سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١ۧ
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ تو بس اس شخص کی طرح کھڑے ہوتے ہیں جسے شیطان نے چھو کر بائو لا کردیا ہو اور وہ اپنے اعتدال کو برقرار نہ رکھ سکتا ہو کبھی زمین پر گر پڑتا ہو اور کبھی کھڑا ہوجاتا ہو) یہ سب اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بیع بھی سود کی طرح ہے ( اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں جب کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ( کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے) اور اگر کسی تک خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیحت پہنچ جائے اور وہ ( سود خوری سے) بچ جائے تو وہ سود جو ( اس کی حرمت کے حکم کے نازل ہونے سے ) پہلے اسے مل چکا ہے وہ اس کا مال ہے ( اور اس حکم میں گذشتہ مال شامل نہ ہوگا) اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہوجائے گا ( اور وہ اس گذشتہ معاملے کو بخش دے گا) ۔ لیکن جو لوگ لوٹ جائیں ( اور اس گناہ کا نئے سرے سے ارتکاب کریں وہ اہل آتش جہنم میں ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ سود کو نابود کردے گا اور صدقات کو بڑھائے گا اور خدا کسی ناشکر گزار گنہ کار کو دوست نہیں رکھتا۔
جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے اچھے اعمال انجام دیے اور نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی ان کی اجرت وثواب ان کے پروردگار کے پاس ہے ان کے لیے کوئی خوف ہے نہ وہ کسی حزن و ملال میں مبتلا ہوں گے۔
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرو اور جو رہا (کا تقاضا ابھی) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر خدا اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائو تو بہ کرلو تو (سود کے بغیر اصل) سرمایہ تمہاری ہی ملکیت رہے گا۔ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
اور اگر (مقروض قرض) ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے اتنی مہلت دو کہ وہ ایسا کرسکے اور (اگر وہ بالکل ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو) بخش دو تو بہتر ہے۔ اگر (تم اس کام کے فائدے سے) آگاہو۔
اور اس دن سے ڈرو جب خدا کی طرف پلٹ جائو گے اور پھر ہر شخص نے جو کچھ انجام دیا ہوگا اسے لوٹا دیا جائے گا اور ان پر ظلم و ستم نہیں ہوگا ( بلکہ وہ جو کچھ بھی دیکھیں گے وہ ان کے اپنے اعمال کے نتائج ہوں گے)
گذشتہ آیات میں حاجت مندوں کے لیے مال خرچ کرنے اور رفاہ عامہ کے کام سرانجام دینے کے بارے میں گفتگو تھی۔ ان آیات میں سود خوری کا مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔ سود خوری کا اثر اور نتیجہ انفاق کے اثر اور نتیجے کی ضد ہے۔ ان آیات کا مقصد دراصل گذشتہ آیات کے سلسلے کی تکمیل کرنا ہے کیونکہ سود طبقاتی تفاوت میں اضافے ‘ چند لوگوں کے پاس سرمائے کی ریل پیل اور معاشرے کے بیشتر لوگوں کی محرومیت کا سبب بنتا ہے۔
ان آیات میں سختی سے سود کے بارے میں حکم اور اس کی حرمت بیان کی گئی ہے آیات کے لب و لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل ازیں بھی سود کے بار میں گفتگو ہوچکی ہے۔ قرآنی سورتوں کی تاریخ نزول کی طرف توجہ کرنے سے یہ معاملہ اسی طرح معلوم ہوتا ہے۔
قرآن کے نزول کی ترتیب کے مطابق سب سے پہلے جس سورة میں سود کے متعلق گفتگو ہوئی ہے وہ سورة روم ہے کیونکہ سورة روم تیسویں سورت ہے جو مکہ میں نازل ہوئی اس سورت کے علاوہ کسی اور مکی سورت میں سود کے بارے میں کوئی حکم نظر نہیں آتا لیکن اس میں بھی سود کے بارے میں اخلاقی نصیحت کے طور پر گفتگو کی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ سود خوری بارگاہ پروردگار میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
” ومآ اتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عنداللہ “ ١ ؎ (١ ؎ تفسیر نور الثقلین ج ‘ ٢٩٠)
یعنی۔۔ ہوسکتا ہے کوتاہ بین افراد کی نظر میں سود خوری سرمائے۔ میں اضافے کا ذریعہ ہو لیکن بارگاہ خدا میں اس سے کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ (روم۔ ٣٩)
پھر ہجرت کے بعد تین مدنی سورتوں میں سود کی بحث آئی ہے۔ ان سورتوں کی ترتیب یہ ہے ‘ سورة بقرہ ‘ سورة آل عمران اور سورة نساء ۔ سورة بقرہ اگرچہ سوہ آل عمران سے قبل نازل ہوئی ہے لیکن بعید نہیں سورة آل عمران کی آیت ١٣٠ جس میں سود کی حرمت کا حکم ہے سورة بقرہ اور زیر نظر آیات سے پہلے نازل ہوئی ہو۔
بہر حال یہ آیت اور سود کے بارے میں دیگر آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جب سود خوری مکہ ‘ مدینہ اور پور جزیرۃ العرب میں کمال شدت سے رائج تھی اور طبقاتی زندگی ‘ محنت کش طبقے کی پسماندگی اور اشراف ‘ کی سر کشی کا اہم عامل تھی لہذا سود کے خلاف اسلام کی جنگ اجتماعی امور کے بارے میں اس کے اہم معرکوں میں شمار ہوتی ہے۔
” الذین یا کلون الربوا لا یقوموں الا کما یقوم الذین یتخبطہ الشیطن من المس “:
