یہ کتاب میرے اُن مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے 1936ء سے 1960ء تک مختلف زمانوں میں سود کے موضوع پر لکھے ہیں۔ اس سے پہلے “سود” کے نام سے میری ایک کتاب دو جلدوں میں طبع ہوئی تھی’ لیکن اس کی اشاعت ایسے حالات میں ہوئی کہ مجھے نہ اسے باقاعدہ مرتب کرنے کا موقع ملاا ورنہ میں اس کی ترتیب درست کرسکا۔ اس لیے عام ناظرین کو چاہے اس میں کچھ کام کا مواد ملا ہو’ مگر وہ منتشر صورت میں ملا۔ اب میں نے اس مواد کو دو مستقل کتابوں کی صورت میں نئے سرے سے مرتب کردیا ہے۔ ان میں سے ایک کتاب “اسلام اور جدید معاشی نظریات” کے نام سے کچھ مدت پہلے شائع ہوچکی ہے۔ اب یہ دوسری کتاب “سود” کے نام سے ان تمام مضامین پر مشتمل ہے جو اب تک میں نے اس موضوع کے متعلق لکھے ہیں۔ امید ہے کہ اس نئی صورت میں یہ کتاب ان لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہوگی جو اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
اس کے آخر میں تین ضمیمے بھی شامل کردیے گئے ہیں۔ ایک ضمیمہ اس مراسلت پر مشتمل ہے جو میرے اور سید یعقوب شاہ صاحب سابق آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان کے درمیان ہوئی تھی۔ اس میں ان لوگوں کے دلائل پوری طرح آگئے ہیں جو شخصی حاجات کے قرض اور بار آور اغراض کے قرضوں پر سود کو حلال کرنے کی کوشش کہاں تک صحیح ہے۔
دوسرا ضمیمہ میرے اس مقالے پر مشتمل ہے جو میں نے ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ لاہور کی ایک مجلس مذاکرہ میں سود کے موضوع پر پیش کیا تھا۔ اس میں اس مسئلے کے قریب قریب تمام اہم پہلوؤں پر ایک جامع بحث ناظرین کے سامنے آجائےگی۔
تیسرا ضمیمہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کے دو مضامین اور میری طرف سے ان کے جواب پر مشتمل ہے۔ اس میں اگرچہ عنوان بحث یہ ہے کہ مذہب حنفی کی رو سے دار الحرب میں سود کے جواز کا جو مسئلہ بیان کیا جاتا ہے’ اس کی صحیح تعبیر کیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں اسلام کے دستوری اور بین الاقوامی قانون پر بڑی اہم بحثیں آ گئی ہیں جو معاشیات کے علاوہ قانونی مسائل سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی ان شاء اللہ مفید ثابت ہوں گی۔
ابو الاعلیٰ لاہور
1960 23 جولائی