حافظ عاطف وحید
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیات کے بعد:
فیڈرل کورٹ کے ’’ربا‘‘کے خلاف حالیہ فیصلے کے پس منظر میں سابقہ تین عدالتی فیصلے اور ۲۰۱۳ ءسے جاری حالیہ عدالتی کارروائی کی ۵۸ سماعتوں کی طویل تاریخ کارفرما ہے۔ اس دوران کیا کیا بحثیں ہوئیں اور کیسی کیسی حجتیں اور دلیلیں پیش کی گئیں‘اسے کسی ایک موضوع کے تحت سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ اتنے متعدد اور متنوع ایشوز تھے کہ بہت عرصہ تک کورٹ کو بھی یہ نہیں سمجھ آرہا تھاکہ کون سا سِرا کہاں سے پکڑا جائے ۔پہلے چند اصولی باتیں ‘ اختصار کے ساتھ‘ تاکہ گفتگو کی بنیاد میسّر آجائے ۔
’’ربا‘‘ کی شناعت کے بارے میں قرآنِ حکیم کی چند آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ سورۃالبقرۃ میں فرمایا:{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ۚ }’’اے ایمان والو!اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور جوکچھ باقی رہ گیاہے ازقسم ربا اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیاتواللہ اور اُس کے رسول(ﷺ) کی طرف سے جنگ کااعلان سن لو!‘‘
یہ سخت ترین وعیدہے ۔ قرآن مجید نے شرک ‘جو عقیدہ کامعاملہ ہے‘ کے معاملے میں جواسلوبِ بیان اختیارکیاہےیہ ارشاد اُسی کے ہم پلہ ہے۔ سورۂ مریم میں ارشاد ہوتا ہے:{تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا(۹۱) اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا(۹۲)} (مریم)’’قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں‘ زمین شق ہو جائے اور پہاڑ دھماکے کے ساتھ گر پڑیں‘کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے اولاد قرار دی!‘‘تقریباًیہی اسلوبِ بیان ہے سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت میں کہ اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی طرف سے جنگ کااعلان سن لو!
یہ جنگ کیسے مسلط ہو اور کہاں سے وار پڑے‘کوئی نہیں جان سکتا۔ اللہ کے لشکروں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ اللہ چاہے توکسی ایک مچھرسے بھی بڑے مقتدر العنان بادشاہ کو ختم کردے اور جب چاہے آنِ واحد میں بغیر کسی بڑے لشکر کومسلط کیے مضبوط قوم کو غرق کردے۔ یہ کوئی ایسی وعید نہیں ہے جس کاکوئی سامنا یا مقابلہ کرسکے ۔سورۃالمائدۃ میں اہل کتاب کے بارے میں فرمایا:
{وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ۭ }(آیت ۶۶)’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اُس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا اُن پر اُن کے ربّ کی طرف سے تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘
اگر یہ تورات اور انجیل کو قائم کرتے ‘اس کے احکام کو قبول کرتے اور آپس کے معاملات میں تنازعات میں تصفیہ کے لیے اسے حوالہ بناتے توان پراللہ تعالیٰ کی رحمتیں نچھاور ہوتیں۔ اوپر سے بھی کھاتے‘زمین کے نیچے سے بھی کھاتے۔ یعنی ہرطرف سے زمین خزانے اُگل رہی ہوتی اور آسمان سے بھی ان کے ربّ کی نعمتوں کی بارش ہورہی ہوتی۔
سورۃالمائدہ میں ہی رسول اللہﷺ کو خطاب کرکے فرمایا:
{فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَل اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ ۭ}(آیت ۴۸)’’تو (اے نبیﷺ!) آپ فیصلہ کریں ان کے درمیان اس(قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور مت پیروی کریں ان کی خواہشات کی‘ اُس حق کو چھوڑکر جو آپؐکے پاس آ چکا ہے ۔‘‘
اور پھر آپ محتاط رہیے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ جواللہ کانازل کردہ ہے اس میں سے کسی سے یہ آپ کو بچلادیں ۔ان کی چالیں بہت بڑی ہیں ۔
شیطان کی چالیں متنوع بھی ہیں اور دلفریب بھی۔ اس موقع پرعلّامہ اقبال کا ایک شعر یاد آتاہے : ؎
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میںاگرچہ پیر ہے آدم‘ جواں ہیں لات و منات
یعنی آدم بوڑھا ہوگیا‘ بنی آدم پرپیرانہ سالی طاری ہوگئی‘ لیکن لات ومنات ابھی بہت جوان ہیں ‘وہ نت نئے رنگ اور بھیس میں انسان کے قلب و ذہن اور افعال و اعمال کو پراگندہ کرتے ہیں ۔سورۃ طٰہٰ میں فرمایا:
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا….} (آیت ۴۲)’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی….‘‘
جس نے بھی اعراض برتا میری یاد سے ‘میرے ذکر سے ‘میرے احکام سے تو اُس کے لیے بڑی تنگی والی معیشت ہوگی۔ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کے الفاظ میں صرف آخرت کی گزر بسر کا ذکر نہیں ـبلکہ دنیا کی گزربسر کاذکر بھی ہے ۔
