سود اور غیر ملکی تجارت

سوال: غیر ملکی تاجر جب ہم سے سود نہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے تو کیا اپنے مال کی قیمتیں نہیں بڑھا دیں گے؟ کیا اس طرح سے سودی لین دین کا بند کرنا عملاً بے سود نہ ہو جائے گا؟

جواب: اگر غیر ملکی تاجروں کی واجب الادا رقم کی ادائیگی کا یقینی اور قابل اعتماد انتظام ہو جائے تو غالباً وہ اپنے مال کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گے۔ لیکن بالفرض اگر قیمتوں میں کچھ اضافہ ہو جائے تب بھی ہماری تجارت حرام کی آلائش سے تو محفوظ ہو جائے گی اور یہ درحقیقت خسارے کا نہیں بلکہ بڑے نفع کا سودا ہے۔ علاوہ ازیں ہماری معاشی زندگی میں اسلامی انقلاب دنیا بھر کے لیے سبق آموز ہوگا۔ ہماری عملی مثال سے انشاء اللہ تمام قومیں اس بات کی قائل بلکہ اس پر راضی ہو جائیں گی کہ سود نہ جائز ہے اور نہ ناگزیر ہے۔

سوال: موجودہ بیرونی تجارت میں ایک عملی دقت یہ بھی ہے کہ اس کے لیے بنک میں (Letter of Credit) کھولنا ضروری ہوتا ہے اور بغیر سود کے اس کا کھلنا ممکن نہیں ہے۔

جواب:یہ صحیح ہے کہ موجودہ حالات میں افراد اگر دوسرے ممالک سے تجارت کرنا چاہیں تو ان کے رستے میں کچھ نہ کچھ مشکلات ہیں۔ لیکن یہ مشکلات اسی وقت تک ہیں، جس وقت تک ملک کی حکومت آپ کی پشت پناہی نہ کرے اور خود بھی اپنی خارجی تجارت میں سود سے بچنے کی جدوجہد نہ کرے۔ لیکن اگر حکومت مختلف ممالک سے غیر سودی بنیادوں پر معاہدے کرنے کی کوشش کرے، لیکن اگر حکومت مختلف ممالک سے غیر سودی بنیادوں پر معاہدے کرنے کی کوشش کرے، اپنے ملک کے اندر بھی غیر سودی مالی نظام قائم کرے اور بیرونی ممالک میں اپنے تاجروں کی ادائیگیوں میں بھی مدد دے تو تمام مشکلات کا حل باآسانی نکالا جاسکتا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ، ستمبر ۱۹۵۴ء)

FAQs