سوال:(۱) مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھر فاجرین میں بائع خمر، آکل ربوٰ، وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
(۲) کاسب حرام سے روپیہ قرض لے کر اس سے تجارت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
(۳)کاسب حرام کے ہاں نوکر رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:(۱) تجارت اگر بجائے خود حلال نوعیت کی ہو، اور جائز طریقوں سے کی جائے تو اس میں کسی پرہیز گار آدمی کی شرکت محض اس وجہ سے نا جائز نہیں ہوسکتی کہ دوسرے شرکاء اپنا مال حرام ذرائع سے کما کر لائے ہیں۔آپ کا اپنا سرمایہ اگر حلال ہے، اور کاروبارحلال طریقوں سے کیا جارہا ہے، تو جو منافع آپ کو اپنے سرمایہ پر ملے گا، وہ آپ کے لیے حلال ہوگا۔
(۲)کاسب حرام سے قرض لے کر کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے پاس روپیہ حرام کا سہی۔ آپ کو تو وہ حلال راستہ سے پہنچ رہا ہے۔
(۳) کاسب حرام کی دو نوعیتیں ہیں۔ ایک وہ جس کا پیشہ فحشاء کی تعریف میں آتا ہے، مثلاً زنان بازاری کا کسب۔ اس کے قریب جانا بھی جائز نہیں، کجا کہ اس کے ہاں نوکر ہونا۔دوسرا وہ کاسب حرام سے جس کا پیشہ حرام تو ہے، مگر فحشاء کی تعریف میں نہیں آتا جیسے وکیل یا سودی ذرائع سے کمانے والا۔ اس کے کسی ایسے کام میں نوکری کرنا جس میں آدمی کو خود بھی حرام کام کرنے پڑتے ہوں، مثلاً اس کی روٹی پکا دینا اس کے ہاں سائیس یا ڈرائیور کا کام کرنا، یا اس کا مکان بنانے کی مزدوری، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رہا اس کے ہاں کھانا کھانا، تو اس سے پرہیز ہی اولیٰ ہے۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر ۶۳ھ جنوری، فروری۴۴ء)