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا….} (آیت ۴۲)’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی….‘‘
جس نے بھی اعراض برتا میری یاد سے ‘میرے ذکر سے ‘میرے احکام سے تو اُس کے لیے بڑی تنگی والی معیشت ہوگی۔ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کے الفاظ میں صرف آخرت کی گزر بسر کا ذکر نہیں ـبلکہ دنیا کی گزربسر کاذکر بھی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے دوفرامین آج کے دور کے حوالے سے بہت مطابق ِ حال ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:((یأتي زمانٌ علٰى أمتي يستحلون الربا باسم البيع، ويستحلون الزنا باسم النكاح، ويستحلون الخمر يسمونھا بغير اسمها، ويستحلون الرشوة بالهدية، ويستحلون القتل بالرهبة))’’لوگوں پرایک زمانہ آئے گاکہ وہ بیع کے نام پر ربا کو حلال کرلیں گے‘ نکاح کے نام پر زنا کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ خمر (شراب) کو حلال ٹھہرا لیں گے اورا س کے نام مختلف رکھ دیں گے۔ رشوت کو ہدیہ اور تحفہ قرار دے کرحلال کرلیں گے۔ اور قتل (جسےاللہ نے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے‘ جواکبرالکبائر ہے) کوبھی حلال ٹھہر ا لیں گے اور اسے ’’رھبہ ‘‘ (دہشت‘دہشت گردی اور خوف) کا نام دے دیں گے۔‘‘
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:((لَيأتينَّ على أمّتي زمانٌ لا يبقى أحدٌ إلا أكل الربا، فمن لم يأكلْه أصابه من غبارِه))
(المحدث:محمد جار الله الصعدي، المصدر:النوافح العطرة ، الرقم:۲۸۴،خلاصة حكم المحدث:حسن)
’’لوگوں پرایک ایسا وقت آکررہے گاکہ کوئی شخص نہیں بچے گامگریہ کہ وہ سود خوری میں ملوث ہوگا۔ پھر جو کوئی سود کھانے سے بچ بھی جائے گا اُسے سود کا غبار ضرور پہنچے گا۔‘‘
یہ صرف کوئی واقعاتی حقیقت ہی نہیں بتائی جارہی کہ ایسا ہوگا اور آدمی اسی ’’ہونی‘‘ کو اپنے لیے عذر بنالے کہ یہ توہوناہی ہے….بلکہ آپﷺ اس بات کی اس لیے نشاندہی فرمارہے ہیں تاکہ ہرشخص اس سے حددرجہ محتاط رہے۔ یہ وقت ایسا ہوگا کہ انسان کا اس سے بچنا آسان نہیں ہوگا۔
اسی طرح ایک اور فرمانِ نبوی ﷺ بھی ان تمہیدی سطور میں شامل کرلیجیے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (صحیح البخاری، کتاب الحدود)’’اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں سے کسی ایک حد کا قائم ہو جانا‘ اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘
عرب کے ریگزار کا نقشہ ذرا ذہن میں لائیے ۔ بارش نہ ہو اور زمین پیاسی ہو تو کچھ بھی نہیں اُگتا۔ لیکن اگر اللہ کی حدود میں سے کوئی ایک حد قائم ہو اور اس پرفیصلے ہوں تویہ چالیس راتوں کی بارش سے بہترہے۔ جس سے ہرطرف جل تھل ہوجائے اور ریگزار مرغزار بن جائیں گے۔ یہ اہمیت ہے حدود اللہ کے قیام کی ۔
اہل ِکتاب معاشروں میں سود کیسے رائج ہوا؟
آج سودکو جائز قرار دیے جانے کے حوالے سے طرح طرح کے عذر تراش لیے گئے ۔ ربا نت نئی صورتوں میں ظاہر ہورہا ہے۔اس بات کی وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ ربا جیسی بُرائی مسلم معاشروں میں کیسے جگہ بنا سکی۔ ایسا کب ہوااو رکیوں ہوا؟ اور مسلم دنیامیں یہ چیز کیسے رائج ہوئی؟
ایک دور وہ تھاکہ جب قرآن حکیم کی یہ آیت نازل ہوئی :
{فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَـیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کَثِیْرًا(۱۶۰) وَّاَخْذِھِمُ الرِّبٰوا وَقَدْنُھُوْا عَنْہُ وَاَکْلِھِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭ }(النساء:۱۶۱)’’توبسبب اُن یہودی بن جانے والوں کی ظالمانہ روش کے ہم نے اُن پر وہ پاکیزہ چیزیں بھی حرام کر دیں جو اصلاً اُن کے لیے حلال تھیں اور بسبب اس کے کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے (خود رُکتے ہیں اور دوسروں کو بھی) روکتے ہیں۔اور بسبب ان کے سود کھانے کے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔‘‘
اس آیت میں یہود کے چار جرائم کاتذکرہ ہے‘ان میں ایک یہ تھاکہ وہ ربا میں ملوث ہوتے تھے ‘اس کا لین دین کرتے تھے ‘حالانکہ ’’انہیں اس سے منع کیاگیاتھا‘‘۔ اس آیت کے نزول سے پہلے ربا کے حرام ہونے کی صورت کیا تھی ؟ اگر آپ آج بھی بائبل کی مختلف آیات(verses) کا مطالعہ کریں تومحسوس ہوتاہے کہ بائبل (Old and New Testament) میں سخت ترین الفاظ میں ربا کی ممانعت بیان ہوئی ہے ۔لیکن یہود نے اپنی مذہبی قیادت سے ایک راستہ نکلو الیاکہ صرف یہود ہی کامل انسان ہیں اور غیرِیہود کامل انسان نہیں ہیں ۔ جوکامل انسان نہیں ہیں وہ انسان نماحیوان ہیں ۔ ان کی جان ‘ان کامال اور عزّت و آبرو مباح ہے ‘ لہٰذا غیریہودی سے اگر کوئی یہودی سود لیتاہے تویہ گناہ نہیں ہے ۔ البتہ کسی یہودی سے اگر کوئی یہودی سود لے تویہ گناہ کی بات ہے ۔یہ بات اتنی مقبول ہوئی کہ اسی کو انہوں نے قانون کادرجہ دے دیا۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تنبیہات کی ہیں۔
