سوال: میں ایک بہت بڑی زمینداری کا مالک ہوں۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اپنے مزارعین سے شریعت محمدی ﷺ کے مطابق معاملہ کروں گا۔ اس مقصد کے لیے میں اپنے موجودہ طرز عمل کی تفصیلات تحریر کر رہا ہوں۔ ان کے بارے میں واضح فرمائیں کہ کیا کیا چیزیں غلط ہیں اور کیا کیا صحیح ہیں۔
(۱) میں نے ہر مزارع کو دس بارہ ایکڑ زمین فی ہل دے رکھی ہے۔ بیگار مدت سے رائج تھی، لیکن میں نے بند کردی ہے۔ صرف وسائل آب پاشی کی درستی مزارعین کے ذمے ہے۔
(۲) میں ہر پیداوار میں سے ۳؍۱ حصہ لیتا ہوں۔ پانی کا محصول سرکاری (آبیانہ) کل مزارعین دیتے ہیں اور ملکیت کا محصول (ٹھیکہ یا مطالبہ مال) میں ادا کرتا ہوں۔ باقی محصول (زرعی ٹیکس کے سوا) بٹائی کے تناسب سے مشترکہ طور پر ادا کیے جاتے ہیں۔ خرابہ مزارعین کو نہیں دیا جاتا۔
(۳) تخم پختہ اجناس بذمہ مزارعان ہوتا ہے اور قیمتی اجناس کے تخم کا ۱؍۳ حصہ میں دیتا ہوں۔
(٤) ۳ سیر فی من (۳؍۱ حصہ پیداوار کے علاوہ) کل پیداوار میں سے جداگانہ طور پر وصول نہیں کیا جاتا ہے اور کسی طرح کا لگان یا بیگار پہرہ وغیرہ کی خدمات نہیں لی جاتیں۔
(۵) میرے ملازمین کاشت بھی ہیں جن میں سے چند حصہ پر ہیں اور چند تنخواہ دار ہیں۔ حصہ داری پر کام کرنے والے میرے بیلوں کے ساتھ میری اراضی میں میرے منیجروں کی ہدایات کے تحت کام کرتے ہیں۔ بیج میرا ہوتا ہے۔ بعد میں ملکیت کے طور پر 1؍2 حصہ بٹائی اور ۳ سیر فی من کل انبار میں سے وصول کرتا ہوں۔ بقیہ غلہ کا نصف بیلوں کے مصارف میں لیا جاتا ہے اور نصف کارکنوں کی کارکردگی کے حق میں دیا جاتا ہے۔
مثلاً الف،ب،ج میرے حصے دار ہیں اور د، ذ میرے ملازم ہیں۔ ان کے پاس میرے ۵ جوڑی بیل کاشت کے لیے ہیں۔ میں ۵۰ من غلے میں سے اپنی بٹائی لے کر ۳ حصے الف، ب، ج کو دوں گا، باقی ۵ حصے بیلوں کے اور دو حصے تنخوارہ دار ملازموں کے میں لوں گا، کیوں کہ ان کی تنخواہ میرے ذمے ہے۔ آبیانہ وغیرہ علاوہ ملکیتی لگان سرکاری کے مندرجہ بالا نسبت سے ادا ہوگا۔
(٦) میری ملکیت وراثۃً میرے پاس منتقل ہوئی ہے اور میرے آباؤ اجداد نے حکومت سے یا دوسرے زمینداروں سے ’’قیمتاً‘‘ لی تھی۔ میرے پاس کوئی سرکار کی جاگیر وغیرہ نہیں۔
براہ کرم میرے معاملے پر توجہ فرمائیں۔ شاید اللہ تعالیٰ دوسرے اہل زمین کو بھی دیکھا دیکھی توفیق اصلاح دے۔
جواب: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے خود اپنی زمینداری کو رضاکارانہ طور پر شریعت کے مطابق درست کرنے کا ارادہ فرمایا۔ کاش کہ دوسرے زمیندار بھی اسی طرح اپنے معاملات کی اصلاح پر آمادہ ہوجائیں۔
آپ نے اپنے معاملات کی جو شکلیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ۱، ۲، ۳، تو جائز ہیں مگر نمبر ۴ کا پہلا حصہ غلط ہے، اسے بدل دیجیے۔ پیداوار میں سے ۱؍۳ حصہ کے علاوہ ۳ سیر فی من کل انبار میں سے وصول کرنا آپ کی پوری بٹائی کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ آپ صرف نسبت کے اعتبار سے اپنا حصہ لینے کے حق دار ہیں۔ وزن کے اعتبار سے ایک متعین مقدار وصول کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔
نمبر ۵میں جو صورت معاملہ آپ نے بیان کی ہے، اس میں اجرت اور بٹائی کو خلط ملط کردیا ہے جس سے ظلم کی راہ نکل سکتی ہے۔ آپ کو چاہیئے کہ اپنی اراضی کے جن قطعات کو اجرت دے کر کاشت کرانا ہو، انہیں الگ رکھیں اور جنہیں بٹائی پر دینا ہو، انہیں خالص بٹائی کے لیے مخصوص کردیں۔ اجرت پر کام لینے کی صورت میں زمین کی ساری پیداوار خواہ کم ہو یا زیادہ آپ کی ہوگی، اور آپ کے ملازم صرف اپنی اجرت کے مستحق ہوں گے اور بٹائی پر زمین دینے کی صورت میں آپ کویا آپ کے منیجروں کو مزارعین کے کام میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ خواہ محض زمین مزارعوں کو دیں یا ہل بیل اور بیج میں سے بھی کوئی چیز دیں، بہرحال آپ ایک طے شدہ نسبت کے مطابق پیداوار میں سے صرف اپنا حصہ لینے کے مجاز ہیں۔
نمبر ۶ میں آپ نے اپنی زمینداری کی جو اصل بیان کی ہے، وہ اگر درست ہے تو آپ کی ملکیت شرعاً درست قرار پائے گی۔ اس صورت میں طریقہ زمینداری کی اصلاح آپ کے ذمہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس وقت جو شرعی وارث موجود ہوں، ان کے حصے آپ انہیں تقسیم کردیں۔
سوال:دوبارہ متکلف ہوں کہ جو چند باتیں جناب کے نوازش نامے سے نہیں سمجھ سکا۔ ان کی مزید توضیح کی درخواست کروں۔
(۱) اگر ۳ سیر فی من بٹائی کے علاوہ لینا درست نہیں ہے تو پھر دوسرا یہ راستہ ہے کہ بٹائی کی شرع تبدیل کردوں۔ مثلاً ۱؍۳ کے بجائے ۲؍۵ یا ۳؍۵ کی شرع قائم کی جاسکتی ہے، یا کوئی اور صورت جو شرعاً زیادہ مناسب ہو تحریر فرمائیں؟ حصہ داروں اور ملازمین کے رقبوں کو علیحدہ کرنے کے لیے میں نے آج ہی کہہ دیا ہے۔بہر حال بٹائی کی شرعی طریق یا تناسب سے مطلع فرمائیں؟
(۲) آپ نے فرمایا ہے کہ میرے ملازمین یا منیجروں کو مزارعین کے کام میں دخل دینے کا حق نہیں پہنچتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ مالک زمین کا حق مار کھائیں گے اور کماحقہ محنت نہ کریں گے۔ ملازمین کے مصارف کا بوجھ صرف مجھ ہی پر ہوتا ہے، مزارعین کو اس سے کوئی تعلق نہیں۔
(۳) آپ نے فرمایا ہے کہ میں اپنی ملکیت کو اس وقت شرعی وارثوں میں ( جو موجود ہوں) تقسیم کردوں۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میرے باپ پر جو حصے ازروئے شریعت واجب الادا تھے تو یہ ان کے ذمے تھے۔ میرے نام مرحوم والد نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی ملکیت بروئے ہبہ منتقل کردی تھی اور یہ واقعہ ان کی فوتیدگی سے چھ سال قبل کا ہے۔ اندریں حالات مجھ پر صرف میرے اپنے ہونے والے ورثا کا حق واجب ہوگا یا والد مرحوم کے پسماندگان کا بھی؟ اگر والد مرحوم کے پسماندگان کو میں ان کا حق ادا کرنا بھی چاہوں تو میرے دوسرے بھائی اس معاملے میں میرا ساتھ نہ دیں گے اور میں اکیلا ان کے حقوق پورے نہیں کر ہی سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ والد مرحوم کے ذمہ داری سے متعلق تھا نہ کہ مجھ سے۔
