سوال نمبر 14

سوال14: اگر انٹرسٹ پر مبنی معاملات اور قوانین کو غیر اسلامی قرار دے دیا جائے تو ماضی میں بیرونی ممالک سے جو قرضے لیے گئے تھے اور مسلم و غیر مسلم ممالک سے جو مالی معاہدے کیے گئے تھے ان کے بارے میں کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟
جواب: اصولی اور نظری اعتبار سے ان میں سے جو قرضے اور مالی معاہدات سودی لین دین پر مبنی ہیں وہ حرام ہیں ‘کیونکہ قرآن و سنت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے‘اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا عہد توڑ کر کوئی معاہدہ کرنا اور پھر اس معاہدے کو پورا کرنا حرام ہے۔ لہٰذا اس حرام سے بچنے کے لیے ایک مسلمان کے لیے شرعاً ایسے معاہدہ کو توڑ دینا واجب ہے۔ ایسے معاہدات اور بین الاقوامی قرضے جن میں سود کی ادائیگی شرط ہے ان کے باطل اور فاسد ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ ‘ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَیْسَ لَہٗ وَاِنِ اشْتَرَطَ مِاءَۃً مَرَّۃٍ
(صحیح البخاری‘کتاب الصلاۃ‘رقم: ۴۵۶)

’’کیا بری حالت ہے ان لوگوں کی جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں جائز نہیں ہیں۔ جس نے بھی کوئی ایسی شرط لگائی جو اللہ کی کتاب میں جائز نہ ہو تو اس کی یہ شرط پوری نہ کی جائے گی اگرچہ اس نے سو مرتبہ لگائی ہو ۔‘‘
حضرت عمر فاروق اور ان کے صاحبزادے عبد اللہ بن عمر i سے منقول ہے:
کُلُّ شَرْطٍ خَالَفَ کِتَابَ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ ‘ وَاِنِ اشْتَرَطَ مِاءَۃَ(صحیح البخاری‘کتاب الشروط ‘رقم: ۲۷۳۴)

’’جو شرط اللہ کی کتاب کے خلاف ہو وہ باطل ہو گی ‘اگرچہ سو مرتبہ لگائی گئی ہو۔‘‘
مذکورہ روایات سے یہ بات بے غبار ہو جاتی ہے کہ سودی لین دین کی شرط سے کیے گئے بین الاقوامی معاہداتِ قرض‘عقودِ فاسدہ اور باطلہ کے زمرے میں آتے ہیں جن کو توڑنا واجب ہے۔
امام بخاریؒ نے کتاب العلم میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے: ’’باب اذا اصطلحوا علی جور فھو مردود‘‘ یعنی اس بارے میں باب کہ جب فریقین خلافِ شریعت شرائط پر صلح کر لیں تو یہ معاہدہ کالعدم ہو گا۔ انہوں نے ایسے مردود اور باطل معاہدوں کے کالعدم ہونے پر یہ حدیث نقل کی ہے کہ ایک شخص کے ملازم نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا تھا۔ زانی کے والد نے سو بکریوں اور ایک لونڈی کے بدلے میں صلح کروا لی۔ جب رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:
((لَاَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ‘ اَمَّا الْوَلِیْدَۃُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَیْکَ ‘وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِاءَۃٍ وَتَغْرِیبُ عَامٍ ‘وَاَمَا اَنْتَ یَا اُنَیْسُ، فَاغْدُ عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا فَارْجُمْھَا)) فَغَدَا عَلَیْھَا اُنَیس فَرَجَمَھَا (صحیح البخاری ‘کتاب الصلح: رقم ۲۶۹۵)

’’میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے ذریعے فیصلہ کروں گا‘ایک لونڈی اور تمہاری بکریاں تمہیں واپس کر دی جائیں گی‘ اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال ملک بدر کیا جائے گا۔ اور اے انیس تو کل صبح صبح اس عورت کے پاس جاؤ اور ا س کو رجم کرو۔حضرت انیس اس کے پاس گئے اور اسے رجم کر دیا۔ ‘‘
