متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول

یہ حد ود و ضوابط اور یہ اصلاحی تدبیریں اگر معیشت کے ان سات فطری اصولو ں کے سات جمع کر دی جائیں جو “جدید نظام سر ما یہ داری” کے باب میں ہم بیان کر چکے ہیں ،تو اس سے جاگیرداری و سرما یہ داری کی تمام خرابیوں کا سدباب ہو جاتا ہے اور ایک ایسا متوازن نظام معیشت بن جاتا ہے جس میں انفرادی آزادی اور اجتماعی فلاح، دونوں ٹھیک ٹھیک عدل کے ساتھ سموئے جا سکتے ہیں،بغیر اس کے کہ موجو رہ صنعتی انقلاب کی رفتار ترقی میں ذرہ بھر بھی خلل آنے پائے ۔

اس متوازن معیشت کے بنیادی ارکان چار ہیں:

(1) آزاد معیشت چند قانونی اور انتظامی حدود و قیود کے اندر
(2) زکوۃ کی فرضیت
(3) قانون میراث
(4) سود کی حرمت

ان میں سے پہلے رکن کو کم ازکم اصولی طور پر وہ سب لو گ اب درست تسلیم کرنے لگے ہیں جن کے سامنے بےقید سرمایہ داری کی قباحتیں اور اشتراکیت و فاشیت کی شناعتیں بے نقاب ہو چکی ہیں۔اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ الجھنیں ذہنوں میں ضرورپائی جاتی ہيں،مگر ہمیں امید ہے کہ جو کچھ اس باب میں ہم نے زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار کے زیر عنوان بیان کیا ہے اس کے مطالعہ سے وہ الجھنیں بھی دور ہو جائيں گی اور ہماری کتاب “مسلہ ملکیت زمین:بھی انہیں دور کرنے میں کافی مدد گار ثابت ہو گی۔
دوسرے رکن کی اہمیت اب بڑی حد تک دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے ۔کسی صاحب نظر سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہے کہ اشتراکیت،فاشزم اور سرمایہ دارانہ جمہو ریت، تینوں نے اب تک سوشل انشورنس کا جو و سیع نظام سوچا ہے ،زکوۃ اس سے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر اجتماعی انشورنس کا انتظام کرتی ہے ۔لیکن یہاں بھی کچھ الجھنیں زکو ۃ کے تفصیلی احکام معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔اور لو گوں کے لیے یہ بات سمجھنی بھی مشکل ہو رہی ہے کہ ایک جدید ریاست کے مالیات میں زکوۃ و خمس کو کس طرح نصب کیا جا سکتا ہے۔اس معاملہ میں ہم تو قع رکھتے ہیں کہ “احکام زکو ۃ”پر ہمارا مختصر رسالہ تشفی بخش ثابت ہو گا۔
تیسرے رکن کے بارے میں اسلام نے تمام دنیا کے قوانین وراثت سے ہٹ کر جو مسلک اختیار کیا ہے ،پہلے اس کی حکمتوں سے بکثرت لو گ ناواقف تھے اورطرح طرح کے اعتراضات اس پر کرتے تھے ،لیکن اب بتد ریج ساری دنیا اس کی طرف رجوع کرتی جارہی ہے ۔حتی کہ روسی اشتراکیت کو بھی اس کی خو شہ چینی کرنی پڑی ہے۔[ سوویٹ روس کے تازہ ترین قانون وراثت میں اولاد،بیوی،شوہر،والدین،بھائیوں اور بہنوں اور متینی کو وارث ٹھرایا گیا ہے ۔نیز یہ قاعدہ بھی مقرر کیا گیا ہے کہ آدمی اپنا ترکہ اپنے حا جت مند قریبی رشتہ داروں اور پبلک اداروں میں تقسیم کرنے کی وصیت کر سکتا ہے مگر رشتہ داروں کا حق مقدم ہے، اس کے ساتھ ایسی وصیت ممنوع ٹھیرائی گیی ہے جس کا مقصود نابالغ اولاد یا غریب وارثوں کو حق وراثت سے محروم کرنا ہو ۔ اس قانون کو دیکھ کر کو ئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اشتراکی”ترقی پسندوں” نے 1945ءمیں اس قانون کی طرف رجعت فرمائی ہے جو 625ءمیں بنایا گیا تھا۔]مگر اس نقشے کے چو تھے رکن کو سمجھنے میں موجو دہ زمانے کے لو گو ں کو سخت مشکل پیش آرہی ہے ۔بورژوا علم معیشت نے پچھلی صدیوں میں یہ تخیل بڑی گہری جڑوں کے ساتھ جما دیا ہے کہ حرمت محض ایک جذباتی چیز ہے ،اور یہ بلا سود کسی شخص کو قرض دینا ایک اخلاقی رعایت ہے ۔جس کا مطالبہ مذہب نے خواہ مخواہ اس قدر مبالغہ کے ساتھ کن دیا ہے ورنہ منطقی حیثیت سے سود سراسر ایک معقول چیز ہے اور معاشی حیثیت سے وہ صرف ناقابل اعتراض ہی نہیں بلکہ عملا مفید اورضروری بھی ہے ۔اس غلط نظریہ اور اس کی اس پر زور تبلیغ کا ا ثر یہ ہے کہ جدید نظام سرمایہ داری کے تمام عیو ب پر کسی کی نگاہ نہیں پڑتی۔حتی کہ رو س کے اشتراکی بھی اپنی مملکت میں سرمایہ داری نظام کی اس ام الخبا ئث کو برطانیہ اور امریکہ ہی کی طرح پرورش کر رہے ہیں ۔اور حد یہ ہے کہ خو د مسلمان بھی ،جن کو دنیامیں سود کا سب سے بڑا دشمن ہو نا چاہیے،مغرب کے اس گمراہ کن پرو پیگنڈ اسے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ہمارے شکست خوردہ اہل مذہب میں یہ عام غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ سود کو ئی قابل اعتراض چیز اگر ہے بھی تو صرف اس صورت میں جبکہ وہ ان لو گوں سے وصول کیا جائے جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں،رہے وہ قرضے جو کاروبارمیں لگا نے کے لیے حاصل کیے گئے ہوں،اور اس میں دین،اخلاق،عقل اور اصول علم معیشت،کسی چیز کے اعتبار سے بھی کو ئی قباحت نہیں ہے۔ اس پر مزید وہ خوش فہمیاں ہیں جن کی بنا پر قدیم طرز کے بینوں اور سا ہو کاروں کی سود خواری سے موجو دہ زمانہ کے بینکنگ کو ایک مختصر چیز سمجھا جاتا ہے۔اور خیال کیا جاتاہے کہ ان بینکوں کا “ستھرا” کاروبار تو بالکل ایک پا کیزہ چیز ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے ۔ان تمام مغالطوں کے چکر سے جو لوگ نکل گئے ہیں وہ یہ بھی سمجھنے میں مشکل محسوس کررہے ہیں کہ سود کو قانونا بند کر دینے کے بعد موجو دہ زمانے میں مالیات کا نظم کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔ان مسائل پر ایک مستقل بحث کی ضرورت ہے جس کے لیے اس رسالہ میں گنجائش نہیں ہے ۔میری کتاب “سود” انہی مسائل کے لیے مختص ہے ، اس لیے جو اصحاب ان کے متعلق تشفی چاہتے ہیں وہ اس کا مطالعہ فرمائیں۔

Previous Topic