موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1224 حدیث موقوف
عَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَی بَعْضٍ وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَی بَعْضٍ وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالذَّهَبِ أَحَدُهُمَا غَائِبٌ وَالْآخَرُ نَاجِزٌ وَإِنْ اسْتَنْظَرَکَ إِلَی أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلَا تُنْظِرْهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْکُمْ الرَّمَائَ وَالرَّمَائُ هُوَ الرِّبَا
حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا مت بیچو سونے کو بدلے میں سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کے بدے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو اور دوسرا وعدے پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔
Yahya related to me from Malik from Nafi from Abdullah ibn Umar that Umar ibn al-Khattab said, “Do not sell gold for gold except like for like, and do not increase one part over another part. Do not sell silver for silver except like for like, and do not increase one part over another part. Do not sell silver for gold, one of them at hand and the other to be given later. If someone seeks to delay paying you until he has been to his house, do not leave him. I fear rama for you.” Rama is usury.
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1228 حدیث مرفوع
عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ قَالَ فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَتَرَاوَضْنَا حَتَّی اصْطَرَفَ مِنِّي وَأَخَذَ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ ثُمَّ قَالَ حَتَّی يَأْتِيَنِي خَازِنِي مِنْ الْغَابَةِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْمَعُ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ لَا تُفَارِقْهُ حَتَّی تَأْخُذَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ
قَالَ مَالِک إِذَا اصْطَرَفَ الرَّجُلُ دَرَاهِمَ بِدَنَانِيرَ ثُمَّ وَجَدَ فِيهَا دِرْهَمًا زَائِفًا فَأَرَادَ رَدَّهُ انْتَقَضَ صَرْفُ الدِّينَارِ وَرَدَّ إِلَيْهِ وَرِقَهُ وَأَخَذَ إِلَيْهِ دِينَارَهُ وَتَفْسِيرُ مَا کُرِهَ مِنْ ذَلِکَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَإِنْ اسْتَنْظَرَکَ إِلَی أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلَا تُنْظِرْهُ وَهُوَ إِذَا رَدَّ عَلَيْهِ دِرْهَمًا مِنْ صَرْفٍ بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَهُ کَانَ بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ أَوْ الشَّيْئِ الْمُتَأَخِّرِ فَلِذَلِکَ کُرِهَ ذَلِکَ وَانْتَقَضَ الصَّرْفُ وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ لَا يُبَاعَ الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ وَالطَّعَامُ کُلُّهُ عَاجِلًا بِآجِلٍ فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَکُونَ فِي شَيْئٍ مِنْ ذَلِکَ تَأْخِيرٌ وَلَا نَظِرَةٌ وَإِنْ کَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ أَوْ کَانَ مُخْتَلِفَةً أَصْنَافُهُ
مالک بن اوس نے کہا مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبیداللہ نے پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے لٹ پلٹ کرنے لگے اور کہا صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ آجائے حضرت عمر نے یہ سن کر کہا نہیں قسم اللہ کی مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور گہیوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقدا نقد اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور جو بدلے جو کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور نمک بدلے نمک کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لئے پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے اور سب روپے اس کے واپس دے دے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور حضرت عمر نے فرمایا اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہوجائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہوجائے گا اسی واسطے یہ مکروہ ہے خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسرے طرف وعدہ خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔
Yahya related to me from Malik from Ibn Shihab from Malik ibn Aus ibn al-Hadathan an-Nasri that one time he asked to exchange 100 dinars. He said, “Talha ibn Ubaydullah called me over and we made a mutual agreement that he would make an exchange for me. He took the gold and turned it about in his hand, and then said, ‘I can’t do it until my treasurer brings the money to me from al-Ghaba.’ Umar ibn al-Khattab was listening and Umar said, ‘By Allah! Do not leave him until you have taken it from him!’ Then he said, ‘The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, “Gold for silver is usury except hand to hand. Wheat for wheat is usury except hand to hand. Dates for dates is usury except hand to hand. Barley for barley is usury except hand to hand.” “‘Malik said, “The commentary on why that is disapproved is that the owner of the good gold uses the excellence of his old gold coins as an excuse to throw in the unminted gold with it. Had it not been for the superiority of his (good) gold over the gold of the other party, the other party would not have counterpoised the unminted gold for his kufic gold, and the deal would have been refused.