ایک تودرجہ یہ تھا‘ لیکن پھر بعد میں عیسائی دنیا میں سود کوعام کرنے کے لیے انہیں بہت تگ ودو کرنی پڑی۔ اس لیے کہ عیسائیت میں سولہویں اور سترہویں صدی تک ہر پادر ی اور عام شخص یہی سمجھتاتھاکہ سود گناہ ہے اور بڑی تباہ کن شے ہے ۔ عیسائی دنیا کے بڑے بڑے فلاسفہ اور مشاہیر‘جن کے علم اور بصیرت(wisdom)پرلوگوں کواعتبار ہے اور آج بھی ان کو حوالہ مانا جاتاہے‘کی کوٹیشنز موجود ہیں۔ ان سب کا مشترکہ خیال ہے کہ سود ایک ہلاکت خیز سرطان (ناسور)ہے۔ چنانچہ یہودنے پہلی نقب اس طرح لگائی کہ سود کو دوحصوں میں منقسم کیا۔ ایک کانام Usury رکھااور دوسرے کاانٹرسٹ۔Usury کے بارے میں انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم ہے ‘استحصال ہے ‘اس سے منع کیاجائے ‘اس سے باز رہاجائے۔ لیکن انٹرسٹ توفقط opportunity cost of lending of moneyہے ۔آپ کسی کوپیسہ دیتے ہیں توآپ خود اس پیسے کی ملکیت سے محروم ہوگئے‘اگر آپ کے پاس ہوتا توآپ اس سے فائدہ اٹھاتے‘اسے کمانے کاذریعہ بناتے‘لیکن آپ نے اس اضافی کمائی کو forego کیاتواب آپ کاحق بنتاہے کہ آپ کو compensateکیاجائے۔یایہ کہہ لیں کہ use of fundکی ایک فیس ہے اور کچھ نہیںہے۔ اسی لیے انہوں نے آپس میں مشاورت کرکے اس بات کاچرچا کردیا کہ اگر یہ چارفیصد تک ہوتوکوئی ظلم نہیںہے ‘یہ توصرف ایک compensationہے جو قرض خواہ کوکی جارہی ہے تاکہ آپ کے ساتھ اس نے جواحسان کیاہے اس کا کچھ بدلہ ہوسکے۔ بہرحال اس طریقے سے دومختلف سود متعارف کیے گئے۔ایک exorbitant rateپرمبنی ‘ایسا سود جس میں’’اَضْعَافًا مُّضٰعَفَة‘‘ہورہاہے ‘ہزار روپیہ دے کردوہزار وصول کیے جارہے ہوں‘یہ usuryہے۔ لیکن وہ سود جوبہت ہی تھوڑے سے ریٹ کے ساتھ ہے‘انٹرسٹ ہے ۔ یہ وہ شے تھی جسے پھر قبولِ عام ہوا اور پوری عیسائی دنیا سود کی اباحت کی گرفت میں آگئی کہ یہ ایک مباح شے ہے‘یہ کمرشل انٹرسٹ ہے ‘ یہ وہ شے نہیںہے جسے اصل میں ہمارے صحیفوں میں منع کیاگیا ہے ۔
مسلم دنیا میں ربا کیسے داخل ہوا؟
آج تک مسلم دنیا میں اس بات پر کوئی شک وشبہ نہیں تھاکہ رباحرام ہے‘چاہے تھوڑا ہویا زیادہ ہو‘چاہے صرفی مقاصد کے لیے ہویا کمرشل مقاصد کے لیےہو‘چاہے وہ کسی غریب سے امیر کی طرف جارہاہویاامیرسے غریب کی طرف آرہا ہو‘ بہرصورت ربا حرام ہے۔ اس کے بارے میں مسلم دنیا میں کبھی دورائے نہیں رہی تھیں ۔ لیکن ہوا یہ کہ جب کمرشل انٹرسٹ کاچرچا مسلم دنیا میں ہوا‘بینکس قائم ہوئے تواس وقت سب سے پہلے حیدرآباد دکن کی ریاست کی طرف سے مصر کے ایک بہت معروف سکالر علّامہ رشیدرضا کی طرف ایک خط بھیجاگیا۔علامہ صاحب ایک بہت اعلیٰ تفسیرکے مصنف ہیں ‘محدث ہیں ‘فقیہہ ہیں ‘عربی زبان وادب کے بڑے ماہر ہیں ۔ جمال الدین افغانی ؒ کے متاثرین اور خوشہ چینوںمیں سے ہیں۔مفتی محمدعبدہ کے براہِ راست شاگرد ہیں ۔ ۱۹۳۰ء کے آس پاس ان کی طرف یہ استفسار روانہ کیاگیاکہ انٹرسٹ یعنی جوبنکوں کے ذریعے سے سود لیایادیاجاتاہے‘ یہ سود جائزہے یاناجائز ہے؟علّامہ رشید رضانے اپناجواب ارسال کیا اور بعد ازاں مجلہ ’’المنار‘‘میں شائع کیا۔یہ علمی مجلہ تھااور اس کابڑا شہرہ تھا۔بعدمیں اسی مضمون کو ۱۹۶۰ء کے آس پاس ’’الربا والمعاملات فی الاسلام ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیاگیاجوآج بھی موجودہے ‘اس کے تراجم بھی موجود ہیں ۔
وہاں سے یہ بات شروع ہوئی ہے۔ اس کے بعد مصر کے اور بہت سے سکالرز کی طرف بھی یہ بات منسوب ہے‘جن میں شیخ محمود طنطاوی ‘علّامہ شلطوت‘عبدالرزاق سنہوری جیسے نامور لوگ شامل ہیں۔پھربرصغیر میں اس کے ابتدائی مؤیدین میں سے بہت بڑے سکالرمولاناجعفر شاہ پھلواروی اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن تھے‘جواسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے بانیوں میں سے تھے ۔’’ اسلامک سٹڈیز ‘‘اور ’’فکرونظر ‘‘جیسے مجلات جاری کرنے والوں میں سے تھے ۔ان کی آراء بھی اس سے ملتی جلتی تھیں۔ اسی طرح بعد میں ایک اورشخصیت ‘ ادارہ ثقافت ِاسلامیہ والے ڈاکٹر رشید جالندھری‘جنہیں ۲۰۰۲ء کے ریمانڈ ججمنٹ کے وقت سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں قوم پر مسلط کیا گیا‘ان کی رائے بھی یہی تھی۔
