لیکن ان تمام تغیرات، تر میمات اور اصلاحات کے با وجو د ابھی تک نظام سرمایہ داری کے بنیادی عیوب جو ں کے تو ں با قی ہیں۔
ابھی تک بے روزگاری کا استیصال نہیں ہو سکا ہے ۔ بلکہ زمانہ جنگ کے سوا دوسرے تمام حالات میں یہ ایک مستقل مرض ہے جو نظام سرمایہ داری کے تحت سو سائٹی کو لگا رہتا ہے ۔ امریکہ جیسے ملک میں جس کی صنعت وحرفت اور پیداوار دولت آسمان کو پہنچی ہو ئی ہے ،جنگی مشاغل کم ہو تے ہی 32لاکھ سے زیادہ آدمی بیکار ہو گئے ۔اپریل و مئی 1949ء کے دومیان ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 35لاکھ سے اوپر ہو گئی،اور جون میں40 لاکھ تک جا پہنچی ۔تجارت وصنعت کی گرم بازاری کا زمانہ ہو یا سرد بازاری کا زمانہ،بے روزگاری،کم و بیش ہر حال میں،نظام سرمایہ داری کی جز ولا نیفک بنی رہتی ہے ۔
ابھی تک وہ عجیب و غریب معما جوں کا تو ں بے حل پڑا ہو ا ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ ایک طرف تو کروڑ ہا انسان ضروریات زندگی کے حاجت مند اور اسباب عیش کے خواہش مند موجو د ہیں،بے حدو حساب قدرتی وسائل موجو د ہیں جنہیں استعمال کرکے مزید اشیا تیار کی جا سکتی ہیں،اور لکھو کھا آدمی ایسے مو جود ہیں جنہیں کام پر لگا یا جا سکتا ہے ،لیکن دوسری نظام سرمایہ داری دنیا کی ضرورت اور امکانی کھپت سے بہت کم جو مال تیار کر تا ہے وہ بھی با زار میں پڑا رہ جاتا ہے کیو نکہ لوگوں کے پاس اس کو خریدنے کے لیے روپیہ نہیں ہے اور جب تھوڑا مال ہی نہیں نکلتا تو مزید آدمیوں کو کام پر لگانے اور قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کی ہمت نہیں کی جا سکتی ،اور جب آدمی کام پر ہی نہیں لگائے جاتے تو ان میں قوت خریداری پیدا ہو نے کی کو ئی صورت نہیں ۔
یہی نہیں بلکہ ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی علی حالہ قائم ہے کہ ہر سال بہت بڑی مقدار میں تیار کیا ہو ا مال اور پیدا کیا ہو اغلہ اور پھل اور دوسرا سامان با زار میں لانے کی بجائے قصدا برباد کر دیا جاتا ہے ۔ورآنحا لیکہ کروڑوں آدمی ان اشیاء کے طالب موجو د ہو تے ہیں ۔سرمایہ دار ان چیزوں کو غارت کر دینا اور اس غارت گری پر لا کھوں دوپے صرف کر دینا زیا دہ پسند کرتا ہے ،بہ نسبت اس کے کہ انہیں با زار میں لا کر ان کی قیمتیں گھٹائے اور انہیں سستے داموں حاجتمند انسانوں تک پہنچا دے ۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ریاست، سو سائٹی،مالدار طبقہ،غرض کو ئی بھی اپنے آپ کو ان لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی کفالت اور دستگیری کا دمہ دار نہیں سمجھتا جو قابل کا ر ہو نے کے باوجود بیکار ہو ں ،یا بھی قابل کار نہ ہو ئے ہوں،یا مستقل یا عا رضی طور پر نا کا رہ ہو گئے ہوں۔ اب بھی علاج کا مستحق وہی بیمار ہے جس کی جیب میں پیسہ ہو ،اب بھی تعلیم و تربیت کا مستحق وہی یتیم ہے جس کا باپ انشورنس پالیسی چھوڑ مرا ہو ۔اب بھی حوادث میں گر کر وہی شخص اٹھ سکتا ہے جو پہلے اچھے دن دیکھ چکا ہو اور ان دنوںمیں اس نے خود ہی برے وقت کے لیے سہارے کا سامان کر رکھا ہو ۔ غرض ابھی تک مصیبت زدہ،حاجت مند ،بے وسیلہ آدمی بجائے جود کسی کی بھی ذمہ داری میں نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ کہیں اتفاقا کسی کو کچھ مدد مل جا ئے ۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کا یہ عیب بھی دور نہیں ہو ا کہ مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھائی جاتی ہیں اور با قاعدہ منصوبے بنا بنا کر بعض اشیاء کا قحط پیدا کیا جاتا ہے ۔غائب سودے اور تجارتی قمار بازی کے مختلف طریقے اب بھی اجتماعی معیشت کے مزاج کو شب و روز درہم برہم کرتے رہتے ہیں۔