کو دیکھیے’ اس میں جو معنی اور مقصد پوشیدہ ہے اس کو دیکھیے’ اس میں کہاں سودی لین دین کی گنجائش یا ضرورت ہے؟ کہاں نظام سرمایہ داری کے اداروں میں سے کسی ادارے کو رکھنے کی جگہ یا اس کی حاجت ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہونا چاہیے’ تو اس کے بعد دوبارہ ایک غائر نظر اس تصویر پر ڈالیے اور بتائیے کہ اس میں اخلاقی’ تمدنی اور معاشی نقطہ نظر سے کہاں آپ کو نقص نظر آتا ہے؟ اخلاق اور تمدن کے بلند تر مصالح کو آپ چھوڑنا چاہتے ہیں تو چھوڑیے ۔ اگر معیشت ہی انسانی زندگی میں ایک اہم چیز ہے تو خالص معاشی حیثیت ہی سے دیکھ لیجیے۔ کیا اس نظم معیشت کے اصول و فروع میں کوئی خرابی ہے! کیا اس میں دلائل اور شاہد کی قوت سے کوئی ایسی ترمیم پیش کی جا سکتی جس کے بغیر یہ نظم بجائے خود ناقص ہو؟ اس سے بہتر کوئی دوسرا نظم معیشت تجویز کیا جا سکتا ہے جس میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق اور مفادات کا اس سے زیادہ صحیح توازن قائم کیا گیا ہو اور انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کی یکساں رعایت اس سے زیادہ بہتر طریقے سے ملحوظ رکھی گئی ہو؟ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں ہوسکتا تو کیا عقل و دانش کا یہی تقاضا ہے کہ آپ اول تو اپنی کمزوری سے اس بہترین نظم معیشت کو چھوڑ کر دنیا کے سب سے بدتر’ سب سے زیادہ غلط اور بہ اعتبار نتائج سب سے زیادہ تباہ کن نظم معیشت کی پیروی کریں’ اور پھر اس پر نادم بھی نہ ہوں۔ اپنے ضمیر پر گناہ کابار بھی نہ رہنے دیں اور اس گناہ کو صواب’ اس فسق وعصیان کو طاعت قرار دینے کے لیے آیات قرآنی و احادیث نبوی میں باطل تاویلیں کریں’ اور اس شیطانی نظمِ معیشت کے فاسد ارکان کو لے کر اسلام کے پاک اور مطہر نظام معاشی میں یبوست کرنے کی کوشش کریں’ بلا لحاظ اس کے کہ اسلام کے اصول اور اس کی روح اور اس کے مزاج سے ان چیزوں کو کتنی ہی شدید نا مناسبت ہو؟ پہلے تو آپ حکیم کے بتائے ہوئے نسخے کو پھینک دیتے ہیں’ اس کی تدبیر حفظ صحت سے اعراض و انکار کرتے ہیں’ جو پرہیز اس نے تجویز کیا ہے اس پر عمل نہیں کرتے۔ پھر جب مرض بڑھتا ہے اور موت سامنے نظر آتی ہے تو اسی حکیم سے کہتے ہیں کہ جس عطائی کے نسخوں نے مجھے بیمار ڈالا ہے اسی کا نسخہ تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ دے۔ جن بدپرہیزیوں نے مجھے جاں بلب کیا ہے انہی کی اجازت دے دے۔ جس چیز کو تونے زہر بتایا تو اسی کو کہہ دے کہ یہ تریاق ہے! آخر اس بوالعجبی کی کوئی انتہا بھی ہے؟

Previous Chapter Next Chapter