سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 18 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ قَبِيصَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ فَنَظَرَ إِلَی النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ کِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ وَکِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَأْکُلُونَ الرِّبَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةً فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَی الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا کَانَ مِنْ نَظِرَةٍ فَقَالَ عُبَادَةُ أُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِکَ لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاکِنُکَ بِأَرْضٍ لَکَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَا أَقْدَمَکَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاکَنَتِهِ فَقَالَ ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَی أَرْضِکَ فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا وَأَمْثَالُکَ وَکَتَبَ إِلَی مُعَاوِيَةَ لَا إِمْرَةَ لَکَ عَلَيْهِ وَاحْمِلْ النَّاسَ عَلَی مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری (رض) نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ (رض) کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا : لوگو ! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے : ” تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ١ ؎”، تو معاویہ (رض) نے ان سے کہا : ابوالولید ! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ (رض) نے کہا : میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا : ابوالولید ! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے ؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ (رض) سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر (رض) نے کہا : ” ابوالولید ! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں “، اور معاویہ (رض) کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٥١٠٦، ومصباح الزجاجة : ٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٥ (١٥٨٧) ، سنن ابی داود/البیوع ١٢ (٣٣٤٩) ، سنن الترمذی/البیوع ٢٣ (١٢٤٠) ، سنن النسائی/البیوع ٤٢ (٤٥٦٧) ، مسند احمد (٥/٣١٤) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٥٥٤) ، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ٢٢٥٤) (صحیح) (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ (رض) سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل و منقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں : قبیصہ کی ملاقات عبادہ (رض) سے نہیں ہوئی )
وضاحت : ١ ؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو ۔ عبادۃ بن صامت (رض) کی کنیت ابوالولید ہے۔
It was narrated from Ishâq bin Qabisah from his father that ‘Ubâdah bin Sâmit Al-Ansâri, head of the army unit, the Companion of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) , went on a military campaign with Mu’âwiyah in the land of the Byzantines. He saw people trading pieces of gold for Dinár and pieces of silver for Dirham. He said: “O people, you are consuming Ribâ (usury)! For I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) say: ‘Do not sell gold for gold unless it is like for like; there should be no increase and no delay (between the two transactions).” Mu’âwiyah said to him: “O Abu Walid, I do not think there is any Riba involved in this, except in cases where there is a delay.”‘Ubâdah said to him: “I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) , and you tell me your opinion! If Allah brings me back safely I will never live in a land in which you have authority over me.” When he returned, he stayed in Al-Madinah, and ‘Umar bin Khattâb said to him: “What brought you here, O Abu Walid?” So he told him the story, and what he had said about not living in the same land as Mu’âwiyah. ‘Umar said:
“Go back to your land, O Abu Walid, for what a bad land is the land from where you and people like you are absent.” Then he wrote to Mu’âwiyah and said: “You have no authority over him; make the people follow what he says, for he is right.” (Hasan)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 411 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ
حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سونے کا سونے سے تبادلہ سود ہے مگر دست بدست ہو (تب سود نہیں) ، گندم کا گندم سے تبادلہ سود ہے سوائے اس کے کہ دست بدست ہو، جو کا جو سے تبادلہ سود ہے مگر جب دست بدست ہو، کھجور کا کھجور سے تبادلہ سود ہے الا یہ دست بدست ہو۔
It was narrated that Malik bin Aws bin Hadathan Nasri said: “I heard ‘Umar bin Al-Khattab (RA) say: ‘The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “Exchanging gold for gold is usury, unless it is done on the spot. (Exchanging) wheat for wheat is usury, unless it is done
on the spot. (Exchanging) barley for barley is usury unless it is done on the spot. (Exchanging) dates for dates is usury, unless it
is done on the spot.” (Sahih)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 415 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ الدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ وَالدِّينَارُ بِالدِّينَارِ فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ غَيْرَ ذَلِکَ قَالَ أَمَا إِنِّي لَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ هَذَا الَّذِي تَقُولُ فِي الصَّرْفِ أَشَيْئٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْ شَيْئٌ وَجَدْتَهُ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَقَالَ مَا وَجَدْتُهُ فِي کِتَابِ اللَّهِ وَلَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَکِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ
حضرت ابو صالح (رح) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے سنا کہ درہم کے بدلے میں درہم اور دینار کے بدلے میں دینار ہوتا ہے۔ میں نے کہا : میں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو (اس کے برعکس) دوسری بات کہتے سنا ہے۔ ابو سعید (رض) نے فرمایا : میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ملا تھا۔ میں نے انہیں کہا : آپ صرف (درہم و دینار کے تبادلے) کے بارے میں جو کچھ فرماتے ہیں، کیا یہ مسئلہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے یا اللہ کی کتاب میں (اس کے بارے میں) کچھ دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے یہ مسئلہ نہ اللہ کی کتاب میں پایا ہے، نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے لیکن مجھے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے بتایا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماای ہے : سود صرف ادھار میں ہوتا ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “I heard Abu Sa’eed Al-Khudri say: ‘A Dirham for a Dirham and a Dinar for a Dinar.’ So I said: ‘I heard Ibn ‘Abbas say something other than that: He said: ‘But I met Ibn ‘Abbas and said: “Tell me about what you say concerning exchange – is it something that you heard from the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or something that you found in the Book of Allah?” He said: “I did not find it in the Book of Allah, and I did not hear it from the Messenger of Allah; rather Usamah bin Zaid told me that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “Usury is only in credit.