لوگوں کو اب بھی کھلی چھٹی ملی ہو ئی ہے کہ اگر وہ ایک بڑا سر مایہ فراہم کر سکتے ہیں تو اپنے ذاتی نفع کے لیے جو مال چاہیں اور جتنا چاہیں تیار کر لیں اور معاشرے پر اس کو ٹھونسنے کی جس طرح چاہیں کوشش کریں،خواہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو ،بلکہ اس کے لیے وہ چیز مضر ہی کیوں نہ ہو ۔اب بھی یہ عجیب صورت حال رات دن مشاہدے میں آ رہی ہے کہ معاشرے کی نہا یت اہم اور سخت ضرورتیں تو رکی پڑی ہیں مگر محنت اور سرمایہ عیش وعشرت کے سامان پر ،شہوات نفس کے کھلونوں پر اور خوشحالی کے چونچلوں پر بے تحاشا صرف ہو رہا ہے ۔اب بھی صنعت اور تجارت کے بادشاہ اور مالیات کے شہشناہ اپنی اغراض کے لیے وہ کھلی اور چھپی ریشہ دوانیاں کیے جا رہے ہیں جو بین الاقوامی کش مکش،رقابت اور جنگ کی موجب ہو تی رہتی ہیں ۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری میں معاشرے اور ریاست کی تکمیل ساہو کا ر (بینکر ) کے ہاتھ میں ہے
اور وہ ساری اجتماعی قدروں کو شرح سود کے معیار پر جانچ رہا ہے اور اسی محور پر ان کو گھما رہا ہے ۔یہ فیصلہ وہ کر تا ہے کہ سرما یہ کو کن کاموں پر خرچ ہو نا چاہیے اور کن پر نہ ہو نا چاہیے اور اس فیصلے کے لیے اس کے پاس معیار یہ نہیں کہ معاشرے کے لیے ضروری اور مفید کون سے کام ہیں بلکہ یہ ہے کہ بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زائد نفع کن کاموں میں ہے ۔اس معیار کے لحاظ سے اگر آب رسانی کی بہ نسبت شراب رسائی زیادہ نفع آور ہو گی تو وہ بلا تا مل عوام الناس کو صاف پانی کے لیے ترستا چھوڑ کر عیاشوں کوشراب پلانے کی فکر میں لگ جا ئے گا ۔
ابھی تک نظام سرمایہ داری کو وہ بیماری بھی لگی ہو ئی ہے جیسے “کاروبار کا چکر”(trade cycle)کہتے ہیں،جس میں ہر چند سال کی گرم بازاری کے بعد دنیا معیشت پر کساد بازاری کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔کاروبار کی دنیا پوری تیز رفتاری کے ساتھ مزے سے چل رہی ہو تی ہے کہ یکا یک تجار محسوس کرتے ہیں کہ جو مال ان کے گوداموں میں آ رہا ہے وہ منا سب رفتار سے نکل نہیں رہا۔وہ ذرا فرمائشیں روکتے ہیں ۔صناع یہ حال دیکھ کر ذرا مال کی تیاری سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور پہلے کا دیا ہو ا بھی واپس مانگنے لگتا ہے ۔کاروبار بند ہو نے شروع ہو تے ہیں۔بے روزگاری بڑھتی ہے ۔ قیمتیں گرنی شروع ہو تی ہیں۔ تا جر اور گا ہک مزید قیمتیں گرنے کی امید پر فرمائش اور خریداری سےہا تھ روکتے ہیں ۔ چلتے ہو ئے کارخانے بھی پیداوار کم کر دیتے ہیں۔ بے روزگاری اور زیا دہ بڑھ جاتی ہے ۔حکومتیں آمدنی گھٹتی دیکھ کر مصارف میں تخفیف کرنے لگتی ہیں۔ کساد بازاری میں مزید اصافہ ہو جاتا ہے ۔اس طرح ہر قدم جو پچھے ہٹتا ہے ،کئی قدم اور پچھے ہٹنے کا سبب بنتا چلا جاتا ہے ۔یہا ں تک کہ جب قطعی اور کلی دیوا لہ کی سرحد قریب آجاتی ہے تو یکایک رخ بدلتا ہے ، آہستہ آہستہ چڑھاؤ شروع ہو تا ہے ، اور پھر گرم بازاری کا دور آ جاتا ہے ۔یہ چکر نظام سرمایہ داری کے لیے ایک مستقل مرض بن چکا ہے جس کا ابھی تک کو ئی علاج شروع نہیں ہو ا۔
یہ اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے عیوب آج کی مقید اور اصلاح یافتہ سرما یہ داری میں بھی اسی طرح موجو د ہیں جس طرح کے انیسویں صدی کی بے قید اور بد اطوار سرمایہ داری میں پائے جاتے تھے ۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ جمہوریت نے اس نظام کے اصل اسباب خرابی کو سمجھ کر حکمت کے ساتھ انھیں دور کرنے کی کو ئی تدبیر نہیں کی ہے ،بلکہ جو کچھ ہو ا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جتنا جتنا محنت پیشہ عوام کا دباؤ پڑتا گیا ہے ، یا اشتراکیت کا خطرہ بڑھتا گیا ہے ،بورژوا طبقے اپنے طریقوں میں ایسی ترمیمات کرتے چلے گئے ہیں جن سے عوام کی شکا یا ت اس حد تک ہلکی پڑ جائیں کہ اشتراکی لو گ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