“It is like a man wanting to buy three sa of ajwa dried dates for two sa and a mudd of kabis dates, and on being told that it was not good, then offering two sa of kabis and a sa of poor dates desiring to make the sale possible. That is not good because the owner of the ajwa should not give him a sa of ajwa for a sa of poor dates. He would only give him that because of the excellence of kabis dates.
“Or it is like a man asking some one to sell him three sa of white wheat for two and a half sa of Syrian wheat, and being told that it was not good except like for like, and so offering two sa of wheat and one sa of barley intending to make the sale possible between them. That is not good because no one would have given a sa of barley for a sa of white wheat had that sa been by itself. It was only given because of the excellence of Syrian wheat over the white wheat. This is not good. It is the same as the case of the unminted gold.”
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1233 حدیث موقوف
عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ قَالَ فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَتَرَاوَضْنَا حَتَّی اصْطَرَفَ مِنِّي وَأَخَذَ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ ثُمَّ قَالَ حَتَّی يَأْتِيَنِي خَازِنِي مِنْ الْغَابَةِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْمَعُ فَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ لَا تُفَارِقْهُ حَتَّی تَأْخُذَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ
قَالَ مَالِک إِذَا اصْطَرَفَ الرَّجُلُ دَرَاهِمَ بِدَنَانِيرَ ثُمَّ وَجَدَ فِيهَا دِرْهَمًا زَائِفًا فَأَرَادَ رَدَّهُ انْتَقَضَ صَرْفُ الدِّينَارِ وَرَدَّ إِلَيْهِ وَرِقَهُ وَأَخَذَ إِلَيْهِ دِينَارَهُ وَتَفْسِيرُ مَا کُرِهَ مِنْ ذَلِکَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَإِنْ اسْتَنْظَرَکَ إِلَی أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلَا تُنْظِرْهُ وَهُوَ إِذَا رَدَّ عَلَيْهِ دِرْهَمًا مِنْ صَرْفٍ بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَهُ کَانَ بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ أَوْ الشَّيْئِ الْمُتَأَخِّرِ فَلِذَلِکَ کُرِهَ ذَلِکَ وَانْتَقَضَ الصَّرْفُ وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ لَا يُبَاعَ الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ وَالطَّعَامُ کُلُّهُ عَاجِلًا بِآجِلٍ فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَکُونَ فِي شَيْئٍ مِنْ ذَلِکَ تَأْخِيرٌ وَلَا نَظِرَةٌ وَإِنْ کَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ أَوْ کَانَ مُخْتَلِفَةً أَصْنَافُهُ
مالک بن اوس نے کہا مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبیداللہ نے پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے لٹ پلٹ کرنے لگے اور کہا صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ آجائے حضرت عمر نے یہ سن کر کہا نہیں قسم اللہ کی مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور گہیوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقدا نقد اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور جو بدلے جو کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور نمک بدلے نمک کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لئے پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے اور سب روپے اس کے واپس دے دے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور حضرت عمر نے فرمایا اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہوجائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہوجائے گا اسی واسطے یہ مکروہ ہے خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسرے طرف وعدہ خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔
Yahya related to me from Malik from Ibn Shihab from Malik ibn Aus ibn al-Hadathan an-Nasri that one time he asked to exchange 10O dinars. He said, “Talha ibn Ubaydullah called me over and we made a mutual agreement that he would make an exchange for me. He took the gold and turned it about in his hand, and then said, ‘I can’t do it until my treasurer brings the money to me from al-Ghaba.’ Umar ibn al-Khattab was listening and Umar said, ‘By Allah! Do not leave him until you have taken it from him!’ Then he said, ‘The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, “Gold for silver is usury except hand to hand. Wheat for wheat is usury except hand to hand. Dates for dates is usury except hand to hand. Barley for barley is usury except hand to hand.” “‘Malik said, “The commentary on why that is disapproved is that the owner of the good gold uses the excellence of his old gold coins as an excuse to throw in the unminted gold with it. Had it not been for the superiority of his (good) gold over the gold of the other party, the other party would not have counterpoised the unminted gold for his kufic gold, and the deal would have been refused “It is like a man wanting to buy three sa of ajwa dried dates for two sa and a mudd of kabis dates, and on being told that it was not good, then offering two sa of kabis and a sa of poor dates desiring to make the sale possible. That is not good because the owner of the ajwa should not give him a sa of ajwa for a sa of poor dates. He would only give him that because of the excellence of kabis dates
“Or it is like a man asking some one to sell him three sa of white wheat for two and a half sa of Syrian wheat, and being told that it was not good except like for like, and so offering two sa of wheat and one sa of barley intending to make the sale possible between them. That is not good because no one would have given a sa of barley for a sa of white wheat had that sa been by itself. It was only given because of the excellence of Syrian wheat over the white wheat. This is not good. It is the same as the case of the unminted gold.
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1247 حدیث مقطوع
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ قَالَ لَا رِبًا فِي الْحَيَوَانِ وَإِنَّمَا نُهِيَ مِنْ الْحَيَوَانِ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَضَامِينِ وَالْمَلَاقِيحِ وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ وَالْمَضَامِينُ بَيْعُ مَا فِي بُطُونِ إِنَاثِ الْإِبِلِ وَالْمَلَاقِيحُ بَيْعُ مَا فِي ظُهُورِ الْجِمَالِ
قَالَ مَالِک لَا يَنْبَغِي أَنْ يَشْتَرِيَ أَحَدٌ شَيْئًا مِنْ الْحَيَوَانِ بِعَيْنِهِ إِذَا کَانَ غَائِبًا عَنْهُ وَإِنْ کَانَ قَدْ رَآهُ وَرَضِيَهُ عَلَی أَنْ يَنْقُدَ ثَمَنَهُ لَا قَرِيبًا وَلَا بَعِيدًا قَالَ مَالِک وَإِنَّمَا کُرِهَ ذَلِکَ لِأَنَّ الْبَائِعَ يَنْتَفِعُ بِالثَّمَنِ وَلَا يُدْرَی هَلْ تُوجَدُ تِلْکَ السِّلْعَةُ عَلَی مَا رَآهَا الْمُبْتَاعُ أَمْ لَا فَلِذَلِکَ کُرِهَ ذَلِکَ وَلَا بَأْسَ بِهِ إِذَا کَانَ مَضْمُونًا مَوْصُوفًا
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1247 حدیث مقطوع مکررات 0 متفق علیہ 0
سعید بن مسیب نے کہا حیوان میں ربا نہیں ہے بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں ایک مضا میں کی دوسرے ملا قیح کیتی سے حبل الحبلہ کی مضا میں وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں ملاقیح وہ جانور جو رن کے پشت میں ہیں حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہوچکا ہے ،۔ کہا مالک نے معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری (خریدنے والا) اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کرچکا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری (خریدنے والا) کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے البتہ اگر غیر معین جانور کو اوصاف بیان کرکے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔
Yahya related to me from Malik from Ibn Shihab that Said ibn al-Musayyab said, “There is no usury in animals. There are three things forbidden in animals: al-madamin, al-malaqih and habal al-habala. Al-madamin is the sale of what is in the wombs of female camels. Al-malaqih is the sale of the breeding qualities of camels” (i.e. for stud).