ان ارشاداتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کتاب و سنت میں جن عقود‘معاہدات اور عہدوں کو پورا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ان میں وہ معاہدات اور عقود شامل نہیں جو فاسد شرائط کی وجہ سے مردود اور باطل قرار پاتے ہیں۔ سودی لین دین پر مبنی معاہدات بھی اسی قبیل سے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت بھی قانون معاہدہ 1972ء کی دفعہ 23کے بارے میں 20 اکتوبر 1983ء کو فیصلے دے چکی ہے کہ دفعہ 23میں اس معاہدے کو بھی کالعدم قرار دیا جائے جو قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی سنت کی روسے ممنوع ہو اور سپریم کورٹ کے شریعت بینچ نے بھیدفعہ23 کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے حکم کی توثیق کی ہے۔ یہ فیصلہ زیر بحث مسئلے میں بھی نظیر بن سکتا ہے ‘اس لیے کہ سود دینے یا لینے کا معاہدہ بھی قرآن و سنت کے خلاف ہے‘ لہٰذا کالعدم ہونا چاہیے۔
ان معاہدات کو کیسے ختم کیا جائے؟
جب اصولی اور نظری طور پر یہ طے پا گیا کہ سود یعنی ربا ناجائز اور حرام معاملہ ہے اور کسی مسلمان فرد یا مسلم مملکت کو یہ جائز نہیں کہ وہ ربا کی بنیاد پر کسی مسلمان یا غیر مسلم کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے تو اب نجی یا ملکی سطح پر ماضی میں کیے گئے سودی معاہدات کا معاملہ شرعی سے زیادہ سٹریٹیجک اور طریقہ کار کی نوعیت کا ہوگا‘ جو ملکی حالات‘ اندرونی و بیرونی قرض خواہوں کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے اور ان کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی تفصیلات کے اعتبار سے تقدیم و تاخیر اور جزئیات میں ایک دوسرے سے جزوی طور پر مختلف ہوسکتا ہے۔البتہ مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیر ہوں گے۔
(۱) آئندہ کے لیے طے کردیا جائے کہ نہ اندرونِ ملک اور نہ ہی بیرونِ ملک سے کسی بھی قسم کا سودی معاملہ کیا جائے گا۔
(۲) یہ بھی طے کردیا جائے کہ اندرونِ ملک سے جو سودی معاہدات روبعمل ہیں انہیں اصل زر کی حد تک honour کیا جائے گا اور سود کی clause کو آئندہ سے ختم تصور کیا جائے گا۔
(۳) سرکاری قرضو ں کے اوپر نہ سود دیا جائے گا اور نہ ہی لیا جائے گا۔
(۴) بینک اپنے کھاتہ داروں کو شراکت و مضاربت کی بنیاد پر منافع میں سے حصہ ادا کرے گا۔
(۵) حکومت اپنے جاری اخراجات اورdevelopmental projectsکے لیے اگر عوام سے مختلف بانڈز اور سیکورٹیز کے نام پر رقم حاصل کرنا چاہے گی تو وہ رقم صرف غیر سودی بنیادوں پر حاصل کی جاسکے گی۔
(۶) بیرونی قرضوں کے ضمن میں یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ بیرونی قرض خواہوں سے اس بات پر negotiate کیا جائے کہ چونکہ سود قانوناً ممنوع قرار پایا جاچکا ہے اس لیے ہم سود دینے سے معذور ہیں ‘لہٰذا وہ ہمارا سود معاف کردیں اور اصل زر کی واپسی کے لیے ایک ٹائم فریم طے کرلیا جائے۔ اگر وہ اس پر راضی نہ ہوں تو انہیںdebt-for-equity swap کی طرز کی آپشنز دی جائیں جس کے ذریعے وہ اپنے اصل زر اور متوقع اضافے کا مقصد پورا کرسکیں۔ البتہ آئندہ بیرونی ذرائع سے بھی کوئی سودی قرضہ حاصل نہ کیا جائے اور اس کے لیے اپنے وسائل پر ہی تکیہ کیا جائے اور اخراجات میں drasticallyکمی کی جائے تاکہ ملک کو قرضوں کے اس چنگل (ٹریپ) سے رفتہ رفتہ نکالنے کا اہتمام ہوسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قرض کی اصل رقوم کی جلد از جلد ادائیگی کا بندوبست کیا جائے اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ سود کی رقم سے چھٹکارا مل جائے۔ تاہم اگر بین الاقوامی مالیاتی قوانین کے تحت سود کی رقم کی ادائیگی ناگزیر ہو اور عدم ادائیگی کی صورت میں کسی بڑے فساد کا اندیشہ ہو تو یہ ادائیگی بھی بکراہت کر دی جائے ‘کیونکہ ایسے عقد مردود سے باہر آنا بے حد ضروری ہے ‘جبکہ آئندہ ایسے عقد سے مجتنب رہنا تو بالکل واضح ہے۔
متعدد عالمی قوانین مثلاً غیر جمہوری حکومتوں کی طرف سے لیے گئے قرضوں سے قوم کی بریت وغیرہ سے فائدہ اٹھا کر بھی سودی رقم معاف کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح لمبی مدت تک قرض کی واپسی کی بجائے دو تین بڑی اقساط کی صورت میں ادائیگی کی کشش پر بھی سودی رقم کو جزوی یا کلی طور پر ختم کروایا جانا بھی ممکنات میں سے ہے۔ یہاں یہ بھی سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کہ حکومت آئندہ سودی قرضوں کے حصول سے کیسے رک سکتی ہے جبکہ ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہے ؟ ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت کو خود انحصاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس کے لیے درج ذیل خطوط پر ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
(a) ملکی وسائل اور ذخائر کا اپنی پالیسیوں کے تحت درست سمت میں بھرپور استعمال۔ مثلاً اگر دیانتداری سے کام لیا جائے تو پاکستان میں ہائیڈرو‘ونڈ‘سولر‘کول‘ایٹمی جیو تھرمل و دیگر ذرائع سے پانچ سے دس سال کی مدت میں 60 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ تھرکول‘ ریکوڈک‘سینڈک و دیگر قیمتی ذخائر کو استعمال میں لا کر قوم کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔
(b) شاہانہ اخراجات اور خسارے کی سرمایہ کاری‘بجٹ کے خسارے اور تجارتی خسارے کا خاتمہ۔
(c) کرپشن پر قابو کیا جائے۔ اس وقت 1000 ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن اور ٹیکس چوری ہے۔
(d) حکمرانوں‘سیاست دانوں اور افسران کے بیرونی ملک اکاؤنٹس کی ملک میں واپسی سےسرمائے کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
(e) لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی۔ اب عالمی قوانین معاون بھی ہیں ‘کم از کم 150 ارب ڈالر رقم واپس مل سکتی ہے۔
(f) بیرون ملک پاکستانیوں سے تعمیر وطن کے لیے زر مباد لہ فراہم کرنے کی اپیل۔
(g) زکوٰۃ اور ٹیکسز کی بلا امتیاز مؤثر وصولیوں کا معتدل نظام۔
اگر کوئی یہ کہے کہ حکومت ایسے قرض اضطراری حالت میں لیتی ہے لہٰذا ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ اور ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرھا‘‘ کے شرعی قواعد کے تحت بین الاقوامی سودی معاہدوں اور ان کی بنیاد پر سود کی ادائیگی کی اجازت دی جا سکتی ہے تو ہمیں اس منطق سے اس لیے اتفاق نہیں ہے کہ ان شرعی قواعد کے اطلاق کے لیے جو شرائط شریعت نے مقرر کی ہیں وہ یہاں مفقود ہیں۔