ان آراءمیں تھوڑا تھوڑا فرق بھی ہے ۔علّامہ رشیدرضا کہتے تھے کہ دَین یاقرض کے معاملے میں جوپہلے مرحلے میں اضافہ ہوتاہے وہ اضافہ ربا نہیںہے‘البتہ مدّت مکمل ہونے کے بعد اگر مدّت میں بھی اضافہ ہواور واپس کرنے والی رقم میں بھی اضافہ ہوتویہ اضافہ ربا ہے۔۱۹۶۰ ءکی دہائی میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے ’’اسلامک سٹڈیز‘‘ میں مضمون لکھاتھاجس میں انہوں نے اس بات کویوں بیان کیاکہ اصل میں قرض کے دومختلف مقاصد ہوتے ہیں: تجارتی قرضے (commerical loans)اور صرفی قرضے(consumptive loans)۔یہ دوالگ چیزیں ہیں ۔ کمرشل لونز پراضافہ ربا نہیںہے‘وہ کمرشل انٹرسٹ ہے‘ البتہ صرفی قرضوں پر اضافہ ربا ہوگا۔ گویااس طریقے سے رفتہ رفتہ مسلم دنیا میں شرح کی بنیاد پراوراستعمال کی بنیادپرربااور سود میں فرق ڈالاگیا۔یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا میں اسے ربایاانٹرسٹ کے بجائے ’’فائدہ‘‘ کہتے ہیں ۔فوائد البنوک یعنی بینک انٹرسٹ۔یہ نام جب بدل جاتاہے تواس کا احساس بھی بدل جاتاہے۔ آپ کسی بینکر کے پاس جاکر پوچھیںکہ اتنی رقم کے اوپر مجھے کتناسود ملے گا؟تووہ ایک دفعہ ہل جائے گا۔ لیکن آپ اس سے جاکرپوچھئے کہ مجھے کتنامنافع ملے گا؟تواس کے احساسات مختلف ہوں گے ۔یہ احساسات بالآخر یوں ہی بدلے ۔
شبہات کے ازالے کی تاریخ اور عدالتی فیصلے
بہرحال مسلم دنیا کے اندر یہ نقب تھی جوسود خور وں نے لگائی اوراس کاشکار کچھ افراد ہوئے۔ یہ گنتی کے چند نام ہیںاور ا س کے مقابل میں پورا ایک تراثِ علمی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پر بھی کوئی اجتماعی(collective) رائے بنائی گئی یاکوئی ادارتی سطح پر ریسرچ ہوئی یا اجتہاد ہوا توہرادارے میں یہی بات مسلّمہ طور پر طے ہوئی کہ سود ‘سود ہی ہے‘چاہے وہ جس مقصد سے لیاگیاہو۔کمرشل ہو‘صرفی ہو‘تھوڑا ہو‘زیادہ ہو‘ سمپل ہویاکمپائونڈ ہو‘ ربا‘رباہی ہے اور اس میں اصل زر پر جو اضافہ ہوگا وہ ربا ہے ۔ اس بارے میں انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی بھی یہی کہہ رہی ہے ۔ جب مشرقی اور مغربی پاکستان کی تفریق نہیں ہوئی تھی اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک اجلاس ڈھاکہ میں ہوا تھا‘ان کے سامنے یہ استفسار پیش کیا گیا۔ اجلاس میں اس پربحثیں ہوئیں‘جن کے نتیجے میں ۱۹۶۹ء میں انہوںنے ریزولوشن پاس کیا جس میں یہی طے ہواکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شرح زیادہ ہے یا کم ہے‘اگر اصل زر میں اضافہ ہوگاوہ بہر صورت رباہوگا۔ یہ کوئی انفرادی تحقیقی عمل نہیں تھا بلکہ collective effort تھی ۔لیکن اس کے بعد کیاہوا؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا قائد اعظم کی ۱۹۴۸ ءکی تقریر کی روشنی میں نظامِ معیشت کو سود وغیرہ سے پاک کر کے بہبودِ عامہ کے اسلامی اصولوں سے آراستہ‘استحصال سے پاک ایک مثالی فلاحی ریاست کی تشکیل کی جاتی‘ لیکن شومی ٔقسمت کہ ایسا نہ ہو سکا۔اس کے بجائے پھریہ بات عدالتوں کے درمیان چلتی رہی ۔ دومرتبہ فیڈرل شریعت کورٹ اور دومرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں۔چنانچہ سب سے پہلے فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۹۹۱ء میں فیصلہ دیااور تمام کمرشل انٹرسٹ کوربا اور حرام قرار دیا ۔ یہ فیصلہ پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء میں چھپا۔ جب ایسا فیصلہ آجاتاہے توپھر مقتدر حلقوں میںاس فیصلے سے بچنے کے لیے راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔اس لیے کہ وہاں نیت نہیں ہے ‘ارادہ اور عزم نہیں ہے ۔چنانچہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل میں جانے میں عافیت نظر آئی۔لیکن پہلے توبہت عرصہ تک وہ اپیل سماعت کے لیے لگی ہی نہیں ‘سماعت ہوئی نہیں ۔ ۱۹۹۹ء میں سماعت ہوئی جوچھ مہینے جاری رہی ۔ مَیں خود وہاں حاضر ہوتارہاہوں اور مَیں نے مرحلہ وار اللہ تعالیٰ کی مدد اُترتے دیکھی ہے‘ خاص طور سے جسٹس وجیہہ الدین صاحب کی شکل میں ۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج کے طور پران کا ایک فیصلہ ایسا تھاکہ ایوانِ اقتدار نے یہ سمجھاتھاکہ شاید یہ بینک انٹرسٹ کے حق میں فیصلہ دے دیں گے‘لیکن ۱۹۹۹ءمیں جو فیصلہ انہوں نے لکھا ‘وہ سب سے سخت تھا۔ شریعت اپیلیٹ بینچ نے متفقہ طور پر وفاقی شرعی عدالت کے پہلے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اس پر ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی کہ اب کیا کِیا جائے؟