” خبط “ کا لغوی معنی ہے :” راہ چلتے یا اٹھتے وقت بدن کو اعتدال پر نہ رکھ سکنا “۔ آیت میں سود خور کو آسیب زدہ اور دیوانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو چلتے وقت اپنے بدن کو اعتدال میں نہ رکھ سکے اور صحیح طریقے سے قدم نہ اٹھا سکے۔
اس سے مراددنیا میں سود خوروں کا اجتماعی چال چلن ہے کیونکہ ان کا یہ عمل دیوانوں کا سا ہے۔ وہ صحیح اجتماعی فکر نہیں رکھتے یہاں تک کہ وہ اپنے فوائد کو بھی نہیں پہچان پاتے کیونکہ تعاون ‘ ہمدردی ‘ انسانی جذبے اور دوستی جیسے مسائل ان کے نزدیک کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔ دولت کی پرستش نے ان کی آنکھوں کو ایسا اندھا کر رکھا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پسے ہوئے طبقوں کا استحصال اور ان کی محنت و زحمت سے حاصل ہونے والے مال کی غارت گری ان کے دلوں میں دشمنی کا بیج بوئے گی اور معاملہ ایسے انقلابات اور تغیرات تک جا پہنچے گا کہ مالکیت کی بنیاد ہی خطرے سے دو چار ہوجائے گی اور ایسی صورت میں معاشرے میں سے امن وامان اور راحت و سکون رخصت ہوجائے گا۔ اس طرح سود خور بھی راحت و آسائش کی زندگی نہیں گزار سکیں گے لہذا ان کا چال چلن دیوانوں کا سا ہے۔
اس سے مراد حشر ونشر کے وقت کھڑا ہونا اور میدان قیامت میں آنا بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی سود خوار اس جہاں میں زندہ ہونے کے وقت دیوانوں اور آسیب زدہ افراد کی طرح محشور ہوگا۔
اکثر مفسرین نے دوسرے احتمال کو قبول کیا ہے لیکن بعض نئے مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے لیکن انسان کے اعمال چونکہ اس جہان میں مجسم ہو کر پیش ہوں گے لہذا ممکن ہے آیت کا اشارہ دونوں معانی کی طرف ہو یعنی دنیا میں جن لوگوں کا قیام غیر عاقلانہ اور دیوانہ وار سرمایہ اندوزی ہے دوسرے جہان میں بھی وہ دیوانوں کی طرح محشور ہوں گے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ روایات میں دونوں مفاہیم کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ آیت کی تفسیر میں ایک روایت امام جعفر صادق (رحمتہ علیہ) سے منقول ہے۔ آپ نے فرمایا :
” اکل الربوا لا یخرج من الدنیا حتی یتخبطہ الشیطن “
سود خور جب تک پاگل پن کی ایک میں مبتلا نہ ہوجائے دنیا سے نہیں جاتا “
سود خور جو صرف اپنے منافع کی فکر میں رہتے ہیں اور ان کی دولت ان کے لیے و بال جان بن جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت ایک روایت میں بیان کی گئی ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے :
” میں معراج پر گیا تو وہاں ایک گروہ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ وہ اٹھ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں اور اٹھنے کی کوشش میں بار بار زمین پر گرپڑتے ہیں۔ میں نے جبریل سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں اور ان کا جرم کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا : یہ سود خور ہیں ٢ ؎ (٢ ؎ تفسیر نور الثقلین ح ‘ ٢٩١)
پہلی حدیث اس دنیا میں سود خوروں کی پریشان حالی کو منعکس کرتی ہے اور دوسری میدان قیامت میں ان کے حالات بیان کرتی ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت سے مربوط ہیں۔ جیسے پیٹو لوگ بہت زیادہ موٹے ہوتے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں بےعقلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ سرمایہ دار بھی سود خوری کی وجہ سے موٹے ہوجاتے ہیں ان کی غیر صحیح اقتصادی زندگی ان کے لیے و بال جان بن جاتی ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنون اور آسیب کا سر چشمہ شیطان ہے جس کی طرف زیر مطالعہ آیت میں اشارہ ہوا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آسیب اور جنون نفسیاتی بیماریوں میں سے ہیں اور ان کے زیادہ تر عوامل کی شناخت ہوچکی ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ” مشن الشیطان “ کی تعبیر نفسیاتی بیماری اور جنون کے لیے کنا یہ ہے اور عربوں کے درمیان یہ تعبیر عام تھی۔ یہ نہیں کہ واقعاً شیطان روح انسانی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ لیکن بعید نہیں کہ بعض شیطانی کام اور بےسوچے سمجھے غلط اعمال ایک طرح کے شیطانی جنون کا سبب بنتے ہوں یعنی ان اعمال کے بعد شیطان کسی شخص پر اثر انداز ہو کر اس کے نفسیاتی اعتدال کو درہم برہم کردیتا ہو۔ علاوہ ازیں جب غلط اور شیطانی کام پے درپے ہوتے رہیں تو ان کا یہ فطری اثر ہوتا ہے کہ انسان سے صحیح چیز کی تشخیص کا احساس اور منطقی طرز فکر چھن جاتی ہے۔
سود خوروں کی منطق
” ذلک با ئنھم قالوا انما البیع مثل الربوا “:
آیت کے اس حصے میں سودخوروں کی یہ منطق بیان کی گئی ہے کہ تجارت اور سود خوری میں کوئی فرق نہیں یعنی دونوں ایک ہی طرح کا لین دین ہیں جنہیں طرفین اپنے ارادہ اختیار سے انجام دیتے ہیں۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : خدا نے بیع اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ یعنی ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں کرنا چاہیے ( واحل اللہ البیع و حرم الربوا)
قرآن نے اس کی مزید تفصیل اس لیے بیان نہیں کی کہ یہ بالکل واضح ہے۔ اس سلسلے میں بعض پہلو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں :
١۔ عام خریدو فروخت میں طرفین نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دونوں کو نفع ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور کبھی ایک کو نفع اور دوسرے کو نقصان ہوتا ہے جبکہ سودی معاملات میں سود خور کو کبھی نقصان نہیں ہوتا اور نقصان کے احتمال کا سارا بوجھ دوسرے کے کندھے پر جا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سودی ادارے دن بدن بڑے سرمایہ دار بنتے چلے جاتے ہیں۔ ضعیف نحیف تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور دو لتمندوں کی ثروت کا حجم ہمیشہ بڑھتارہتا ہے۔
٢۔ عام تجارت اور خریدو فروخت میں طرفین تو لید مال و مصرف کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں جبکہ سود خور اس سلسلے میں کوئی مثبت عمل سرانجام نہیں دیتا۔
٣۔ سود خوری کے عام ہوجانے سے سرمایاہ غلط اور غیر صحیح راستے پر استعمال ہونے لگتا ہے اور اقتصاد کے ستون جو معاشرے کی بنیاد ہیں متزلزل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ تجارت سرمائے کی درست اور صحیح گردش کا سبب ہے۔
٤۔ سود خوری طبقاتی کشمکشوں اور جنگوں کا ذریعہ ہے جب کہ صیح تجارت اس طرح نہیں ہے وہ معاشرے کو کبھی طبقاتی تقسیم اور اس سے سدا ہونے والی جنگوں کی طرف نہیں کھینچتی۔
” فمن جآء موعظۃ من ربہ فانتھی فلہ ما سلف وامرہ الی اللہ “:
اس جملے میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس سود کی حرمت کے بارے میں خدائی نصیحت پہنچ جائے اور وہ یہ کام چھوڑ دیں ‘ جو سود وہ اس حکم کے نزول سے قبل لے چکے ہیں وہ انہی کی ملکیت ہے یعنی یہ قانون ہر دوسرے قانون کی طرح ماقبل پر لاگو نہیں ہوتا۔ کیونک ہمیں معلوم ہے کہ اگر قوانین گذشتہ امور پر بھی نافذ ہوجائیں تو بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں اور زندگی شدید اتار چڑھائو کا شکار ہوجائے ۔ اس لیے قوانین جب بنتے ہیں اس وقت سے نافذ ہوتے ہیں۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سود خوروں کے حساب میں اگر کچھ سود لوگوں کے ذمے ابھی باقی تھا تو اس آیت کے نزول کے بعد بھی وہ لے سکتے تھے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ جو سود وہ اس وقت تک لے چکے تھے وہ حلال کردیا گیا ہے۔
مزید فرمایا گیا ہے۔ ” وامرہ الی اللہ “ یعنی ان کا معاملہ قیامت میں خدا کے سپر د ہوگا۔ اس جملے کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ سزا یا معافی کے بارے میں ان لوگوں کا مستقبل واضح ہے لیکن گذشتہ حصے کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد عفو ہی ہے گویا سوداتنا بڑا گناہ ہے کہ جو لوگ پہلے یہ کام کرتے تھے۔ ان کی معافی کا ذکر بھی صراحت سے کرنا پڑا ہے تاکہ بات مخفی نہ رہے۔
” ومن عاد فا ولئک اصحب النار ھم فیھا خلدون “:
یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اس نصیحت اور بار بار کی تاکید کے باوجود اس عمل سے دستکش نہ ہوا سے چاہیے کہ پروردگار کے درد ناک اور دائمی عذاب کا منتظر رہے۔
دائمی عذاب اگرچہ اہل ایمان کے لیے نہیں ہے لیکن آیت میں ایسے سود خوار مراد ہیں جو خدا سے جنگ اور دشمنی کرتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے اس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مسلم ہے کہ ایسے لوگوں کا ایمان صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے آیت میں ان کے لیے دائمی عذاب کی خبر دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں دوام سے مراد طولانی عذاب ہے نہ کہ دائمی اور اس کی مثال سورة نساء کی آیت ٩٣ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیشہ سود خوری میں مبتلا رہنے کی وجہ سے انسان بغیر ایمان کے دنیا سے آنکھیں موندلے۔
” یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقت “:
” محق “ کا معنی ہے ” نقصان “ اور تدریجا ” نابود ہونا اور ” ربا “ تدریجی رشدو نمو “ کو کہتے ہیں۔
سود خور چونکہ اپنی دولت کے ذریعے محنت کش طبقے کے پسینے کی کمائی سیٹتا ہے اور بعض اوقات اس طرح سے ان کے وجود ہی کو ختم کردیتا ہے یا کمازکم ان کے دل میں دشمنی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور حالت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سود خور کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں اور یوں خود سود خور کی جان اور مال خطرے سے دو چار ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے : اللہ سودی سرمائے کو نابودی کیطرف لے جاتا ہے ۔ تدریجاً واقع ہونیوالی یہ نابودی جیسے سود خوروں کے لیئے ہے اسی طرح سود خور معاشرے کے لیے بھی ہے ان کے مقابلے میں جو لوگ انسانی جذبوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمدردی اور غمخواری کا راستہ اختیار کرتے ہیں ‘ اپنے سرمائے اور مال میں سے خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کی احتیاج پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں عوام کی طرف سے محبت اور احترام حاصل ہوتا ہے۔ ان کا سر مایہ نہفقط یہ کہ خطرے سے دو چار نہیں ہوتا ہے بلکہ عوام کے تعاون سے طبیعی رشد حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے : انفاق کرنے میں اللہ تعالیٰ اضافہ عطا کرتا ہے۔ یہ حکم فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے ایک سا ہے جس معاشرے میں عام لوگوں کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اس کے محنت کش اور کاریگر طبقے کی فکری اور جسمانی صلاحیتیں بہتر طور پر کام کرتی ہیں اور پھر یہی طبقہ معاشرے کی اکثریت ہوتا ہے ‘ اس طرح سے ایک صحیح اقتصادی نظام وجود میں آتا ہے ‘ جس کی بنیاد عوام کا تعاون اور عوام کی ضرورت کی کفالت پر استوار ہوتی ہے۔
