اب سوال یہ تھا کہ فیڈ (فیڈرل ریزرو) روپیہ کیسے پیدا کرے گا۔ اس کو سمجھنے کے لیے سرکاری بانڈ کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ بانڈ ایک وعدہ ہے کہ رقم واپس کر دی جائے گی اور سود بھی دے دیا جائے گا۔ لوگ انہیں خرید لیتے ہیں۔ جب مدت پوری ہوتی ہے تو رقم واپس مل جاتی ہے اور بانڈ ضائع کر دیا جاتا ہے۔
’’فیڈ‘‘ اس طرح روپیہ پیدا کرتا ہے:
ا) فیڈ کی مارکیٹ کمیٹی کھلی مارکیٹ سے بانڈ خریدنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
ب) نیویارک فیڈ بینک جہاں سے بھی ملیں بانڈ خرید لیتاہے۔
ج) فیڈ بانڈ بیچنے والے کو ادائیگی الیکٹرانک کریڈٹ سے اس کے بینک کو کرتا ہے جواتنی رقم اس کے حساب میں لکھ دیتا ہے‘ حالانکہ یہ رقم نہ کہیں سے آتی ہے‘ نہ جاتی ہے۔
د) بینک اس رقم کو بطور ریزرو رکھ لیتے ہیں اور اس کے عوض دس گنا سودی قرضہ لوگوں کو دے دیتے ہیں۔
اس طرح فیڈ عام بینکوں کو دس گنا سودی قرضہ دینے کاموقع مہیا کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کئی وجوہات سے بینک دس گنا سے بھی زیادہ قرضہ دے دیتے ہیں۔
یہ ایکٹ کانگریس نے پاس کر دیا اور صدر ولسن نے دستخط کردیے۔ اس کی رو سے منی چینجرز کو لوگوں سے انکم ٹیکس وصول کرنے کا حق بھی دے دیا گیا۔ یہ ایکٹ پاس ہونے سے پہلے اٹارنی الفرڈ (Alfred) سے پوچھا گیا تو اس نے کہا:
’’یہ بل وہ چیز عطا کرتا ہے جو وال سٹریٹ اور بڑے بینک 25 سال سے مانگتے رہے ہیں ‘یعنی کرنسی پر گورنمنٹ کی بجائے پرائیویٹ کنٹرول۔ ان کو اختیارر ہوگا کہ روپیہ عام کر دیںیا کم‘‘۔
جس دن بل پاس ہوا کانگریس مین لنڈ برگ (Lindberg) نے تنبیہہ کی:
’’یہ بل زمین پر عظیم ترین ٹرسٹ قائم کرتا ہے۔ جب صدر دستخط کر دے گا تو روپے کی طاقت کی نہ نظر آنے والی حکومت قائم ہو جائے گی ۔ لوگوں کو فوراً سمجھ نہیں آئے گی مگر زمانے کا بدترین قانونی جرم سرزد ہو چکا ہوگا‘‘۔
کانگریس میں لوئس میکفیڈن (Louis Mcfadden) نے کہا:
’’اس ایکٹ نے بین الاقوامی بینکروں اور صنعتکاروں کی ایک سپر سٹیٹ قائم کر دی ہے تا کہ دنیا کو اپنی مرضی کا غلام بنائیں‘‘۔
رائٹ پیٹمین (Wright Patman)نے کہا:
’’امریکہ میں اب دو حکومتیں ہیں۔ ایک آئینی حکومت اور دوسری فیڈرل ریزرو سسٹم کی آزاد بے مہار اور بدون تعاونِ حکومت‘‘۔
حتیٰ کہ بجلی کے موجد ایڈیسن (Edison) نے کہا:
’’اگر حکومت ڈالر بانڈ جاری کر سکتی ہے تو وہ ڈالر بل بھی جاری کر سکتی ہے۔ یہ کہنا حماقت ہے کہ ہماری حکومت تین کروڑ کے بانڈ جاری کر سکتی ہے‘ مگر تین کروڑ کی کرنسی جاری نہیں کر سکتی۔ دونوں وعدے ہیں مگر ایک سود خوروں کو موٹا کرتا ہے اور دوسرا لوگوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔
تین سال کے بعد صدر ولسن نے بھی کہا:
’’ہم پر ایک بدترین حکمرانی مسلط ہو گئی ہے۔ یہ آزاد رائے یا اکثریتی ووٹ کی حکومت نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے غالب گروہ کی حکومت ہے۔ اب صنعت و تجارت کے مالکان خوفزدہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہیں ایک بہت منظم‘ پراسرار‘ اثر پذیر اور چوکس حکومت قائم ہے اس لیے بہتر ہے کہ وہ خاموش رہیں‘‘۔
مرنے سے پہلے 1924ء میں صدر ولسن نے کہا:
’’میں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی حکومت کو برباد کر دیا‘‘۔
جیمز رینڈ (James Rand) نے کہا:
’’گورنمنٹ کو کسی گروپ کو اپنے اوپر ایسا اختیار نہیں دینا چاہیے جیسا آج فیڈرل ریزرو بورڈ کو ہے۔ پرائیویٹ ادارے کو روپے کی قدر متعین کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے‘‘۔