اب سپریم کورٹ میں دودرخواستیں داخل کی گئیں۔ ایک یہ تھی کہ سودی قوانین کی تنسیخ کے لیے اس کورٹ نے جو مدّت مقرر کی ہے اس میں توسیع دی جائے اور د وسری ریویو کی درخواست تھی کہ یہ فیصلہ بوجوہ غلط ہے‘ اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے ۔دوسال کی توسیع مانگی گئی تھی۔ کورٹ نے انتہائی ’’مؤمنانہ‘‘ بیانات کا اظہار کرتے ہوئے ایک سال کی توسیع دی ۔ لیکن درپردہ بدنیتی یہ کی کہ ریویوکی پٹیشن نمٹا کر خارج نہیں کی گئی‘ حالانکہ یہ دونوں معاملات بالکل متضاد ہیں ۔ ایک طرف آپ وقت میں اضافہ مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہے ۔چنانچہ ایک سال بعد وہ ریویو پٹیشن پھر سراُٹھاکرکھڑی ہوگئی ۔ اس کے بعد علماء ججز کی نشستوں پر ایسے ججز کولایاگیا جو اپنی مثال آپ تھے۔ایک کانام مَیں نے ذکر کردیا ہے۔ دوسرے ہیں علّامہ خالد محمود صاحب‘جنہیں اس طرح کے کاموں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا‘ صرف ختم نبوت کی شہرت کے ایک آدمی ہیں ۔ نہ فقہ سے تعلق اور نہ فتویٰ سے۔کچھ بھی نہیں تھا ۔ چنانچہ۲۰۰۲ ءمیں اس بینچ سے وہ فیصلہ لے لیاگیاجس کے بعد اس قوم کے مزید کتنے ہی سال ضائع ہوئے‘ سود کا حجم بڑھ کر ناقابلِ برداشت ہوگیا اور حقیقت میں کتنا بڑے وبال کا بوجھ تھا جو اس بینچ نے اپنے سرلے لیاکہ اب لمحہ ٔ موجودہ میں سود سے اور سودی قرضوں سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔ اگر اُسی وقت ۱۹۹۹ ءکے فیصلے کو قبول کر لیا جاتا تو آج معیشت کی صورتِ حال یکسر مختلف ہوتی۔
۲۰۰۲ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے یہ متنازعہ فیصلہ واپس فیڈرل شریعت کورٹ کی طرف ریمانڈ کیا‘لیکن گیارہ برس تک اسے سماعت کے لیے نہیں لگایا گیا۔۲۰۱۲ء میں تنظیم اسلامی کی طرف سے درخواست دی گئی کہ سماعت کے لیے طاقِ نسیان میں ایک اہم کیس پڑا ہوا ہے‘اسے لگائیں ۔ لیکن یہ کہہ درخواست رد کردی گئی کہ آپ اوریجنل کیس میں پارٹی نہیں تھے‘اس لیے درخواست قابل ِاعتناء نہیں ہے ۔پھر۲۰۱۳ء میں ایک اور آئینی پٹیشن دائر کی گئی‘ جو قبول ہوئی اور بعد ازاں کچھ اور پٹیشنرز بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے۔تب سے یہ کیس وفاقی شرعی عدالت میں چل رہاتھاجس کافیصلہ اب اپریل۲۰۲۲ء میں آیاہے ۔اور بحمد ِاللہ ربا اور انٹرسٹ کے حوالے سے جتنے اشکالات و اعتراضات پیش کیے گئے تھے‘اس فیصلے میں بارِ دگر ان سب کو ختم کردیاگیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کا ریمانڈ ججمنٹ توتھاہی بدنیتی پرمبنی۔ جسٹس وجیہہ الدین صاحب کے مطابق کانوں کو ہاتھ لگانے کی بات ہے کہ کس طریقے سے ۲۰۰۲ ءکے فیصلے کے ذریعے انصاف کاخون کیاگیا تھا۔اتناکمزور فیصلہ تھا جس کی آڑ میں قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ کیا گیا۔
وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ: جائزہ اور چیلنجز
موجودہ فیصلہ ۳۱۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔ چونکہ مَیں خود اس کا پٹیشنر رہاہوں ‘ اس لیے اس مقدّمے کی ۵۸ سماعتوں کے جملہ مراحل میرے سامنے ہیں۔ان سماعتوں کے دوران کئی بینچ بدلے گئے ‘کیونکہ جج ریٹائر ہوجاتے تھے ‘اور جب چیف صاحب ریٹائر ہوتے تھے اور نیا بینچ بنتا تو نئے سرے سے سماعت کاآغاز ہوجاتا تھا۔آخری بینچ تین فاضل ججز پر مشتمل تھاجنہوں نے یہ فیصلہ لکھاہے ۔ان میں ڈاکٹر انور شاہ صاحب‘جسٹس محمدنورمسکنزئی صاحب(بینچ چیف)اور جسٹس خادم حسین شاہ صاحب شامل ہیں۔ اس بینچ نے فیصلہ جاری کرنے سے قبل تقریباً ۳۳سماعتیں کیں۔
فیصلے کے ابتدائی ۴۸ صفحات میں پٹیشنز اورپٹیشنرز کاپورا خلاصہ اور تعارف دیا گیا ہے ۔
صفحہ۴۸ سے لے کر صفحہ۷۳ تک ۱۹۹۱ء کا اصل فیصلہ‘ ۱۹۹۹ءکاسپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کا فیصلہ اور پھر ۲۰۰۲ء میں شریعت اپیلیٹ بینچ کا ریویو میں فیصلہ جوریمانڈ ججمنٹ بنا‘ان تینوںکے اوپر ایک خلاصہ اور سمری کے انداز میں بحث ہے ۔
صفحہ۷۴سے لے صفحہ کر۲۶۰ تک اب جو سماعت ہوئی ہے‘کورٹ نے اس کے قابل تصفیہ معاملات کی وضاحت کی ہے کہ یہ ہیں وہ امور جن کے اوپر ہم نے غوروفکر کیا۔اس لیے کہ ہرقسم کی انٹ شنٹ کوہم نہیں دیکھ سکتے‘ صرف جومتعلقہ پوائنٹس ہیں جن کے اوپر گفتگو کی ضرورت ہے یاریمانڈ ججمنٹ میں جنہیں اہمیت کے ساتھ بطور اعتراض اٹھایاگیاان پر بحث ہے ۔یہ تقریباً ۱۲‘۱۳ نکات ہیں جن کی انہوں نے اس فیصلے میں سماعت کی ہے اور ان کے حق اور مخالفت میں دلائل کو شرح و بسط کے ساتھ سنا ہے اور انہیں اس فیصلے میں بیان کیاہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ بہت عرصہ تک عدالت کے ہاتھ کوئی سِرا نہیں آرہا تھاکہ بحث شروع کہاںسے کریں اورختم کہاں سے ہو۔ انہوں نے جوقابل تصفیہ امور بیان کیے‘وہ مَیں عرض کیےدیتا ہوں تاکہ معلوم ہوجائے کہ سماعتوں میں ہوتا کیارہا ہے :