” واللہ لا یحب کل کفار اثیم “
” کفار “ مادہ ” کفور “ ( بروزن ” فجور “ ) سے ہے۔ کفور اس شخص کو کہتے ہیں جو بہت ہی نا شکرا اور کفران نعمت کرنے والا ہو اور ” اثیم “ زیادہ گناہ کرنے والے “ کو کہتے ہیں۔
اس جملے میں کہا گیا ہے کہ سود خور نہ صرف یہ کہ راہ خدا میں خرچ نہ کر کے ‘ قرض حسنہ نہ دے کر اور عام ضرورتمندں کے کام نہ آکر خدا کی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے ہر قسم کا ظلم و ستم اور گناہ و فساد کرتے ہیں اور یہ فطری بات ہے کہ خدا ایسے لوگوں کو دوست نہیں رکھتا۔
” ان الذین امنوا وعملوالصلحت واقامو الصلوۃ واتوا الزکوۃ لھم اجرھم عندربھم “
ناشکر گزار گنہ گار سود خوروں کے مقابلے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان کے زیر سایہ خود پرستی کو ترک کئے ہوئے اپنے فطری جذبوں کو زندہ کیے ہوئیے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پروردگار سے رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ حاجتمندوں کے کام آتے ہیں اور ان کی حمایت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ سرمائے کے ارتکاز ‘ طبقاتی کشمکش اور اس کے نتیج میں پیدا ہونے والے ہزاروں جرائم کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ ان کی جزا ان کے پروردگار کے پاس ہے اور وہ دونوں جہانوں میں اپنے نیک عمل کے نتیجے سے بہرہ مندہوں گے۔
فطری امر ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اضطراب اور پریشانی کے عوامل پیدا نہیں ہوتے اور جو خطرات مفت خور سرمایہ داروں کو لاحق تھے اور ان پر جو لعن طعن اور نفرین ہوتی تھی ایسے لوگوں پر نہیں ہوتی۔
مختصر یہ کہ وہ مکمل راحت ‘ آرام اور اطمینان سے بہرہ یاب ہوں گے اور ان کے لیے کسی قسم کا اضطراب اور غم واندوہ نہیں ہے۔ ” ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “
شان نزول
علی بن ابراہیم کی تفسیر میں ہے کہ سود کی آیات کے نزول کے بعد خالد بن ولید نامی ایک شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہنے لگا : میرے باپ کے ثقییف قبیلے سے سودی معاملات تھے اور اس نے مطالبات وصول نہیں کیے تھے اور مجھے وصیت کر گیا تھا کہ اس کا سودی مال جو ابھی تک اس نے وصول نہیں کیا حاصل کرلوں اور اپنی تحویل میں لے لوں۔ کیا یہ عمل میرے لیے جائز ہے ؟
اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور لوگوں کو ایسے کام سے سختی سے روک دیا گیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت نازل ہونے کے بعد فرمایا :
” الا کل ربا من ربا الجا ھلیۃ موضوع و اول ربا اضعہ ربا العباس (رض) ابن عبد المطلب “
آگاہ رہو کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے تمام سودی مطالبات چھوڑ دیے جائیں اور سب سے پہلے میں عباس بن عبد المطلب کے سودی مطالبات ترک کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
اس روایت سے واضح طور معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمانہ جاہلیت کے سودی مطالبات پر سرخ قلم پھیر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کام اپنے رشتے داروں سے شروع کیا اور اگر ان میں عباس بن عبدالمطلب جیسے دولت مند افراد تھے کہ جو زمانہ جاہلیت میں دیگر سرمایہ داروں کی طرح اس گناہ میں آلودہ تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے انہی کے سودی تقاضوں کو ممنوع قرار دیا۔
تفسیر
پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب فرمایا ہے۔ انہیں پرہیز گاری کی وصیت کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان رکھتے ہیں تو اپنے باقی ماندہ سودی مطالبات بھول جائیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیت ایمان باللہ سے شروع ہوتی ہے اور ایمان ہی کے تقاضے پر ختم ہوتی ہے ۔ یہ امر اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ سود (روح ایمان کے ساتھ ساز گار نہیں ہے۔
” فان لم تفعلوا فا ذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “
اس آیت میں قرآن نے اپنے لب و لہجہ کو بدل دیا ہے۔ پہلی آیت کے نصیحتوں کے بعد اس آیت میں سود خوروں پر شدید حملہ کیا ہے اور انہیں خطرے کا الارم دیا ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور حق و حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور اسی طرح محروم لوگوں کا خون چوستے رہے تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجبور ہیں کہ فوجی طاقت سے انہیں روکیں اور حق کے سامنے جھکا دیں۔ حقیقت میں یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ یہ وہی جنگ ہے جو اس قانون کے تحت انجام پاتی ہے :