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 417 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ سَمِعَ مَالِکَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ قَالَ أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ احْفَظُوا
عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سونے کو چاندی سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد “۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا : یاد رکھو کہ سونے کو چاندی سے یعنی باوجود اختلاف جنس کے ادھار بیچنا «ربا» (سود) ہے۔
تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : (٢٢٥٣) (صحیح )
It was narrated that Zuhri heard Malik bin Aws bin Hadathan say: “I heard ‘Umar say: “The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ‘Gold for silver is usury, unless it is exchanged on the spot:” (Sahih) Abu Bakr (RA) bin Abu-Shaibah said: “I heard sufyan saying: ‘Gold for silver.” memorize (this).
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 418 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَرِنَا ذَهَبَکَ ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَائَ خَازِنُنَا نُعْطِکَ وَرِقَکَ فَقَالَ عُمَرُ کَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ میں یہ کہتے ہوئے آیا کہ کون درہم کی بیع صرف کرتا ہے ؟ یہ سن کر طلحہ بن عبیداللہ (رض) بولے، اور وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس بیٹھے تھے : لاؤ مجھے اپنا سونا دکھاؤ، اور دے جاؤ، پھر ذرا ٹھہر کے آنا، جب ہمارا خزانچی آجائے گا تو ہم تمہیں درہم دے دیں گے، اس پر عمر (رض) نے کہا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم ! یا تو اس کی چاندی دے دو ، یا اس کا سونا اسے لوٹا دو ، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ” چاندی کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو “۔
تخریج دارالدعوہ : «انظر حدیث رقم : (٢٢٥٣) (صحیح )
It was narrated that Malik bin Aws bin Hadathan said: “I came saying. ‘Who will exchange Dirham?’ Talhah bin ‘Ubaidullah,
who was with ‘Umar bin Khattab, said: ‘Show us your gold, then Come to us; when our treasure comes, we will give you your silver: ‘Umar said: ‘No, by Allah, you will give him silver (now), or give him back his gold, for the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “Silver for gold is usury, unless it is exchanged on the spot.”: (Sahih)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 431 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الصَّلْتِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَی قَوْمٍ بُطُونُهُمْ کَالْبُيُوتِ فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَی مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَؤُلَائِ يَا جِبْرَائِيلُ قَالَ هَؤُلَائِ أَکَلَةُ الرِّبَا
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا : جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ سود خور ہیں “۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٥٤٤٣، ومصباح الزجاجة : ٧٩٨) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (٢/٣٥٣، ٣٦٣)
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “On the night in which I was taken on the Night Journey (AI-Isra’), I came to people whose stomachs were like houses, in which there were snakes that could be seen from outside their stomachs. I said: ‘Who are these, a Jibrail?’ He said: ‘They are the ones who consumed usury.”’
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 432 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ
ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٣٠٧٣، ومصباح الزجاجة : ٧٩٩) (صحیح) (سند میں ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے )
وضاحت : ١ ؎: ستر کی تعداد سے مراد گناہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)said: “There are seventy degrees of usury, the least of which is equivalent to a man having intercourse with his mother. (Hasan)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 433 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الصَّيْرَفِيُّ أَبُو حَفْصٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الرِّبَا ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ بَابًا
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود کے تہتر دروازے ہیں “۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٥٦١، ومصباح الزجاجة : ٨٠٠) (صحیح )
It was narrated from ‘Abdullah that the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “There are seventy-three degrees of usury.” (Hasan)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 434 حدیث موقوف
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ
عمر (رض) کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہوئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر ہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو ، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ١٠٤٥٤) ، وقد أخرجہ : (حم (١/٣٦، ٤٩) (صحیح )
وضاحت : ١ ؎: اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہیے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا، چھ چیزوں کا بیان کردیا کہ ان میں سود ہے : سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، اور کھجور، اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کردیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہیے، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے۔
It was narrated that ‘Urnar bin Khattab said: “The last thing to be revealed was the Verse on usury, but the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)died before he had explained it to us. So give up usury (interest) and doubtful things.”
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 435 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَهُ وَشَاهِدِيهِ وَکَاتِبَهُ
عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن الترمذی/البیوع ٢ (١٢٠٦) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، وقد أخرجہ : صحیح مسلم/المساقاة ١٩ (١٥٩٧) ، سنن النسائی/الطلاق ١٣ (٣٤٤٥) ، مسند احمد (١/٣٩٣، ٣٩٤، ٤٠٢، ٤٥٣) (صحیح )
It was narrated from ‘Abdullâh bin Mas’ud that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) cursed the one who consumes usury, the one who pays it, those who witness it and the one who writes it down. (Hasan)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 436 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي خَيْرَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَی مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا آکِلُ الرِّبَا فَمَنْ لَمْ يَأْکُلْ أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جس میں کوئی شخص سود کھائے بغیر نہیں رہے گا۔ جو شخص سود نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا گردوغبار تو پہنچ ہی جائے گا۔
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “There will come a time when there will be no one left who does not consume usury (interest), and whoever does not consume it will nevertheless be affected by it.”’