سوال:کیافیڈرل شریعت کورٹ کادائرہ اختیار ہے یانہیںہے کہ یہ کیس سن سکے؟
جماعت ِاسلامی کے وکیل جناب قیصرامام صاحب نے بہت قیمتی دلائل دیے‘لیکن مَیں سمجھتاہو ں کہ سابق اٹارنی جنرل جناب انورمنصور صاحب اور ممتاز قانون دان جناب بابر اعوان صاحب کے دلائل سے عدالت کو یکسوئی نصیب ہوئی کہ اس معاملے کا تصفیہ شرعی عدالت ہی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔اور یہ جوابہام اور اشکال پیدا کیا جارہاہے کہ یہ آئینی مسئلہ ہے او رآئین فیڈرل شریعت کورٹ کی jurisdictionسے باہر ہے‘ یہ تمام باتیں قطعاً بے بنیاد ہیں ۔
سوال:قرآن وسُنّت کی روشنی میں رباکی تعریف کیاہے؟ (صفحہ ۱۰۵سے ۱۴۵)
یہ وہ ایشوزہیں جوعیسائی دنیااور مسلم دنیا میں ایک بڑی سازش کے تحت اُٹھائے گئے اورالحمدللہ ‘اب اس فیصلے سے ان کاایسا جواب آگیا ہے کہ اس کے بعد اب کوئی بات مبہم رہ نہیں گئی۔ فیصلے سے اس امر کی وضاحت بھی ہوگئی ہے کہ ربا صرف کمپائونڈ انٹرسٹ ہے یا سمپل انٹرسٹ بھی ربا ہے؟
سوال:کیاشرح سود کے کم ہونے یازیادہ ہونے سے حکم بدل جاتاہے؟اگر کم ہوتو کیا یہ ظلم نہیں ہوگا اور زیادہ ہوتوظلم ہوگا‘ کیاحکم بدل جائے گا؟
سوال:صرفی مقاصد کے لیے لیے گئے قرضوں اور کمرشل مقاصد کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں سے کیا حکم بدل جاتا ہے؟ یعنی نوعیت کے بدلنے سے کیاحکم بدل جائے گا؟
سوال:کیاموجودہ اسلامک بینکنگ قابل عمل ہے؟ اس لیے کہ ایک بہت بڑا اشکال جوپیش کیاگیاوہ یہ تھا کہ یہ نظام پریکٹیکل نہیںہے ‘اسی لیے اس کاشیئر بہت تھوڑا ہے ۔ نہ آپ کو اندرونِ ملک سے قرضہ ملے گا‘نہ باہر سے ملے گا۔سود کو حرام قرار دے کر تباہی آئے گی ‘آسمان گر پڑے گا‘بیوائیں اور پینشنرز رُل جائیں گے۔
سوال:کیااسلامک بینکنگ کوئی حیلہ ہے یاحیلوں سے پاک ہے ؟اس ایشو پر بھی سیر حاصل بحثیں ہوئیں۔
سوال: اسلامی مالیات کے فروغ کے لیے سٹیٹ بینک اور حکومت نے منسٹری آف فنانس کے ذریعے اب تک کیاکیااقدامات کیے ہیں ؟
سوال:مسلم دنیا اور پوری دنیا میں اسلامی مالیات کااس وقت سٹیٹس کیاہے ؟یہ بھی ایک مسئلہ اُٹھایاگیا تھاکہ انسدادِ سودصرف پاکستان میں ہی ایک ایشو ہے‘ ورنہ دنیا بھر میں ایسا کوئی مسئلہ نہیںہے جسے آپ بطور مثال پیش کرسکیں۔ یہاں کچھ جذباتی لوگ بلا وجہ اس ایشو کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
سوال:اگر کوئی لین دین قرض کے بجائے کاروبار کے عنوان کے تحت کیاجائے توکیاربا حلال ہوجائے گا؟
سوال:کیاافراطِ زر کی وجہ سے indexationکاطریقہ اختیار کیاجاسکتا ہے تاکہ کرنسی کی قدر میں تغیّر کی وجہ سے قرض اوردَین کی قدر کو دو مختلف اوقات میں برابر کیاجاسکے ؟ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے‘اس پر بھی کورٹ نے بحث توکی ہے لیکن فیصلے کے اندر اس بارے میں مزید وضاحتوں کی ابھی کچھ گنجائش نظرآتی ہے ۔
سوال:کیابینک کے قرضوں پرلیا/دیاانٹرسٹ ربا کے زمرے میں آتاہے یانہیں؟اگرچہ definitionکی سطح پر پہلے بحثیں ہوچکی ہیں‘لیکن متعین طور پر اس بینک انٹرسٹ اور کمرشل انٹرسٹ کے بارے میں بھی ایک اشکال تھاجس پربحثیں ہوئیں۔
سوال:پاکستان کے پہلے سے لیے گئے قرضوں پرسود دیناپڑے گا یا نہیں دیناپڑے گااور پھریہ کہ آئندہ کے لیے اگر قرضوں کاحصول کرناپڑا تووہ کس بنیاد پر ممکن ہوسکے گا؟ اس مسئلے کو بھی اہتمام کے ساتھ بحث میں لایا گیا۔
آخری سوال:کیافیڈرل شریعت کورٹ کوچاہیے کہ حکومت کو سودی نظامِ مالیات کوختم کرنے کے لیے کوئی مخصوص مدّت دے ؟اورا گر دے توکتناوقت مناسب ہوگا؟
ان بحثوں کے بعد فیصلے میں اُن قوانین اور پروویژن آف لاز کی لسٹ دی گئی ہے کہ جوچیلنج ہوئے ہیں ۔ یہ لسٹ اس حالیہ فیصلے کا اسکوپ متعین کرتی ہے۔ ہم نے بھی کچھ سودی قوانین کوچیلنج کیاتھاجن میں سے بعض وہ تھے جوپہلے سے ریپیل ہوچکے اور بعض وہ ہیں جوابھی بھی چل رہے ہیں ۔بیشتر قوانین انگریز دور کے ہیں جو اب تک چلے آرہے ہیں۔
اس کے بعد صفحہ ۲۸۶سے۲۹۷ تک بحثوں کے نتائج ہیں اورفیصلے کی شقیں ہیں جو اس دستاویز کا اہم ترین جزو ہے۔ شق نمبر۱۵۲سے لے کر ۱۶۳تک تمام شقیں پڑھنے کے قابل ہیں‘لیکن بوجہ اختصار چند ایک کا ذکر مفید رہے گا۔