” فقاتلوالتی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ “ (حجرات : ایۃ ٩)
تجاوز اور بغاوت کرنے والے گروہ سے جنگ کرو تاکہ وہ فرمان خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ (حجرات : ٩)
یہی وجہ ہے کہ جب امام صادق (رحمتہ علیہ) نے ایک شخص کے بارے میں سنا کہ وہ بڑی جرأت سے سود کھاتا ہے اور اس نے اس کا نام لبا (دودھ ) رکھ رکھا ہے تو فرمایا :
” اگر مجھے اس پر دسترس حاصل ہوجائے تو اسے قتل کردوں “
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو اسلام میں حرمت سود کے منکر ہوں۔
بہر صورت اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی حکومت طاقت کے ذریعے سود خوری کو روک سکنے کی مجاز ہے۔
” وان تبتم فلکم رءوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون “:
ارشاد ہوتا ہے : اگر تو بہ کرلو اور سود خوری کی دوکان بڑھا دو تو تمہیں حق پہنچتا ہے کہ لوگوں کے پاس جو تمہارا اصلی سرمایہ ہے (سود چھوڑ کر) وہ لے لو اور یہ قانون ہر طرح سے عاد لانہ ہے۔ کیونکہ یہ قانون ایک طرف تو تمہیں دوسروں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے اور دوسری طرف تمہیں ظلم کے وار سے بچتا ہے۔ اس طرح نہ ظالم بنو گے اور نہ مظلوم۔
” لا تظلمون ولا تظلمون “ اگرچہ یہ سود خوروں کے بارے میں آرہا ہے لیکن درحقیقت یہ وسیع مفہوم کا حامل نہایت قیمتی اسلامی شعار ہے جو کہتا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ظلم کرنے سے پرہیز کریں اس طرح اپنے آپ کو ظلم و ستم کے سپرد کرنے سے بھی اجتناب کریں۔ اصولی طور پر اگر ستم کش نہ ہوں تو ستمگر بھی کم پیدا ہوں گے۔ اگر مسلمان اپنے حقوق کے دفاع کا پورا حوصلہ اور آمادگی رکھتے ہوں تو کوئی ان پر ظلم نہیں کرسکتا۔ لہذا ظالم کو ظلم سے منع کرنے سے پہلے مظلوم سے کہو کہ ظلم نہ سہے۔
” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “
قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ (سود کے بغیر) اصل سرمایہ طلبگار کا حق ہے۔ اس آیت میں مقروض کا ایک حق بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے عاجز ہو تو نہ صرف یہ کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق ان پر نیا سود نہ لگایا جائے اور انہیں ستایا نہ جائے بلکہ اصل قرض کی ادائیگی پر بھی انہیں مہلت دی جانا چاہیے تاکہ جب وہ واپس کرسکنے کے قابل ہوں اس وقت لوٹا سکیں۔ قوانین اسلامی میں جو دراصل اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں یہ تصریح ہوچکی ہے۔ کبھی بھی مقروض افراد کے گھر اور دیگر ضروری وسائل کو قرق کر کے اس سے قرضہ وصول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروریات زندگی سے زائد مال پر طلبگار اسی سے اپنا حق لے سکتے ہیں اور یہ انسانی معاشرے کے ضعیف اور پسماندہ طبقے کی بہت واضح حمایت ہے۔
” وان تصدقوا خیر لکم ان کنتم تعلمون “:
اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا گیا ہے : اگر مقروض اپنا قرضہ ادا کرنے سے واقعاً بالکل عاجز ہو تو بہتر ہے کہ طلب گار ایک عظیم تر انسانی قدم اٹھائے اور اپنے مال سے صرف نظر کرلے اور یہ اس کے لیے ہر لحاظ سے بہتر اور انسانی ہمدردی کا اچھا مظہر ہے اور جو شخص اس عمل خیر کے فوائد سے آگاہ ہوجائے گا وہ واقعیت کی تصدیق کرے گا۔
قرآن مجید کا طریقہ ہے کہ جزوی احکام اور اسلامی پروگرام بیان کرنے کے بعد بہت سے مواقع پر آخر کار ایک کلی ‘ عمومی اور جامع اصول بیان کرتا ہے تاکہ احکام کی مزید تاکید ہوجائے اور وہ پوری طرح فکر اور روح کی گہرائیوں میں اتر جائیں لہذا اس آیت میں لوگوں کو قیامت اور بد کاروں کے اعمال کے عذاب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بیدار کیا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ متوجہ رہیں کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے کہ انسان کے تمام اعمال بغیر کسی کمی بیشی کے اسے لوٹا دیے جائیں گے اور وہ تمام چیزیں جو عالم ہستی کے دفتر ضبط و ثبت میں محفوظ ہیں ‘ ایک ہی مقام پر اسے دے دی جائیں گی۔ یہ وہ مقام ہوگا جہاں وہ ان اعمال کے برے نتائج سے خوف زدہ ہوگا لیکن یہ تو جو کچھ بویا تھا اس کا حاصل ہوگا اور کسی کی طرف اس پر کوئی ظلم نہ ہوگا بلکہ یہ تو خود انسان ہے جو اپنے اوپر ظلم و ستم روا رکھتا ہے۔ وھم لا یظلمون۔
ضمناً ۔۔ یہ آیت دوسرے جہان میں انسانی اعمال مجسم ہونے پر ایک اور شاہد ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ تفسیر در منشور میں کئی طریقوں سے منقول ہے کہ یہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی آخری آیت ہے اس مضمون کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات بعید بھی نظر نہیں آتی۔ سوہ بقرہ اگرچہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی آخری سورت نہیں ہے تاہم یہ بات پہلی بات سے کوئی اختلاف نہیں رکھتی کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بعض اوقات بعد میں نازل ہونے والی آیات حکم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلی سورتوں میں شامل کرلی گئی ہیں۔