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1254 حدیث موقوف
عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَرَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ رَجُلٍ سَلَّفَ فِي سَبَائِبَ فَأَرَادَ بَيْعَهَا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَهَا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تِلْکَ الْوَرِقُ بِالْوَرِقِ وَکَرِهَ ذَلِکَ
قَالَ مَالِک وَذَلِکَ فِيمَا نُرَی وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ بِأَکْثَرَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ وَلَوْ أَنَّهُ بَاعَهَا مِنْ غَيْرِ الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ لَمْ يَکُنْ بِذَلِکَ بَأْسٌ
قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ سَلَّفَ فِي رَقِيقٍ أَوْ مَاشِيَةٍ أَوْ عُرُوضٍ فَإِذَا كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ مَوْصُوفًا فَسَلَّفَ فِيهِ إِلَى أَجَلٍ فَحَلَّ الْأَجَلُ فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ لَا يَبِيعُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ مِنْ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْهُ بِأَكْثَرَ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي سَلَّفَهُ فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ مَا سَلَّفَهُ فِيهِ وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا فَعَلَهُ فَهُوَ الرِّبَا صَارَ الْمُشْتَرِي إِنْ أَعْطَى الَّذِي بَاعَهُ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فَانْتَفَعَ بِهَا فَلَمَّا حَلَّتْ عَلَيْهِ السِّلْعَةُ وَلَمْ يَقْبِضْهَا الْمُشْتَرِي بَاعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِأَكْثَرَ مِمَّا سَلَّفَهُ فِيهَا فَصَارَ أَنْ رَدَّ إِلَيْهِ مَا سَلَّفَهُ وَزَادَهُ مِنْ عِنْدِهِ قَالَ مَالِك مَنْ سَلَّفَ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا فِي حَيَوَانٍ أَوْ عُرُوضٍ إِذَا كَانَ مَوْصُوفًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ حَلَّ الْأَجَلُ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يَبِيعَ الْمُشْتَرِي تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنْ الْبَائِعِ قَبْلَ أَنْ يَحِلَّ الْأَجَلُ أَوْ بَعْدَ مَا يَحِلُّ بِعَرْضٍ مِنْ الْعُرُوضِ يُعَجِّلُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ بَالِغًا مَا بَلَغَ ذَلِكَ الْعَرْضُ إِلَّا الطَّعَامَ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ أَنْ يَبِيعَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ وَلِلْمُشْتَرِي أَنْ يَبِيعَ تِلْكَ السِّلْعَةَ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ عَرْضٍ مِنْ الْعُرُوضِ يَقْبِضُ ذَلِكَ وَلَا يُؤَخِّرُهُ لِأَنَّهُ إِذَا أَخَّرَ ذَلِكَ قَبُحَ وَدَخَلَهُ مَا يُكْرَهُ مِنْ الْكَالِئِ بِالْكَالِئِ وَالْكَالِئُ بِالْكَالِئِ أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ دَيْنًا لَهُ عَلَى رَجُلٍ بِدَيْنٍ عَلَى رَجُلٍ آخَرَ قَالَ مَالِك وَمَنْ سَلَّفَ فِي سِلْعَةٍ إِلَى أَجَلٍ وَتِلْكَ السِّلْعَةُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ يَبِيعُهَا مِمَّنْ شَاءَ بِنَقْدٍ أَوْ عَرْضٍ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهَا مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهَا الَّذِي اشْتَرَاهَا مِنْهُ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَبِيعَهَا مِنْ الَّذِي ابْتَاعَهَا مِنْهُ إِلَّا بِعَرْضٍ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ قَالَ مَالِك وَإِنْ كَانَتْ السِّلْعَةُ لَمْ تَحِلَّ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَهَا مِنْ صَاحِبِهَا بِعَرْضٍ مُخَالِفٍ لَهَا بَيِّنٍ خِلَافُهُ يَقْبِضُهُ وَلَا يُؤَخِّرُهُ قَالَ مَالِك فِيمَنْ سَلَّفَ دَنَانِيرَ أَوْ دَرَاهِمَ فِي أَرْبَعَةِ أَثْوَابٍ مَوْصُوفَةٍ إِلَى أَجَلٍ فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ تَقَاضَى صَاحِبَهَا فَلَمْ يَجِدْهَا عِنْدَهُ وَوَجَدَ عِنْدَهُ ثِيَابًا دُونَهَا مِنْ صِنْفِهَا فَقَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَثْوَابُ أُعْطِيكَ بِهَا ثَمَانِيَةَ أَثْوَابٍ مِنْ ثِيَابِي هَذِهِ إِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا أَخَذَ تِلْكَ الْأَثْوَابَ الَّتِي يُعْطِيهِ قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ الْأَجَلُ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ أَيْضًا إِلَّا أَنْ يَبِيعَهُ ثِيَابًا لَيْسَتْ مِنْ صِنْفِ الثِّيَابِ الَّتِي سَلَّفَهُ فِيهَا