پیرا نمبر ۱۵۵ میں صراحتاً کہا گیا ہے کہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد استحصال اور قیاس آرائیوں سے مبراایک منصفانہ معاشی نظام کا قیام ہے۔اسلامی معاشی نظام مساویانہ‘ منصفانہ‘ اثاثوں اور نفع و نقصان میں شراکت پر مبنی معاشی نظام ہے۔ یہ نظام معاشرے میں دولت کی گردش کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دولت کے صرف چند ہاتھوں میں اضافے کی سختی سے حوصلہ شکنی کرتا ہے۔اسلامی اقتصادیات اور مالیات کا نظام حقیقی معاشی سرگرمیوں پر مبنی ہے۔اس نظام میں ربا (سود)‘ غرر (غیر یقینی صورتِ حال)‘ قمار (جوا) اور میسر(بن کمائی آمدنی) وغیرہ احکاماتِ قرآنی اور سُنّت ِرسولﷺ کے مطابق مکمل ممنوع ہیں۔ سود کی ممانعت اسلامی معاشی نظام کا سنگ بنیاد ہے‘ لہٰذا ہم نے (دلائل کی روشنی میں) یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر وہ قرض جس پر (مقروض)سے اصل زر پر کوئی اضافی رقم وصول کی جائے‘جو خواہ معمولی درجے کی ہی کیوں نہ ہو‘ وہ ربا (سود) کے زمرے میں آئے گی اور اسی بنا پر وہ ممنوع ہے۔ مزید برآں‘ سود کی تمام موجودہ شکلیں ‘ خواہ وہ بینکاری کی سطح پر یا نجی لین دین سے متعلق ہوں‘ وہ سب سود ہی کے زمرے میں ہیں۔
پیرا نمبر ۱۵۶ کے مطابق ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ قرآن و سُنّت اور اسلامی احکام کی رو سے سود اپنی تمام اشکال اور مظاہر میں مکمل طور پر ممنوع ہے۔ لہٰذا ان تمام تفصیلی وجوہات کی بنا پر جو یہاں اس فیصلے سے پہلے زیر ِبحث آ چکی ہیں‘ کسی بھی طریقے سے ادھار یا قرض کے طور پر دی گئی اصل رقم پر کسی بھی اضافی رقم کی وصولی سود ہے اور وہ قرآن اور سُنّت ِنبویﷺ کے مطابق مکمل طور پر ممنوع ہے۔
لہٰذا پیرا نمبر ۱۵۷ کی رُو سے اس فیصلے میں پہلے سے درج شدہ وجوہات کی بنا پر ہم نے مزید یہ فیصلہ کیا ہے کہ:
بینکاری سود (interest) اپنی ہر مشکل میں ربا (سود) ہے۔ اس طرح سود کی مکمل اور مطلق ممانعت تبدیل نہیں ہوتی:
(الف)قرض لینے کے مقصد میں تبدیلی سے ‘ خواہ قرض تجارتی‘پیداواری یا صنعتی‘ وغیرہ جیسے مقاصد کے لیے یا ذاتی ضروریات کے لیے : یا
(ب)اُس فیصد میں کسی بھی تبدیلی کے ساتھ جس فیصد پر قرض پر سود لیا جاتا ہے‘ خواہ کم ہو یا زیادہ! اور
(ج)قرض پر سود کی رقم شمار کرنے کے طریقہ کار میں کسی بھی تبدیلی سے‘ خواہ وہ سادہ سود کے زمرے میں آئے یا دو گنا سود یا پھر قرض پر کئی گنا سود۔
(ii)ایک ہی جیسی قسم اور قدر رکھنے والے روپے پیسے کے لیے‘ جہاں دونوں طرف مقدار مساوی نہ ہو‘ پیسے کا کوئی بھی لین دین‘خواہ وہ ادائیگی موقع پر ہویا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر‘ ہر دو صورتوں میں یہ ربا (سود) ہے۔
(iii)دو مختلف قابل وزن یا قابل پیمائش اشیاء کا باہمی لین دین جہاں دونوں جانب مقدار برابر نہ
ہو‘ یا جہاں ایک طرف سے ترسیل مؤخر ہو‘ سود ہے۔
(iv)دو مختلف قابل وزن یا قابل پیمائش اشیاء کے لین دین کا تبادلہ جہاں ایک طرف سے ترسیل مؤخر ہو‘ سود ہے۔
(v)قرض لینے والے یا قرض دینے والے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی سود کی مطلق ممانعت کو متأثر نہیں کرتی۔ سود ہر حالت میں بالکل ممنوع ہی ہے‘ قطع نظر اس حقیقت کے کہ اسے جو بھی نام دیا جائے۔
پیرا نمبر ۱۵۸ میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملکی یا غیر ملکی ذرائع سے حاصل کردہ سرکاری قرضوں میں طے کردہ کوئی بھی interest سود ہے اور وہ واضح طور پر قرآن و سُنّت کی رو سے ممنوع ہے۔ لہٰذا مستقبل کے لیے حکومت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ ملکی یا غیر ملکی ذرائع سے قرض لیتے وقت شریعت سے مطابقت رکھنے والے طریقے اختیار کیے جائیں۔
پیرا نمبر ۱۵۹ کے مطابق یہ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اسلامی احکام اور قرآن و سُنّت میں بیان کردہ اصول و ضوابط کے منافی ہونے کے باعث وہ تمام قوانین یا دفعات‘ جو ہمارے سامنے زیر ِسماعت ہیں‘ جن میں لفظ سود‘بینکاری سود کے معنوں میں ’interest‘ (سود) مذکور ہے‘ ممنوع ہیںاور اگر تاخیر سے ادائیگی کی وجہ سے اضافی رقم کی ادائیگی واجب الادا ہو چکی ہو تو اصل رقم کے اوپر سود کے طو رپر جو شمار کیا جاتا ہے تو ایسی اضافی رقم بھی سودکے زمرے میں آتی ہے‘ اس لیے ممنوع ہے۔
سُود کی تمام مروّجہ شکلیں خواہ وہ بینکاری لین دین میں ہوں یا نجی لین دین میں‘ سود ہی کی تعریف میں آتی ہیں۔ لہٰذا حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ لفظ ’interest‘ یعنی ’سود‘ جہاں کہیں بھی کسی ناپاک قانون میں درج ہو اسے حذف کر دیا جائے‘ جیسا کہ ہم پہلے ہی ہر چیلنج شدہ قانون کی جانچ پڑتال کر کے اسے زیر بحث لانے کے بعد فیصلہ دے چکے ہیں۔