سود خوری کے نقصانات
سود خوری معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کردیتی ہے اور دولت و ثروت کے ارتکاز کا سبب بنتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے فقط ایک طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے اور تمام تر اقتصادی نقصان دوسرے طبقے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ جو ہم سنتے ہیں کہ امیر اور غریب ملکوں میں دن بدن فاصلہ بڑھ کر رہا ہے تو اسکی ایک اہم وجہ سود ہے اس کے بعد خون آشام جنگیں برپا ہوں گی۔
سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح اقتصادی مبادلہ ہے جو انسانی جذبوں اور رشتوں کو کمزور کردیتا ہے اور دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج بوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سود خوری نظام اس بنیاد پر استوار ہے کہ سود خور صرف اپنا مالی مفاد پیش نظر رکھتا ہے اور مقروض کے نقصان پر اس کی قطعاً کوئی نظر نہیں ہوتی۔
یہی مقام ہے جہاں مقروض سمجھتا ہے کہ سود خور پیسے کو اسے اور دوسروں کو بےبس کرنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سود دینے والا اپنی ضرورت کے ماتحت سود دینے پر تیار ہوتا ہے لیکن وہ اس بےانصافی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ معاملہ کبھی یہاں تک جا پہنچتا ہے کہ مقروض سورد خور کے پنجوں کی سخت گرفت شدت سے محسوس کرتا ہے ایسے موقع پر اس بےچارے کا سارا وجود سود خور کو لعنت اور نفرین کرتا ہے اور وہ اس کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ جو کمائی وہ جان کی بازی لگا کر کرتا ہے وہ سود خور کی جیب میں جارہی ہے۔ ان حالات میں ایسا بحران پیدا ہوتا ہے کہ بہت سے وحشت ناک جرائم سامنے آتے ہیں۔ کبھی مقروض خود کشی کرلیتا ہے کبھی شدید کرب سے دو چار ہو کر سود خور کو المناک طریقے سے قتل کردیتا ہے اور کبھی نتیجہ اجتماعی بحرن ‘ عمومی افرا تفری اور عوامی انقلاب کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔
تعاون کے رشتوں کی یہی کمزوری سود دینے والے اور سود لینے والے ممالک میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ وہ قومیں جو دیکھتی ہیں کہ ان کا سرمایہ سود کے نام پر دوسری قوم کی جیب میں جارہا ہے۔ ایک خاص بغض کینے اور نفرت سے اس قوم کو دیکھیں گی۔ انہیں قرض کی ضرورت تو ہے لیکن وہ منتظر رہتی ہیں کسی مناسب موقع پر اپنے ردعمل کا مظاہرہ کریں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل و دماغ پر بہت برا اثر مرتب کرتی ہے اور اس کے دل میں اس بات کا کینہ ضرور رہ جاتا ہے۔ اس سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے ١ ؎ (١ ؎ کتاب ‘ ریاخواری یا ‘ استعمار اقتصادی “ کا مطالعہ فرمائیں)
اسلامی روایات میں ایک مختصر سے پر معنی جملے کے ذریعے سود کے اخلاقی اثر کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
کتاب وسائل الشیعہ میں سود کی حرمت کی وجہ کے بارے میں ہے کہ ہشام بن سالم کہتا ہے امام صادق (رحمتہ علیہ) نے فرمایا :۔
” انما حرم اللہ عز و جل الربوا لکیلا یمتسنع الناس من اصطناع المعروف “ ١ ؎ (خدا تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے تاکہ لوگ نیک کام کرنے سے رک نہ جائیں۔ ١ ؎ )
سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١ۚ
اے ایماندارو ! (بڑھا چڑھا کر سود ) نہ کھاؤ خدا سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ۔
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔
قرآنی آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط :
گذشتہ آیات میں جنگ احد کے واقعات اور بہت سے درس موجود ہیں جو مسلمانوں نے اس عبرت آموز واقعے سے حاصل کیے۔ لیکن زیر نظر تین اور بعد والی چھ آیات چند ایک اقتصادی ، اجتماعی ، اور تربیتی پروگراموں پر مشتمل ہیں اور ان نو آیات کے بعد پھر از سر نو جنگ احد کا تذکرہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ انداز بیان بعض لوگوں کے لیے باعث تعجب ہو۔ لیکن بنیادی امر پر توجہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے :
قرآن کوئی کلاسی کی کتاب نہیں ہے جو کئی فصول و ابواب کی حامل ہو اور اس کے ابواب و فصول کے درمیان ایک خاص ربط ملحوظ رکھا گیا ہو بلکہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو تیئس سال کی مدت میں مختلف تربیتی ضروریات کے مطابق مختلف اوقات و مقامات میں قسط وار نازل ہوتی رہی۔ ایک دن واقعہ احد پیش آتا ہے اور مختلف جنگی پروگرام چند ایک آیات کے ضمن میں بتائے جاتے ہیں دوسرے روز ایک اقتصادی مسئلہ درپیش آتا ہے مثلاً سود یا حقوق کا مسئلہ سامنے آچلا ہے مثلا شادی بیاہ سے متعلق مسائل یا ایک تربیتی اور اخلاقی معاملہ درپیش ہوتا ہے مثلاً توبہ اور پھر کئی ایک آیات کا نزول ہوتا ہے ۔ البتہ تمام سورتیں اور آیات قرآن ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور وہ یہ کہ سب کی سب ایک انسان سازی اور اعلیٰ ترین سطح کے ایک تربیتی پروگرام کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایک پرامن عادی اور روحانی لحاظ سے ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔ لہذا اگر مندرجہ بالا آیات قبل و بعد کی آیات سے کوئی خاص ربط نہیں رکھتی تو اس کی یہی وجہ ہے۔
