سوال 8: انڈیکسیشن کے جائز یا ناجائز ہونے کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟ معاصر فقہاء کے قانونی نکات کو خاص اہمیت دیتے ہوئے قرض کی مدت کے دوران کرنسی کی قیمت میں کمی (ڈی ویلیوایشن) اور افراطِ زر جیسے عوامل کو مدنظر رکھ کر وضاحت کیجیے۔
جواب: انڈیکسیشن سے مراد یہ ہے کہ قرض دار کو اس نقصان کی تلافی کرنی چاہیے جو افراطِ زر اور اس کے سبب سے کرنسی کی قوتِ خرید میں پیدا ہونے والی کمی کی صورت میں قرض خواہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے جواز کے لیے اُس قانون تضامن وہر جانہ (Indemnity)کا حوالہ دیا ہے جس کی رُو سے جو شخص کسی دوسرے کو تکلیف پہنچاتا ہے اسی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی دادرسی بھی کرے۔ لیکن افراطِ زر اور اس کے زیراثر جو نقصان قرض خواہ کی دولت کو پہنچتا ہے‘ اسے کسی طرح بھی قرض دار کا فعل سمجھا نہیں جا سکتا۔ ایسی صورت میں قرض لینے والے کو کیسے ذمہ دار قرار دے کر اس سے تلافی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے‘ ایسا کوئی بھی نظام قرض دار کے لیے ضرررساں ہو گا۔ پھر یہ کہ شریعت کسی بھی صورت میں اصل زر کے علاوہ کوئی بھی مشروط اضافہ جائز قرار نہیں دیتی۔ قرض خواہ کی جانب سے انڈیکسیشن کی مد میں وصول کی گئی اضافی رقم پر اس حدیث مبارکہ کا اطلاق ہوتا ہے جس کی رُو سے کسی قرض کو مالیاتی فائدے سے مشروط کرنا ایک طرح کا ربا ہے۔
تاہم‘ دورِ حاضر کے فقہاء قرضوں کی انڈیکسیشن کے جواز پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔ علماء کا ایک طبقہ جس میں رفیق المصری‘ سلطان ابوعلی‘ ایم اے منان‘ ضیاء الدین احمد‘ عمر زبیر اور گل محمد شامل ہیں‘ انڈیکسیشن کو جائز سمجھتا ہے۔ انہیں اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جو شرعی قوانین سے متصادم ہو‘ بلکہ وہ اسے قرآن و سنت میں بیان کردہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ بعض علماء ایسے بھی ہیں جو انڈیکسیشن کو اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انڈیکسیشن درحقیقت قرض پر معین منافع کا حصول ہے اور یہ شریعت میں مذکور ان اصولوں سے بھی رُوگردانی کرتا ہے جو قرضوں کی ادائیگی سے متعلق ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے حامل سکالرز میں محمد عمر چھاپرا‘ منظر کہف‘ ایم نجات اﷲ صدیقی‘ محمد حسن الزماں‘ مولانا تقی عثمانی‘ علی احمد سلوس اور بعض دوسرے نامور علماء شامل ہیں۔
شریعت اپیلیٹ بینچ 1999ء کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے یہ کوشش کی ہے کہ دورِ حاضر کے اسلامی فقہ میں مختلف مسائل کے حوالے سے موجود متضاد نقطہ ہائے نظر کے درمیان اعتدال کا راستہ اپنایا جائے۔ افراطِ زر کی صورت میں معزز عدالت قرض کی انڈیکسیشن کو تسلیم نہیں کرتی کیونکہ کسی بھی نظام معیشت میں افراطِ زر ایک معمول کا عمل ہے۔ تاہم‘ hyper inflation کی صورت میں عدالت قرض دہندہ کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے پہنچنے والے بھاری نقصان کی تلافی کی جانی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے غبن فاحش کا اصول متعارف کرایا گیا ہے تاکہ قرض خواہ کے اس نقصان کا ازالہ ہو سکے جو hyper inflation کے سبب کرنسی کی قوت خرید میں کمی سے اسے پہنچتا ہے۔hyper inflation کی صورت میں قرض دہندہ کو بہت زیادہ خسارہ ہوتا ہے کیونکہ اسے قرض دار سے جو رقم ملتی ہے اس کی قدر قرض کے طور پر دی گئی اصل رقم سے بہت کم ہوتی ہے۔
غبن فاحش سے مراد کسی معاہدے کے ایک فریق کو پہنچنے والا وہ بڑا خسارہ ہے جس کا اندازہ ماہرین نہیں لگا سکتے۔ بنیادی طور پر غبن فاحش کا تعلق کسی شے کی فروخت کے ایسے معاہدے سے ہے جس میں بیچنے والا شخص خریدار سے غیرمعمولی منافع کماتا ہے۔
عدالت نے فروخت کے سودے میں خریدار کو بیچنے والے نقصان کی تعدیل اس گھاٹے کے ساتھ کی ہے جس سے قرض خواہ hyper inflation کے نتیجے میں دوچار ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالت کی نظر میں‘ کرنسی کی قوت خرید میں کمی کے معاملے کو غبن فاحش کے روایتی تصور پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں‘ عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ hyper inflation کی سطح تک پہنچنے والے افراطِ زر پر غبن فاحش کا اصول لاگو کیا جانا چاہیے اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جن سے قرض خواہوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ یہاں فلوس (تانبے کا سکہ) کے حوالے سے فقہاء نے جو اصول مرتب کیا ہے‘ اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ (تفصیلی فیصلہ از جسٹس خلیل الرحمن‘ ص366)
اس سے مراد یہ ہے کہ اگر تانبے کے سکے کی گردش رک جائے یا فلوس کی وقعت اس کی قدرِعرفی کے مقابلے میں کافی کم ہو جائے تو پھر وسیلۂ مبادلہ اور store of value کے طور پر ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی‘ اور انہیں ثمن اصطلاحی یا زرِ قانونی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں‘ سوداکاری کے وقت رائج فلوس کی اصل قیمت ادا کرنا ہو گی۔ جب تک کرنسی کی قدر افراطِ زر کی معمول کی اُن حدود کے اندر رہے گی جنہیں اس اصول کے تحت طے کیا گیا ہے‘ اس کیlatent value میں کسی قسم کے فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام لین دین‘ ادائیگیاں اور repayments کرنسی کی قدرِعرفی کی بنیاد پر ہوں گی۔ تاہم‘ جیسے ہی افراطِ زر مقررہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے hyper inflation کے حلقے میں داخل ہو گا‘ یہ غبن فاحش کا سبب قرار پائے گا۔یہ ایک استثنائی صورتحال ہے جسے عمومی حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
عہدِ حاضر کے مسلم سکالرز کو درپیش افراطِ زر جیسے اہم مسئلے کے سلسلے میں معزز عدالت کی یہ توضیح ایک قابل قدر اجتہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ مسئلے کے حل کے لیے یہ ایک معتدل اور متوازننقطۂ نظر ہے۔ عدالت نے معمول کے افراطِ زر میں قرض خواہ کے نقصان کی تلافی کا حق تسلیم نہیں کیا جبکہ hyper inflation میں یہ گنجائش رکھی ہے کیونکہ مؤخرالذکر صورت میں افراطِ زر کی شرح منصفانہ حدود سے تجاوز کر جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