سوال: تفہیم القرآن میں حرمت سود والی آیت فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَط(بقرہ۔۳۸) پر حاشیہ لکھتے ہوئے جناب نے جو استدلال فرمایا ہے اس پر مجھے اطمینان نہیں ہے آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’وہ شخص جو پہلے کے کمائے ہوئے مال سے بدستور لطف اٹھاتا رہا تو بعید نہیں کو وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ سود کے حرام ہونے پر صحابہ کرامؓ نے کیا عمل فرمایا؟ اگر انہوں نے اخلاقی حیثیت کی بنا پر مستحقین کو مال واپس کیا ہے تو آپ کا استدلال صحیح ہوسکتا ہے، نیز اگر صحابہؓ کا عمل ایسا ثابت ہے تو آپ کو تفہیم القرآن میں اس کا حوالہ دینا چاہئے۔
جواب:اس معاملہ میں قرآن کے الفاظ پر شاید آپ نے توجہ نہیں کی ’’فَلَہٗ مَا سَلَفَ‘‘ کہنے کے بعد ’’ وَ اَمْرُہٗ اِلَی اﷲِ‘‘ جو فرمایا گیا ہے اس کا آخر مطلب کیا ہوسکتا ہے؟اس کے معنی یہی تو ہوسکتے ہیں کہ جہاں تک دنیاوی عدالت کا تعلق ہے حرمت سود کا حکم نازل ہونے سے پہلے کے مقدمات اس میں پیش نہیں کیے جائیں گے مگر جہاں تک اخروی عدالت کا تعلق ہے، اللہ نے کھائے ہوئے سود کی معافی کا اعلان نہیں کردیا ہے،بلکہ اس کے مقدمہ کو زیر تجویز رکھا ہے۔ اگر وہ اپنی سود سے جمع کی ہوئی دولت کو اپنے لیے عیش و راحت اور شان و شوکت کا ذریعہ بنائے تو اس کی حیثیت ایسے شخص کی سی ہوگی جو اپنے پچھلے گناہوں پر کوئی ندامت نہیں رکھتا۔اس لیے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اس شخص سے مختلف ہوگا جو اپنے پچھلے گناہوں پر نادم ہو اور اپنی ظلم و جور سے کمائی ہوئی دولت کو اپنے عیش پر خرچ کرنے کے بجائے خلق اللہ کی خدمت پر صرف کرے، تاکہ اس کے اس جرم کی کسی حد تک تلافی ہوجائے جو وہ حالت جاہلیت میں کرتا رہا ہے۔ اس معاملہ کے متعلق اگر کوئی نظائرہمیں تاریخ میں نہ بھی ملیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حکم منشا کی طرف جو صریح اشارہ قرآن شریف کررہا ہے اس سے ہم آنکھیں بند کرلیں۔
(ترجمان القرآن محرم، صفر۶۴ھ؍ جنوری، فروری۴۵ء)