سود خوری کی حرمت کے چند مراحل :
ہم جانتے ہیں کہ قرآن کا ریہ طریقہ ہے کہ وہ معاشرے کی ایسی برائیاں جن کی جڑیں گہری ہوچکی ہیں ان کے بیخ کنی کرنے کے لیے آہستہ آہستہ زمین ہموار کرلیتا ہے اور لوگو کو تدریجاً ان کے مفاسد سے آگاہ کرتا ہے اور جب قرآنی احکام قبول کرنے کے لیے آمادگی حاصل ہوجائے تو قانون تصریحی شکل میں بیان کردیتا ہے (خصوصا ایسے مواقع پر جہاں گناہ سے آلودگی کا امکان بہت زیادہ ہو) ۔
یہ بھی واضح ہے کہ دنیائے عرب زمانہ جاہلیت میں سود خوری میں شدت سے ملوث تھی خصوصا مکہ کا گرد نواح سود خوروں کو ختم کرنے کے لیے حرمت کا حکم چار مراحل میں بیان کیا ہے :
(١) پہلے پہل سو د کے بارے میں سورة روم آیت ٣٩ میں ایک اخلاقی نصیحت پر زور دیا گیا ہے ۔ چناچہ ارشاد خداوندی ہے :
یعنی صرف کوتاہ نظر افراد کی نگاہ میں سود کھانے والوں کی ثروت میں سود لینے سے زیادتی ہوتی ہے لیکن خدا کے ہاں اس میں کوئی زیادتی نہیں ہوتی بلکہ زکواۃ اور راہ خدا میں خرچ کرنا دولت و ثروت کی زیادتی کا باعث ہے۔
(٢) سورة نساء آیت ١٦١ میں یہودیوں کی غلط رسوم و عادات پر تنقید کرتے ہوئے ان کی سودخوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
واخذھم الرربوا وقد نھوا عنہ
ان کی ایک بری عادت یہ تھی کہ وہ سود کھاتے تھے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔
٣) زیر بحث آیت میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے ذیل میں بتایا جائے گا ، سود کی حرمت کا صریح حکم ذکر ہوا ہے لیکن سود کی صرف ایک قسم کی طرف جو بہت بری قسم ہے ۔ ارشاد ہوا ہے۔
(٤) آخر میں سورة بقرہ کی آیت ٢٥٧ تک ہر قسم کی سود خوری کی شدت سے ممانعت کا اعلان کیا گیا ہے اور اسے خدا سے جنگ کرنے کے مترادف قرارد یا گیا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً
اس آیت میں سود کی قبیح ترین قسم کی حرمت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور ” اضعافا مضاعفۃ (چند و رچند ) کی تعبیر موجود ہے۔ رہائے فاحش سے مراد یہ ہے اصل سرمایہ ہی اضافی سود کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے ۔ یعنی سود پہلے مرحلے میں اصل سرمائے میں جمع ہو اجئے اور آئندہ اصل سرمائے میں سود جمع ہونے پر جو سرمایہ ہے اس پر سود لگے اور اسی ترتیب سے ہر مرتبہ کا سود اضافی سرمایہ بن کر گذشتہ سرمائے میں جمع ہوتا جائے اور سرمائے کی نئی رقم تشکیل دیتا جائے۔ اس طرح قلیل مدت میں ایک دوسرے پر سود کی زیادتی کی وجہ سے مقروض کے قرضہ سے کئی گنا زیادہ ہوجائے اور اس کی زندگی مکلمل طور پر دیوالیہ ہوجائے جیسا کہ رویات تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ اگر مقروض قرض کی مدت ختم ہونے پر قرض نہیں ادا کرسکتا تھا تو فرض خواہ سے تقاضا کرتا کہ وہ سود اصل قرض کا مجموعہ نئے سرمائے کی شکل میں اسے بطور قرض دیدے اور اس سود لے ۔ ہمارے دور میں بھی اس قسم کی ظالمانہ سودخوری کثرت سے رائج ہے۔
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ
یہ آیت از سر نو تقویٰ کی تاکید کرتی ہے اور اس آگ سے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ڈراتی ہے۔ لفظ کا فرین کھ ساتھ تعبیر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر سود خوری ایمان کے ساتھ ساز گار نہیں ہے اور سود خوروں کے لیے بھی اس آگ کا ایک حصہ ہے جو کفار کی منتظر ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کی آگ بنیادی طور پر کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ باقی رہے گناہ گار اور معصیت کار تو ان کے لیے اس کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا وہ کفار سے شباہت اور ہم آہنگی رکھتے ہیں۔
سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١
اس ظلم کی وجہ سے جو یہودیوں نے کیا نیز راہ خدا سے بہت زیادہ روکنے کی بنا پر کچھ پاکیزہ چیزیں جو ان پر حلال تھیں ہم نے حرام قرار دے دیں۔
اور (اسی طرح) ان کی سود خوری (بھی) ، جبکہ انہیں اس سے منع کردیا گیا تھا اور باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کی وجہ سے اور ان میں سے کافروں کے لئے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
یہودیوں میں سے صالح اور غیر صالح افراد کا انجام
گزشتہ آیات میں یہودیوں کی قانون شکنی کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مندرجہ بالا آیات میں ان کے کچھ اور ناشائستہ اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ان سزائوں کا تذکرہ ہے جو ان کے اعمال کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں ان کے دامن گیر ہوئیں اور ہوں گی۔
پہلے ارشاد فرمایا : اس ظلم و ستم کی وجہ سے جو یہودیوں نے کیا اور لوگوں کو راہ خدا سے باز رکھنے کی وجہ سے کچھ پاک و پاکیزہ چیزیں ہم نے ان پر حرام کردیں اور انہیں ان سے استفادہ سے محروم کردیا (فبظلم من الذین ھادو احرمنا علیھم لطیبات احلت لھم و بصدھم عن سبیل اللہ کثیراً )