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1254 حدیث موقوف مکررات 0 متفق علیہ 0
قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ایک شخص نے پوچھا جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے ابن عباس نے کہا یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں اور اس کو مکروہ جانا۔ کہا مالک نے ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں اور اس کے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزرے تو مشتری (خریدنے والا) ان چیزوں کو اسی بائع (بچنے والا) کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے ورنہ ربا ہوجائے گا گویا بائع (بچنے والا) نے ایک مدت تک مشتری (خریدنے والا) کے روپوں سے فائدہ اٹھایا پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔ کہا مالک نے جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اساب میں یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کردے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے تو مشتری (خریدنے والا) اس اسباب یا جانور کو بائع (بچنے والا) کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے اس میں میعاد نہ ہو سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں اور اگر مشتری (خریدنے والا) اس اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے میعاد نہ ہو ورنہ کا لئی کی بیع کا لئی کے بدلے میں ہوجائے گی یعنی دین کے بدلے میں دین۔ کہا مالک نے جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع (بچنے والا) کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ بائع (بچنے والا) کے ہاتھ ہی بیچے اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بید ڈالے تو کچھ قباحت نہیں مگر نقدا نقد بیچے۔ کہا مالک نے جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کردیئے۔ جب مدت گزری تو مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) پر ان چیزوں کا تقاضا کیا لیکن بائع (بچنے والا) کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے اس وقت بائع (بچنے والا) نے کہا تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے تو مشتری (خریدنے والا) کو لینا درست ہے مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے دیر نہ کرے اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی معیاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے اگر قبل معیاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔
Yahya related to me from Malik from Yahya ibn Said that al-Qasim ibn Muhammad said, ”I heard Abdullah ibn Abbas say, when a man asked him about a man making an advance on some garments and then wanting to sell them back before taking possession of them, ‘That is silver for silver,’ and he disapproved of it.”
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1264 حدیث مقطوع
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّهُ قَالَ کَانَ الرِّبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَکُونَ لِلرَّجُلِ عَلَی الرَّجُلِ الْحَقُّ إِلَی أَجَلٍ فَإِذَا حَلَّ الْأَجَلُ قَالَ أَتَقْضِي أَمْ تُرْبِي فَإِنْ قَضَی أَخَذَ وَإِلَّا زَادَهُ فِي حَقِّهِ وَأَخَّرَ عَنْهُ فِي الْأَجَلِ