جواب: (۱) بٹائی کا یہ طریقہ اصولاً صحیح ہے کہ پیداوار جو کچھ بھی ہو اس میں سے مالک زمین اور کاشتکار متناسب طریق پر حصہ تقسیم کرلیں، مثلاً یہی کہ ۵/۲ مالک کا اور ۵/۳ کاشتکار کا، مگر اس معاملے میں انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لیے یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ ہر کاشتکار کو کم از کم آپ اتنی زمین کاشت کے لیے دیں جس کی پیداوار کا حصہ اس کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ نیز تناسب مقرر کرنے میں رواج سے قطع نظر کرکے انصاف کے ساتھ یہ دیکھیں کہ حاصل شدہ پیداوار کی تیاری میں آپ کا اور آپ کے کاشتکار کا واقعی کتنا حصہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی عالمگیر ضابطہ تو بنایا نہیں جاسکتا اس لیے کہ ہر علاقے کے زراعتی حالات مختلف ہوتے ہیں البتہ بادی النظر میں یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ کی صرف زمین ہو اور بیج، ہل اور محنت سب کاشتکار کی ہو تو اس صورت میں ۵/۲ اور ۵/۳ کی نسبت مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ بہرحال یہ ضروری ہے کہ مالکان زمین اپنے معاملات کو صرف شرعی ضوابط کے مطابق درست کرنے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ کھلے دل سے انصاف کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔
(۲) آپ کو اس بات کی نگرانی کرنے کا حق ضرور پہنچتا ہے کہ کاشتکار بٹائی سے پہلے مشترک غلہ میں بے جا تصرف نہ کریں اور مزارع کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں۔ لیکن اس نگرانی کو اس حد تک نہ بڑھنا چاہیے کہ مزارع کی حیثیت بالکل ملازم یا مزدور کی سی ہو کر رہ جائے اور آپ کا نگران عملہ بالکل اپنے حکم کے ماتحت ان سے کام لینے گے۔ اصولاً ایک مزارع آپ کا ملازم یا مزدور نہیں بلکہ ایک شریک کاروبار کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرنا چاہیے۔ مجھے مزارعین کی جو شکایت معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زمیندار اور اس کے ملازمین ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے ہیں اور ان کے ہر کام میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ میرا مدعا اسی طریقے کی اصلاح ہے۔
(۳) وراثت کی تقسیم کا سوال ان لوہو بہ اموال کے معاملے میں پیدا نہیں ہوتا جو کسی شخص نے اپنی زندگی میں (بشرطیکہ اندیشہ موت کی بنا پر نہ ہو) کسی کے دے دیے ہوں۔ لیکن جو ترکہ متوفی نے چھوڑا ہو وہ خواہ کم ہو یا زیادہ، اس کی تقسیم کا معاملہ وراثت کے قانون سے تعلق رکھتا ہے اور اس معاملے میں کوئی ذمہ داری متوفی پر نہیں ہے بلکہ یہ پسماندگان کا کام ہے کہ وہ اس ترکہ کو شریعت کے مطابق تقسیم کریں۔ بالفرض اگر دوسرے وارث ایسا کرنے پر راضی نہ ہوں تو آپ یہ کرسکتے ہیں کہ جو حصہ شرعاً آپ کو پہنچتا ہو، صرف اتنا ہی حصہ اپنے پاس رکھیں اور اس سے زائد جو کچھ ہو، اس کو متناسب طریقے سے ان وارثوں میں بانٹ دیں جو اپنے شرعی حصے سے محروم رہ گئے ہوں۔ ہبہ کے بارے میں یہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ آیا یہ ہبہ اس نیت سے تو نہ تھا کہ وراثت کو شریعت کے مطابق تقسیم ہونے سے روکا جائے۔
(ترجمان القرآن ذی الحجہ ۱۳۶۹ھ ، اکتوبر ۱۹۵۰ء)