اب ہمیں ایک نظریہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جن مما لک میں وسیع المشرب جمہوریت کی جڑیں مضبوط تھیں۔انھوں نے نظام سرمایہ داری کو اس کی اصل بنیادوں پر قائم رکھتے ہو ئے اس کے اندر کس قسم کی اصلاحات کیں اور اس سے کیا نتائج برآمد ہو ئے ۔
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں،اٹھا رویں صدی میں بورژوا طبقہ ایک طرف اپنے معاشی مفاد کے لیے بے قید معیشت کے اصول پیش کر رہا تھا اور دوسری طرف یہی طبقہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے جمہوریت،مساوات اور حاکمیت عوام کا صور پھونک رہا تھا،آزادی رائے ،آزادی ضمیر،آزادی تقریر اور آزادی اجتماع کے حقوق کامطالبہ کر رہا تھا، حتی کہ اس بات پر بھی زور دے رہا تھا کہ نا قابل برداشت جبر کے مقابلہ میں رعایا کو حکو مت کے خلاف بغاوت کرنے کا حق ہے ۔ابتدا میں جب یہ لوگ ان نظریات کو پیش کر رہے تھے تو ان کے پیش نظر شاہی خا ندان، مالک زمین اور ارباب کلیسا تھے ۔سامنے وہ ان کو دیکھتے تھے اور مقابل میں صرف اپنے آپ کو پاتے تھے اس لیے ان کو با لکل یہ محسوس نہ ہو ا کہ وہ ایک طرف جس بے قید انفرا دیت پر معاشی نظام کی عمارت جس جمہوریت اور تمدنی مساوات پر تعمیر کر رہے ہیں، یہ دونوں کبھی ایک دوسرے کی ضد ثابت ہوں گی اور آپس میں ایک دوسرے سے متصا دم ہو جائیں گی۔
جب ان کی جدو جہد سے نئے جمہوری نظام نے مختلف ممالک میں جنم لینا شروع کیا اور دوٹ کا حق مالکان زمین سے گزر کرتا جروں،کارخانہ داروں اور ساہو کاروں تک وسیع ہو ا تو پھر یہ ممکن نہ رہا کہ کسی دلیل سے اس کو مزدورں اور کا شتکاروں اور محنت پیشہ عوام تک پہنچے سے روکا جاسکے ۔بورژوا حضرات نے اسے روکنے کی بہت کو شش کی ۔لیکن ان کی اپنی ہی منطق ان کے خلاف کا م کرنے لگی، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کو اسی طرح عوام کا حق رائے دہی تسلیم کرنا پڑا جس طرح پہلے مالکان زمین کو خود ان کا حق ماننا پڑا تھا۔ پھر کسی دلیل سے یہ با ت بھی معقو ل ثابت نہ کی جا سکتی تھی کہ مستاجروں کے لیے تو اپنی شرائط متحدہ طاقت سے اجیروں پر عائد کریں مگر اجیر اپنی جماعت کے زور سے اپنی شرائط منوانے کے مجاز نہ ہو ں۔اس طرح رفتہ رفتہ مزدوروں اور ملازموں کا یہ حق بھی تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اپنی انجمنیں بنائیں، اکیلے اکیلے نہیں بلکہ مجموعی طاقت سے اجر تو ں اور تنخوا ہوں اور شرائط کار کے لیے سود اچکائیں،اپنی شکا یات رفع کرانے کے لیے ہڑتال کا حربہ استعمال کریں اور ہڑتا ل کو کامیاب بنانے کے لیے پہرہ لگائیں۔
انیسویں صدی کے خاتمہ کے ساتھ سیا ست کا یہ پرانا نظریہ بھی ختم ہو نے لگا کہ ریا ست کا کا م فقط شخصی آزادیوں کی حفاظت ہے اور قومی زندگی میں ریا ست کے ایجا بی فرائض کچھ بھی نہیں ہیں۔اب اس کی جگہ یہ احساس خود بخود ابھرنا شروع ہو ا کہ ایک جمہوری ریاست تو خود با شندگان ملک ہی کی متفقہ مظہر کی لہر ہو تی ہے اور جمہور اپنی ہی سیا سی طاقت کو ریا ست کی شکل میں مر تکز اور منظم کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پرانی شاہی حکو متوں کی طرح اب جمہوری حکومت کے دائرہ عمل کو بھی محدود رکھنے پر اصرار کیا جائے ۔جمہوری حکومت کے فرائض محض سلبی نہ ہو نے چاہییں بلکہ اسے ایجا بی طور پو اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنا چاہیے اور اگر معاشرے میں بے اضا فیاں پائی جاتی ہوں تو قانون سازی اور انتظامی مداخلت، دونوں کے ذریعہ سے اس کو ان کا تدارک کونا چاہیے ۔
حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ یکا یک جنگ عظیم اول پیش آ گئی ،پھر روس میں وہ اشتراکی انقلاب بر پا ہو ا جس نے بو رژوا طبقہ کے زن بچے تک کو کو لہو میں پیل دیا،پھر جرمنی اور اٹلی میں اے کا رد عمل فا شیت اور نازیت کی شکل میں رونما ہو ا جس نے بو رژوا اور محنت پیشہ عو ام ، سب کو ایک سخت جا برا نہ نظام میں کس دیا۔ ان واقعات نے سرمایہ داری کو اچھا خاصا ” روشن خیال ” بنا دیا اور وہ کچھ تو عوام کی بڑھتی ہو ئی طاقت کے دباؤ سے ، اور کچھ اپنی مر ضی سے پرانی بے قید معیشت کے نظام میں حسب ذیل تغیرات قبول کر تی چلی گئی۔
(1) ہر شعبہ معیشت میں مزدوروں اور ملازموں کی ایسی تنظیمات کو با قا عدہ تسلیم کر لیا گیا ہے جو ان کی طرف سے با ت کرنے کی مجاز ہیں۔اس کے ساتھ ایک حد تک رسمی یا قانونی طور پر بعض ایسی عملی تد بیروں کو بھی جائز و معقول مان لیا گیا ہے جنہیں مزدوروں اور ملازموں کی انجمنیں اپنے مطالبات منوانے اور ان کی خاطر دبا ؤ ڈا لنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ اس طرح اگر چہ سر مایہ ومحنت کی کشمکش ختم تو نہیں ہو ئی، لیکن محنت اب سرمایہ کے مقابلے میں اتنی بے بس بھی نہیں رہی ہے جتنی بے قید معیشت کے دور میں تھی۔
(2) اجرتو ں میں اضا فہ،اوقات کا ر میں کمی، کا م کرنے کے حالات میں نرمی، عورتو ں اور بچو ں سے محنت لینے پر پا بندی، مزدورں کی جان اور صحت کی نسبتا زیا دہ پروا،اس کے گھر اور ماحو ل کو پہلے سے بہتر بنا نے کی کو شش ،جسمانی نقصان پہنچ جا نے کی صورت میں اس کی کچھ نہ کچھ تلافی،اور پھر سوشل انشورنس کی بھی بعض اسکیموں کی تر ویج، یہ سب کچھ اگر چہ اس حد تک نہ ہو ا جتنا ہو نا چاہیے تھا،لیکن بہر حال اب مزدورں اور نچلے طبقے کے ملازموں کا حال اتنا خراب بھی نہیں ہے جتنا پہلے تھا۔
(3) حکومت کی یہ حیثیت تسلیم کر لی گئی ہے کہ وہ محنت اور سرمایہ کے دومیان حکم بنے ۔نیز ان کی باہمی کشمکش کو دور کرنے اور ان کے جھگڑے چکانے کی مختلف قانونی صورتیں بھی مقرر کر دی گئی ہیں ۔ یہ چیز اگر چہ اس حد تک نہیں پہنچی ہے کہ ہر شعبہ معیشت میں اجیر اور مستا جر کے درمیان حقوق وفرائض کا منصفانہ تعین کر دیا جائے اور ابھی معاشی نزاعات میں عدالتی فیصلہ دینے کا کام بھی حکومت نے پو ری طرح سے اپنے ہا تھ میں نہیں لیا ہے ،لیکن اصولا حکومت کا یہ منصب تسلیم کر لیا گیا ہے ۔
(4) یہ اصول بھی مان لیا گیا ہے کہ انفرادی نفع اندوزی پر ایسی پا بندیا ں عا ئد ہو نی چاہییں جن سے وہ اجتما عی مفاد کے خلاف نہ ہو نے پائے ، اور یہ کہ ایسی پا بندیاں عائد کرنا حکو مت ہی کے فرائض میں سے ہے ۔
(5) بعض ایسی معاشی خدمات کو اکثر حکو متو ں نے خود اپنے ہا تھ میں لے لیا ہے ،جو یا تو انفرادی کاروبا ر کے بس کی نہیں ہیں،یا جنہیں افراد کے قبضہ میں دنیا مجموعی مفاد کے خلاف ہے ۔مثلا ڈاک اور تار اور وسائل حمل و نقل کا انتظام ۔سڑکو ں اور شا ہراہو ں کی تعمیر او ر ان کی درست حا لت میں رکھنا۔جنگلا ت کی پر داخت اور ان کا نظم و نسق۔آب رسا ئی اور آب پا شی ۔ بر ق آبی کی پیدائش اور تقسیم ۔روپے کا کنٹرول،اس کے علاوہ حکو متوں نے عموما معدنیات کو بھی اپنے اجارے میں لے لیا ہے اور بعض بڑی بڑی صنعتوں کو اپنے انتطام میں چلا نا شروع کر دیا ہے ۔
(6) تھوڑی تھوڑی آمدنیاں رکھنے والے ملازموں اور مزدوروں کے لیے ایسے مواقع پیدا کر دئیے ہیں کہ وہ تھوڑا تھوڑا پس انداز کر کے تجارتی اور صنعتی کمپنیوں میں کم قیمت کے حصے خرید لیں اور بعض ایسی صو رتیں بھی اختیار کر لی گئی ہیں کہ خاص خاص قوائد کے مطابق ملازموں اور مزدوروں کی اجر تو ں کا ایک حصہ ان کو نقد ملتا جا تا ہے اور ایک حصہ ان کی طرف سے کمپنی کے سر مایہ میں شریک ہو تا جا تا ہے ۔اس طرح بکثرت محنت پیشہ کا رکن اس کمپنی یا کا ر پو ریشن کی ملکیت میں حصہ دار بھی ہو گئے ہین جن کے اندر وہ مزدوری یا ملازمت کر رہے ہیں ۔ بعض بڑے بڑے مشہور کا رخانوں میں 80 فی صدی اور90 فی صدی مز دور اور ملازم شریک ملکیت ہو چکے ہیں اور اقساط پر حصے خر یدنے کی آسا نیاں حا صل ہو نے کی وجہ سے کا رخانوں میں ان کی حصہ داری کا تنا سب برابر بڑھتا جا رہا ہے