نیز اس بنا پر کہ وہ سود کھاتے تھے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور سای طرح لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے ان کے یہی کام ان کی اس محرومیت کا سبب بنے (واخذھم الربوا وقد نواعنہ و اکلھم اموال الناس بالباطل) اس دنیاوی سزا کے علاوہ ہم انہیں اخروی سزائوں میں مبتلا کریں گے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لئے درد ناک عذاب تیار ہے (واعتدنا للکافرین منھم عذاباً الیماً )
چند اہم نکات
۔ 1 یہودیوں کے لئے طیبات کی حرمت : طیبات کی حرمت سے مراد ہی ہے جس کی طرف سورة انعام آیتہ 146 میں اشارہ ہوا ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :
ہم نے یہودیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہر جانور جس کا سم پھٹا ہوا نہ ہو ان پر حرام قرار دے دیا۔ نیز گائے اور بھیڑ بکری کی چربی بھی کہ جس سے انہیں لگائو تھا ان پر حرام کردی مگر اس کا وہ حصہ جو جانور کی پشت یا آتنوں کے اطراف میں ہو یا ہڈی کے ساتھ ملا ہوا ہو۔
لہٰذا مذکورہ حرمت تحریم تشریعی و قانونی تھی ، تحریم تکوینی نہ تھی۔ یعنی یہ نعمتیں طبعی اور فطری طور پر تو ان کے پاس تھیں ، لیکن شرعاً انہیں ان کے کھانے سے روک دیا گیا تھا۔ موجودہ تورات کے سفر لادیان کی گیارہویں فصل میں ان میں سے کچھ چیزوں کی حرمت کا ذکر موجود ہے لیکن یہ بات اس میں نہی کہ یہ حرمت سزا کے طور پر تھی۔ ١ ؎
١ ؎ تفسیر نمونہ جلد سوم کی طرف رجوع کیجیے (دیکھیے صف 29 اردو ترجمہ)
۔ 2 کیا یہ حرمت عمومی تھی ؟ یہ حرمت ظالم لوگوں کے لئے ہی تھی یا سب کے لئے …… اس سلسلے میں مندرجہ بالا آیت اور سورة انعام کی آیت 146 کے ظاہری مفہوم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ تحریم عمومی تھی کیونکہ آیت میں ” لھم “ کہا گیا ہے جبکہ اخروی سزا کے لئے ” للکافرین منھم ‘ آیات ہے ، یعنی ان میں سے کافروں کے لئے ، لہٰذا ظالموں کے لئے تو یہ حرمت سزا کے طور پر تھی جبکہ نیک لوگ جو کم تعداد میں تھے ان کے لئے آزمائش اور انضباط کے پہلو سے تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ تحریم فقط ستمگروں کے لئے تھی اور بعض روایات میں بھی اس طرح اشارہ کیا گیا ہے تفسیر برہان میں سورة انعام کی آیت ١٤٦ کے ذیل میں امام صادق (رحمتہ علیہ) سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا :
بنی اسرائیل کے حکام اور رئوسا فقیر اور نادار لوگوں کو پرندوں کے گوشت اور جانوروں کی چربی کھانے سے روکتے تھے۔ خدا نے ان کے اس ظلم و ستم کی وجہ سے ان چیزوں کو خود ان پر حرام قرار دے دیا۔ ١ ؎ (١ ؎ تفسیر برہان ج ١ صف ٥٥٩)
٣۔ سود کی حرمت قبل از اسلام سے ہے : اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سود کی حرمت اسلام ہی سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ گزشتہ قوموں میں بھی حرام تھا اگرچہ موجودہ تحیرف شدہ تورات میں اس کی حرمت برادران دینی میں حرام شمار کی گئی ہے۔ ٢ ؎ (٢ ؎ تورات ، سفر تثنیہ فصل ٢٣ جملہ ٢٠١٩ برادران دینی سے ظاہراً اولاد حضرت اسماعیل مراد ہے (مترجم)
یہودیوں میں سے اہل ایمان۔
زیر نظر آیات میں سے آخری آیت میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے جس کا قرآن نے بارہا اظاہر کیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن اگر یہودیوں کی مذمت کرتا ہے تو یہ نسلی اور گروہی جھگڑے کے حوالے سے نہیں ہے۔ اسلام کسی قوم و قبیلے کی مذمت قوم اور قبیلے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ اس مذمت کا ہدف صرف آلودہ گناہ اور منحرف لوگ ہوتے ہیں اسی لئے اس آیت میں یہودیوں میں سے صاحب ایمان اور پاک دامن افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور ان کی تعریف کی گئی ہے اور انہیں اجر عظیم کی بشارت دی گئی ہے قرآن کہتا ہے : یکن یہودیوں میں سے وہ لوگ جو علم و دانش میں راسخ ہیں ، خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ تم سے پہلے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لے آئے ہیں ہم بہت جلد انہیں اجر عظیم سے نوازیں گے۔ (لکن الراسخون فی العلم منھم والمئومنون یئومنون بما انزل الیک ومآ انزل من قبلک والمقیمین الصلوۃ و المئوتون الزکوۃ والمئومنن باللہ والیوم الاخر اولئک سنئوتیھم اجراً عظیماً ) ٣ ؎
٣ ؎ ” الراسخون فی العلم “ کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد دوم صف ٢٥٥ (اردو ترجمہ) میں تفصیلی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کے بڑے لوگوں میں ایک جماعت اسلام کے ظہور اور اس کی حقانیت کو دیکھتے ہوئے دائرۃ اسلام میں داخل ہوگئی اور دل و جان سے اس کی حمایت کی۔ یہ لوگ پیغمبر اسلام اور باقی مسلمانوں کے لئے قابل احترام قرار پائے۔
سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39
اور تم جو سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور تم جو بطور زکوۃ ادا کرتے ہو اور صرف رضائے الٰہی کے طلب گار ہوتے ہو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی دو گنا اجر پانے والے ہیں۔