سوال: موجودہ زمانہ میں جب کہ تجارتی کاروبار بلکہ پوری معاشی زندگی سود کے بَل پر چل رہی ہے اور اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں سود رچ بس نہ گیا ہو، کیا سود کا استیصال عملاً ممکن ہے؟ کیا سود کو ختم کر کے غیر سودی بنیادوں پر معاشی تعمیر ہوسکتی ہے؟
جواب:اگر کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ سود ایک ناگزیر شے ہے اور موجودہ زمانے میں اس کے بغیر کوئی کام ہی نہیں چل سکتا، تو میرے نزدیک اس کا یہ خیال بالکل باطل ہے۔ یہ خیال نہ صرف اصولاً غلط ہے بلکہ یہ اس خدا کے بارے میں سوئے ظن ہے جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز سے ہمیں نہیں روکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہو اور جس کے بغیر دنیوی کاروبار چل ہی نہ سکتا ہو۔ لیکن میں صرف اتنا ہی جواب دینے پراکتفا کروں گا بلکہ یہ عرض کروں گا کہ خود موجودہ دور میں معاشی اصول و نظریات بھی اس طرف جارہے ہیں کہ سود کی شرح کو کم سے کم حتیٰ کہ صفر کی حد تک پہنچا کر اسے ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر ممالک میں شرح سود تیز رفتاری سے گر رہی ہے اور دنیا اس مقام کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں سود سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ مجھے یہاں اس بارے میں تفصیلی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں اس موضوع پر مفصل بحث کر چکا ہوں۔
البتہ میں یہاں مختصراً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک اسلامی حکومت اس مسئلے کو عملاً کیسے حل کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ملک کے اندر سود کو بند کر دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے قدم کے طور پر بیرونی تجارت میں سود ختم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ ملک کے اندر حکومت سودی لین دین کو قانوناً ناجائز قرار دے اور خود بھی سود کا لینا اور دینا ترک کر دے۔ کوئی عدالت سود کی ڈگری نہ دے۔ کوئی شخص اگر سودی کاروبار کرے تو اسے فوجداری جرم کا مجرم گردانا جائے۔ جب تک آغاز ہی میں ایسے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جائیں گے، اس امر کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پیدا ہو سکے گا کہ کوئی ایسا مالیاتی نظام قائم ہو جو سود سے خالی ہو۔ اس حقیقت کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک حکومت اگر ایک طرف ریل کے سفر کے لیے ٹکٹ کو ضروری قرار دے دے اور دوسری طرف بغیر ٹکٹ کے سفر کے لیے بھی گنجائش باقی رہنے دے تو ٹکٹ لینے والے مسافر تھوڑے ہی نکلیں گے۔ لیکن اگر بِلاٹکٹ کا سفر فوجداری جرم ہو تو کوئی آدمی جو ٹکٹ نہیں لیتا ریل میں جانے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ اسی طرح جب تک ہمارے ملک میں سود قانوناً حلال ہے۔ جب تک سودی لین دین کی اجازت ہے۔ جب تک ہماری حکومت خود سود لیتی اور دیتی ہے، جب تک ہماری عدالتیں سود کی ڈگریاں نافذ کرتی ہیں، اس وقت تک اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں کہ حکومت یا کوئی دوسرا ادارہ کوئی ایسا بنکنگ سسٹم چلانے میں کامیاب ہو جو سود خواری کے بجائے حصہ داری کے اصولوں پر قائم کیا گیا ہو۔ البتہ اگر سودی بنک کاری کو پہلے قانوناً حرام کر دیا جائے تو ہمیں پوری توقع ہے کہ حصہ داری کے اصول پر ایسا سسٹم نشوونما پا سکتا ہے۔ حصہ داری سے ہماری مراد یہ ہے کہ نفع و نقصان میں تمام حصہ دار برابر کے شریک ہوں۔ داخلی طور پر سودی بندش کے بعد خارجی لین دین میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے انشاء اللہ کسی لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ دوستانہ طریق پر تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے بھی دوسرے ممالک کو اس پر رضامند کیا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ، ستمبر ۱۹۵۴ء)