سوال5: ربا کی حرمت کی علت کیا ہے؟ اور قرآن و سنت اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کی رائے میں اس کے اخلاقی اور قانونی مضمرات کیا ہیں؟ کیا ’’الحکم یدو ر مع العلۃ وجوبًا وعدمًا‘‘ کے فقہی قاعدہ کا اطلاق ربا کے مسئلے پر بھی ہو سکتا ہے؟
جواب:کسی اصول کی علت کو اس کی حکمت کے ساتھ الجھانا نہیں چاہیے۔ درحقیقت علت ایک ایسی غیرمبہم اور غیرمتغیر خاصیت ہے جس پر قانون کے اطلاق کا انحصار ہوتا ہے۔ علت کو ’’اصل‘‘ کے ایک ایسے وصف کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو مستقل اور واضح ہے‘ اور قانونِ شریعت سے خاص تعلق کا حامل ہے۔ یہ کوئی حقیقت‘ واقعہ یا مصلحت ہو سکتی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے قانون دہندہ نے کوئی حکم جاری کیا ہو۔
حکمت سے مراد وہ بصیرت‘ دانش اور سببِ عقلی ہے جس کی بنیاد پر کوئی قانون ترتیب دیا جاتا ہے۔ حکمت کا مقصد فائدہ پہنچانا اور نقصان سے بچانا ہے‘ جس کے سبب اسے کسی قانون کی تشکیل کے حتمی مقصد کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
چونکہ کسی قانون کے پس منظر میں کارفرما حکمت پوشیدہ اور غیرواضح ہوتی ہے یا پھر تغیرپذیر‘ اس لیے قانون سازی کے لیے علت کو بنیاد بنایا جاتا ہے جو واضح‘ معین اور غیرمتغیر صفات کی حامل ہے‘ جبکہ حکمت نہ تو مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی حتمی طور پر اس کی تعیین ممکن ہے۔
ایک مثال سے علت اور حکمت کے مقاصد کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ حق شفعہ کے اصول کے تحت‘ کسی غیرمنقولہ جائیداد کے مشترکہ مالک یا ہمسائے کا یہ حق مقدم ہے کہ جب بھی اس کا ساجھی یا ہمسایہ اسے بیچنے کا قصد کرے‘ وہ اس جائیداد کو خرید سکے ۔ حق شفعہ میں علت خود مشترکہ ملکیت ہے‘ جبکہ اس قانون کی حکمت یہ ہے کہ شراکت دار/ پڑوسی کو اُس ممکنہ نقصان سے بچایا جا سکے جو یہ جائیداد کسی فریق ثالث کو فروخت کرنے کی صورت میں انہیں پہنچ سکتا ہے۔ یہاں جس جسمانی یا ذہنی تکلیف کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے‘ یہ ضروری نہیں کہ واقعتا اس کا ظہور بھی ہو۔ یوں حکمت مستقل نہیں ہے۔ لہٰذا حق شفعہ کی علت مشترکہ ملکیت ہے جو حکمت کے برعکس مستقل اور غیرمبدل ہے کیونکہ حالات کے تبدیل ہونے سے اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ جائیداد بیچنے والے کے شراکت دار یا پڑوسی کا یہ استحقاق قائم رہتا ہے کہ وہ ایسی صورت میں بھی کسی عام خریدار کے مقابلے میں اپنے حق کا مطالبہ کر سکیں جب فریق ثالث کو جائیداد کی فروخت انہیں کسی قسم کے نقصان‘ پریشانی یا زحمت سے دوچار نہ بھی کرے۔قرآن و سنت کی نصوص اور اہل تاویل کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ربا کی ممانعت میں علت وہ اضافہ ہے جس کی کوئی متبادل قیمت/ قدر نہ ہو۔ ربا کی حرمت میں کارفرما حکمت یا برہان کا تعلق استحصال‘ ناانصافی اور ارتکازِزر سے ہے۔ اسلامی قانون میں کسی اصول کی بنیاد علت کو بنایا جاتا ہے نہ کہ حکمت کو۔ ربا کے ضمن میں علت اصل زر میں وہ اضافی رقم ہے جسے ترتیب دیتے وقت اس کے مقابل کوئی بدل موجود نہ ہو۔ چنانچہ ایسا کوئی بھی معاہدہ جس میں اس نوع کی کوئی شق شامل ہو‘ سودی معاہدہ کہلائے گا‘ قطع نظر اس کے کہ یہ لین دین ناانصافی یا استحصال کا موجب بنتا ہے یا نہیں۔ یہ بہت مشکل ہے کہ ہر سودی معاہدے کو ناانصافی (ظلم) اور ناجائز فائدے کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے۔ ربا کا معاملہ چونکہ قانونِ عامہ سے متعلق ہے اس لیے ربا کے امتناع کے لیے قانونی ضابطہ تشکیل دینا ناگزیر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