قَالَ مَالِك وَالْأَمْرُ الْمَكْرُوهُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الدَّيْنُ إِلَى أَجَلٍ فَيَضَعُ عَنْهُ الطَّالِبُ وَيُعَجِّلُهُ الْمَطْلُوبُ وَذَلِكَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤَخِّرُ دَيْنَهُ بَعْدَ مَحِلِّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَيَزِيدُهُ الْغَرِيمُ فِي حَقِّهِ قَالَ فَهَذَا الرِّبَا بِعَيْنِهِ لَا شَكَّ فِيهِ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ عَلَى الرَّجُلِ مِائَةُ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ فَإِذَا حَلَّتْ قَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ بِعْنِي سِلْعَةً يَكُونُ ثَمَنُهَا مِائَةَ دِينَارٍ نَقْدًا بِمِائَةٍ وَخَمْسِينَ إِلَى أَجَلٍ هَذَا بَيْعٌ لَا يَصْلُحُ وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ قَالَ مَالِك وَإِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ ثَمَنَ مَا بَاعَهُ بِعَيْنِهِ وَيُؤَخِّرُ عَنْهُ الْمِائَةَ الْأُولَى إِلَى الْأَجَلِ الَّذِي ذَكَرَ لَهُ آخِرَ مَرَّةٍ وَيَزْدَادُ عَلَيْهِ خَمْسِينَ دِينَارًا فِي تَأْخِيرِهِ عَنْهُ فَهَذَا مَكْرُوهٌ وَلَا يَصْلُحُ وَهُوَ أَيْضًا يُشْبِهُ حَدِيثَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي بَيْعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا حَلَّتْ دُيُونُهُمْ قَالُوا لِلَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ إِمَّا أَنْ تَقْضِيَ وَإِمَّا أَنْ تُرْبِيَ فَإِنْ قَضَى أَخَذُوا وَإِلَّا زَادُوهُمْ فِي حُقُوقِهِمْ وَزَادُوهُمْ فِي الْأَجَلِ
زید بن اسلم نے کہا کیا جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو جب میعاد گزر جائے تو قرضخواہ قرضدار سے کہے یا تم قرض ادا کرو یا سود دو اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے نہیں تو قرضخواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔ کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرضخواہ سے کہے تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں ڈیڑھ سو دینار کو بیع ڈال ایک میعاد پر یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اس لئے کہ قرضخواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کرلی اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی۔ بعوض پچاس دینار کے جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرضخواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 1272
بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ السَّلَفِ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ فِي رَجُلٍ أَسْلَفَ رَجُلًا طَعَامًا عَلَى أَنْ يُعْطِيَهُ إِيَّاهُ فِي بَلَدٍ آخَرَ فَكَرِهَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَقَالَ فَأَيْنَ الْحَمْلُ يَعْنِي حُمْلَانَهُ و حَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي أَسْلَفْتُ رَجُلًا سَلَفًا وَاشْتَرَطْتُ عَلَيْهِ أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَذَلِكَ الرِّبَا قَالَ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ السَّلَفُ عَلَى ثَلَاثَةِ وُجُوهٍ سَلَفٌ تُسْلِفُهُ تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ فَلَكَ وَجْهُ اللَّهِ وَسَلَفٌ تُسْلِفُهُ تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ صَاحِبِكَ فَلَكَ وَجْهُ صَاحِبِكَ وَسَلَفٌ تُسْلِفُهُ لِتَأْخُذَ خَبِيثًا بِطَيِّبٍ فَذَلِكَ الرِّبَا قَالَ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ أَرَى أَنْ تَشُقَّ الصَّحِيفَةَ فَإِنْ أَعْطَاكَ مِثْلَ الَّذِي أَسْلَفْتَهُ قَبِلْتَهُ وَإِنْ أَعْطَاكَ دُونَ الَّذِي أَسْلَفْتَهُ فَأَخَذْتَهُ أُجِرْتَ وَإِنْ أَعْطَاكَ أَفْضَلَ مِمَّا أَسْلَفْتَهُ طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ فَذَلِكَ شُكْرٌ شَكَرَهُ لَكَ وَلَكَ أَجْرُ مَا أَنْظَرْتَهُ