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 437 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ الرُّکَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَحَدٌ أَکْثَرَ مِنْ الرِّبَا إِلَّا کَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَی قِلَّةٍ
عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے ” ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ٩٢٠٣، ومصباح الزجاجة : ٨٠٢) ، وقد أخرجہ : مسند احمد (١/٣٩٥، ٤٢٤) (صحیح )
وضاحت : ١ ؎: سودی کاروبار کرنے والا اپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ و برباد ہوجاتا ہے، اور آدمی مفلس بن جاتا ہے۔ اس امر کا تجربہ ہوچکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار و مشرکین کا مال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غرض، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے۔ اور چونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔
It was narrated from Ibn Mas’ud that the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: “There is no one who deals in usury a great deal (to increase his
wealth) but he will end up with little (i.e., his wealth will be decreased).” (Sahih)
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1215 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَلَا أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالُوا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ قَالَ فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ بَيْنَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا فِي شَهْرِکُمْ هَذَا فِي بَلَدِکُمْ هَذَا أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَی نَفْسِهِ وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَی وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَی وَالِدِهِ أَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِکُمْ هَذَا أَبَدًا وَلَکِنْ سَيَکُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِکُمْ فَيَرْضَی بِهَا أَلَا وَکُلُّ دَمٍ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ مَا أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ کَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ أَلَا وَإِنَّ کُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَکُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ أَلَا يَا أُمَّتَاهُ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالُوا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
حضرت عمرو بن احوص (رض) سے روایت ہے ‘ انھوں نے فرمایا : میں نے حجۃ الوداع میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ‘ آپ فرما رہے تھے :” اے لوگو ! کون سا دن زیادہ حرمت (اور احترام) والا ہے ؟ “ تین بار فرمایا : حاضرین نے کہا حج اکبر کا دن۔ آپ نے فرمایا :” تمہارے خون ‘ تمہارے مال ‘ تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں ‘ تمہارے اس مہینے (ذوالحجہ) کا یہ دن قابل احترام ہے۔ سنو ! مجرم کے جرم کی ذمہ داری صرف اسی پر ہے۔ باپ کے جرم کی ذمہ داری اس کے بیٹے پر نہیں اور بیٹے کے جرم کی ذمہ داری اس کے باپ پر نہیں۔ سنو ! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی پوجا کی جائے ‘ لیکن بعض ایسے کاموں میں اس کی اطاعت ہوتی رہے گی جنھیں تم معمولی سمجھتے ہو ‘ اور وہ اس پر راضی ہوجائے گا۔ سنو ! جاہلیت میں کیے جانے والا خون ہر خون کالعدم ہے۔ سب سے پہلے میں حارث بن عبدالمطلب کا خون معاف کرتا ہوں۔ یہ (شیر خوار بچہ) قبیلہء بنو لیث میں پرورش پا رہا تھا۔ بنو ہذیل نے اسے قتل کردیا۔ سنو ! جاہلیت کا ہر سود کالعدم ہے ‘ صرف اصل زر تمہارا حق ہے ‘ نہ تم ظلم کرو ‘ نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ سنو ! میری امت ! کیا میں نے (اللہ کے احکام) پہنچا دیے ؟ تین بار فرمایا : سب نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے فرمایا :” اے اللہ ! گواہ رہ۔ “
It was narrated from Sulaiman bin ‘Amr bin Ahwas that his father said: “I heard the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) say, during the Farewell Pilgrimage: ‘O people! Which day is the most is sacred?’ three times. They said: ‘The day of the greatest Hajj.’ He said: ‘Your blood and your wealth and your honor are sacred to one another, as sacred as this day of yours, in this month of yours, in this land of yours. No sinner commits a sin but it is against himself. No father is to be punished for the sins of his child, and no child is to be punished for the sins of his father. Satan has despaired of ever being worshipped in this land of yours, but he will be obeyed in some matters which you regard as insignificant, and he will be content with that. All the blood feuds of the Ignorance days are abolished, and the first of them that I abolish is the blood feud of Harith bin ‘Abdul-Muttalib, who was nursed among Banu Laith and killed by Hudhail. All the usuries of the Ignorance days are abolished, but you will have your capital. Do not wrong others and you will not be wronged. O my nation, have I conveyed (the message)?’ (He asked this) three times. They said: ‘Yes.’ He said: ‘O Allah, bear witness!’ three times.”
سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 263 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ
حضرت عا ئشہ (رض) سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا : جب سود کے بارے میں سورة بقرہ کے اخیر والی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (گھر سے ) باہر تشر یف لے گئے اور شراب کی حرام ہونے کا اعلان فر ما دیا۔
It was narrated that ‘ Aisha (RA) said: “When the Verses at the end of Sural Al-Baqarah concerning usury were revealed, the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) went out and forbade dealing in wine.” (Sahih)