پیرا نمبر ۱۶۰ مزید وضاحت کرتا ہے کہ لفظ ’interest‘ جس بھی قانون میں بینکاری سود یا کسی بھی معنی مثلاً تاخیر کی وجہ سے واجب الادا ادائیگی پر اضافہ وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے‘ ربا(سود) ہے اور اسی لیے اس لفظ کو حذف کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
حالیہ فیصلے میں بیان کردہ ربا کی مذکورہ بالا وضاحت سے رباکی وہ تمام شکلیں ممنوع و منسوخ قرار دی جاچکی ہیں جو سودی نظام کی بنیادی تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ ان میں رباالنسیئہ‘جورباالقرآن بھی کہلاتاہے‘ کی تمام ممکنہ شکلیں بیان ہوگئیں۔ اسی طرح رباالفضل‘جسے ربا السنہ بھی کہا جاتا ہے‘کوبھی پہلے سے زیادہ صراحت کے ساتھ ممنوع و منسوخ قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کی جانب سے یہ صراحت اوروضاحت آنے کے بعد اب یہ بحث ہردور کے لیے ختم ہوچکی کہ یہ جوماڈرن کمرشل انٹرسٹ ہے یہ ربا ہے یا نہیں ہے ۔اور جوساتویں صدی عیسوی کا ربا تھا اس میں اورموجودہ اکیسویں صدی کے کمرشل انٹرسٹ میں کوئی فرق ہے یا نہیںہے ۔
آخر میں ‘مَیں عرض کردیتاہوں کہ کیاکچھ کیاجاناہے‘کیاآگے کے چیلنجز ہیں۔ یہ نعمت ِ ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مرتبہ پھراس فیصلے کے ذریعے عطا کی ہے‘اس کی کیسے قدر کی جائے اور کون سے اقدامات اب ضروری ہوں گے ۔
اس ضمن میں مَیں تین امور کی جانب توجّہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں جو اس عدالتی کیس کے اسکوپ سے باہر ہونے کی وجہ سے کورٹ کے فیصلے میں مناسب طور سے ایڈریس نہیں ہو سکے۔ سب سے پہلا معاملہ فوریکس ٹریڈ اورMoney Market کے امور میں ربا کی آمیزش کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے ربا کے عمومی احکام کے علاوہ ’’احکام الصرف‘‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنسی کے تبادلے میں مستقبل کے سودوں کی موجودہ شکلوں اور اس کے لیے ملکی قوانین میں دی گئیprovisions کا قرآن و سُنّت کی روشنی میں جائزہ از حد ضروری ہے۔ دوسرا معاملہ قیمتوں کی اشاریہ بندی (indexation)سے متعلق ہے۔ حالیہ فیصلے میں عدالت نے بوجوہ اس ایشو پر حتمی پوزیشن لینے سے گریز کیا ہے۔ اس کا جائزہ لیے بغیر طویل مدّتی مالی معاہدات میں افراطِ زر کے اثرات پر قرآن وسُنّت کی رہنمائی میں compensation کا طریقہ واضح نہیں ہوسکتا۔
تیسرا اور اہم ترین معاملہ اسلامی بینکاری کے موجودہ طریقوں اور آلاتِ تمویل کا ہے۔ حالیہ فیصلے میں پیرا نمبر۹۰اور ۹۱ میں کہاگیا ہے کہ غیر سودی بینکاری قابل عمل بھی ہے اور ایک حقیقت بھی ہے۔ دورانِ سماعت اسلامی بینکاری کے حوالے سے عدمِ اعتماد کا اظہار ہوا اور ان میں غیر شرعی حیلوں کی آمیزش کی طرف توجّہ دلائی گئی‘لیکن چونکہ کسی نے ان کے متعلقہ آلات تمویل یا قوانین کو باضابطہ چیلنج نہیں کیااور اس سے متعلقہ کوئی پروویژن آف لاء کے خلاف کوئی باضابطہ پٹیشن دائر شدہ نہیں ہے۔اس لیے ہم نے اس معاملے کو کھلارکھاہے۔ تواب ہم موقع دیتے ہیںکہ جس نے ان کوچیلنج کرناہے وہ نئی پٹیشن دائر کرسکتا ہےاور اسلامی بینکنگ میں جوحیلے اور غیرشرعی طریقے در آئے ہیں ان کوسامنے لائیں تاکہ ہم سود کیdefinitions کی روشنی میں یہ متعین کرسکیں کہ اس میں ہونے والے کا م کس حدتک اسلامی ہیں اور مقاصد شرعیہ کو پورا کرتے ہیں یانہیں کرتے۔
مَیں سمجھتاہوں کہ یہ بھی ایک کام ہے ان لوگوں کے لیے کہ جو اسلامائیزیشن آف اکانومی کے سلسلے میں کوئی حقیقی پیش رفت کرناچاہتے ہیں (خاص طور پر وہ حضرات جو آئے دن’’اسلامی بینکاری‘‘کے ’’اسلامی‘‘ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں‘لیکن کسی ٹھوس تجویز کے ساتھ سامنے بھی نہیں آتے)کہ وہ ان طریقوں کو ہائی لائٹ کریں‘ ان قوانین کوچیلنج کریں کہ جن کے اند رابھی شرعی اعتبار سے اشکالات نظر آرہے ہیں۔ اس کام کے لیے البتہ ضروری ہوگا کہ جو فیصلہ آچکا ہے اس پر اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کا آغاز کیا جائے اور قانونی و عملی رکاوٹوں کو پورے عزم و ارادے سے دور کرنے کی سعی کی جائے۔بصورتِ دیگر نہ یہ فیصلہ مؤثر العمل ہو سکے گا اور نہ ہی مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بنیادی فلاحی مقاصد کی طرف کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
(پیش نظر اداریہ حافظ عاطف وحید صاحب کے اُس خطاب سے ماخوذ ہے جو انہوں نے ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو قرآن آڈیٹوریم میں ’’وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلہ اور اس پر عمل درآمد‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے فرمایا۔)