حضرت عمر بن خطابن سے کسی نے کہا جو شخص کسی کو اناج قرض دئیے اس شرط پر کہ فلانے شہر میں ادا کرنا انہوں نے اس کو مکروہ جانا اور کہا بار برداری کی اجرت کہاں جائے گی۔ ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شخص کو قرض دیا اور عمدہ اس سے ٹھہرایا عبداللہ بن عمر نے کہا یہ ربا ہے اس نے کہا پھر کیا حکم کرتے ہو عبداللہ بن عمر نے کہا قرض تین طور پر ہے ایک اللہ کے واسطے اس میں تو اللہ کی رضا مندی ہے ایک اپنے دوست کی خوشی کے لئے اس میں دوست کی رضا مندی ہے ایک قرض اس واسطے ہے کہ حلال مال دے کر حرام مال لے یہ سود ہے پھر وہ شخص بولا اب مجھ کو کیا حکم کرتے ہو ابوعبدالرحمن انہوں نے کہا میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تو دستاویز کو پھاڑ ڈال اگر وہ شخص جس کو تو نے قرض دیا ہے جیسا مال تو نے دیا ہے ویسا ہی دے تو لے لے اگر اس سے برا دے اور تو لے لے تو تجھے اجر ہوگا اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے اچھا دے تو اس نے تیرا شکریہ ادا کیا اور تو نے جو اتنے دنوں تک اس کو مہلت دی اس کا ثواب تجھے ملا۔
موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 128
بَاب مَا لَا يَجُوزُ فِي الْقِرَاضِ قَالَ مَالِك إِذَا كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَجُلٍ دَيْنٌ فَسَأَلَهُ أَنْ يُقِرَّهُ عِنْدَهُ قِرَاضًا إِنَّ ذَلِكَ يُكْرَهُ حَتَّى يَقْبِضَ مَالَهُ ثُمَّ يُقَارِضُهُ بَعْدُ أَوْ يُمْسِكُ وَإِنَّمَا ذَلِكَ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ أَعْسَرَ بِمَالِهِ فَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُؤَخِّرَ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَزِيدَهُ فِيهِ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَهَلَكَ بَعْضُهُ قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ ثُمَّ عَمِلَ فِيهِ فَرَبِحَ فَأَرَادَ أَنْ يَجْعَلَ رَأْسَ الْمَالِ بَقِيَّةَ الْمَالِ بَعْدَ الَّذِي هَلَكَ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ قَالَ مَالِك لَا يُقْبَلُ قَوْلُهُ وَيُجْبَرُ رَأْسُ الْمَالِ مِنْ رِبْحِهِ ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ عَلَى شَرْطِهِمَا مِنْ الْقِرَاضِ قَالَ مَالِك لَا يَصْلُحُ الْقِرَاضُ إِلَّا فِي الْعَيْنِ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْوَرِقِ وَلَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ مِنْ الْعُرُوضِ وَالسِّلَعِ وَمِنْ الْبُيُوعِ مَا يَجُوزُ إِذَا تَفَاوَتَ أَمْرُهُ وَتَفَاحَشَ رَدُّهُ فَأَمَّا الرِّبَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا الرَّدُّ أَبَدًا وَلَا يَجُوزُ مِنْهُ قَلِيلٌ وَلَا كَثِيرٌ وَلَا يَجُوزُ فِيهِ مَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهِ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
کہا مالک نے اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو پھر قرضدار یہ کہے قرضخواہ سے تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس تو یہ درست نہیں بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کرلے پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پردے یا اپنے پاس رکھ چوڑے کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کردینے میں ربا کا شبہ ہے گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔ کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہوگیا قبل تجارت شروع کرنے کے پھر مضا رب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کرکے نفع کمایا اب مضا رب یہ چاہے کہ رائس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ رائس المال کی تکمیل کرکے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کرلیں گے۔ کہا مالک نے مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ ان کا دشوار ہو تو جائز ہوجائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل وکثیر حرام ہے کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اگر تم توبہ کرو ربا سے تو تم کو اس مال ملے گا نہ ظلم کرو نہ ظلم کئے جاؤ۔
Malik said, “When a man owes money to another man and he asks him to let it stay with him as a quirad, that is disapproved of until the creditor receives his property. Then he can make it a qirad loan or keep it. That is because the debtor may be in a tight situation, and want to delay it to increase it for him.”