عام طور پر سود کے متعلق اسلامی قانون کے احکام کو سمجھنے میں جو غلطی واقع ہو رہی ہے اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ معاشی نظام جس کو اسلام نے قائم کیا تھا درہم برہم ہوچکا ہے’ اس کے اصول و نظریات بھی دلوں سے محو ہوگئے ہیں’ اور ہمارے گردو پیش کی دنیا پر ایک ایسا نظام پوری طرح حاوی ہوگیا ہے جس کی بنیاد “سرمایہ داری ” کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت نہ صرف عملاً ہم پر محیط ہے بلکہ ہمارے دل و دماغ پر بھی اس کے اصول و نظریات چھا گئے ہیں۔ اس لیے جب کسی معاشی مسئلہ پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر وہی ہوتا ہے جو سرمایہ داری کا نقطۂ نظر ہے۔ ہماری بحث و تحقیق کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہم پہلے معاشیات کے سرمایہ دارانہ نظریات اور اصولوں کو مان لیتے ہیں اور اس کے بعد کسی معاشی طریقہ کے جواز و عدم جواز پر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اگر تھوڑی سی سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ تحقیق کا یہ طریقہ اصلاً غلط ہے۔ اسلام کا نظمِ معیشت اپنے نظریے اور اپنے اصول میں سرمایہ داری کے نظمِ معیشت سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں۔ دونوں کی روح جُدا جُدا ہے۔ دونوں کے مناہج علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اب اگر کسی مسئلہ کے متعلق سرمایہ داری کے اصول و نظریات کو تسلیم کرکے اسلام کے معاشی احکام میں سے کسی حکم پر نظر ڈالی جائے گی تو لا محالہ یا تو وہ بالکل ہی غلط نظر آئے گا یا اس میں ایسی ترمیم کردی جائے گی جس سے وہ اسلامی قانون کے اصول سے ہٹ کر بالکل سرمایہ داری کے قالب میں ڈھل جائے گا اور اس میں نہ اسلامی روح باقی رہے گی’ نہ اسلامی قانون کے اغراض و مقاصد اس سے حاصل ہوسکیں گے’ اور نہ وہ اپنے جوہر میں حقیقۃً ایک اسلامی حکم ہوگا۔
یہی بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے سود کے معاملہ میں ہمارے جدید معاشی مفکرین اسلامی احکام کو سمجھنے اور ان کے اغراض و مصالح کا ادراک کرنے میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ اسلام کا معاشی نظام کن اصولوں پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں’ اس کی روح کیا ہے’ سود کو اس نے کیوں حرام قرار دیا ہے’ سودی لین دین کی مختلف اشکال میں علت حرمت کیا شے ہے اور جن معاملات میں یہ علت پائی جاتی ہے ان کو اسلامی نظمِ معیشت میں کھپا دینے سے کیا قباحت واقع ہوتی ہے۔ ان تمام اساسی امور سے بیگانہ ہوکر جب وہ کلیۃً سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود کے متعلق اسلامی قانون پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کو درحقیقت سود کی حرمت کے لیے کوئی دلیل ہی ہاتھ نہیں آتی۔ کیونکہ سود تو سرمایہ داری کی جان اور اس کی روحِ رواں ہے۔ اس کے بغیر سرمایہ داری کا کاروبار چل ہی نہیں سکتا’ اور کسی ایسے نظامِ معاشی کا سود سے خالی ہونا غیر ممکن ہے جس کی عمارت سرمایہ داری کے اصولوں پر قائم ہو۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ علمی اور عملی حیثیت سے یہ حضرات اسلام سے منحرف ہوچکنے کے باوجود اعتقادی حیثیت سے بدستور اس کے پیرو ہیں اور قصداً اس کے دائرے سے نکلنا نہیں چاہتے’ اس لیے عقیدہ کی بندش تو ان کو مجبور کرتی ہے کہ سود کی حرمت سے انکار نہ کریں مگر ان کا علم اور عمل ان کو مجبور کرتا ہے کہ سود کے متعلق اسلامی احکام کی بندشوں کو توڑ دیں۔ دل و دماغ کی یہ کشمکش ایک مدت سے جاری ہے اور اب اس میں مصالحت کی آسان صورت یہ نکالی گئی ہے کہ اسلامی احکام کی تعبیر اس طرح کی جائے کہ سود ایک اسم بے مسمیٰ ہونے کی حیثیت سے تو بدستور حرام کا حرام رہے’ مگر نظام سرمایہ داری میں اس کے جتنے مسمیٰ پائے جاتے ہیں وہ قریب قریب سب حلال ہوجائیں۔ زیادہ سے زیادہ جس چیز کے خلاف ان کو سرمایہ داری کے اصولوں سے کوئی دلیل ہاتھ آتی ہے وہ مہاجنی سود (یوژری) ہے’ لیکن اس کو بھی کلیۃً مسدود کردینے کی کوئی وجہ وہ نہیں پاتے۔ ان کے نزدیک ضرورت صرف اس کی تحدید کی ہے اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سود کی فی صدی شرح ناقابل ادا نہ ہو’ اور کسی حال میں سود در سود (اضعافاً مضاعفۃ) تک نوبت نہ پہنچے۔
یہ ایک دھوکا ہے جس میں یہ حضرات بغیر سمجھے بوجھے مبتلا ہوگئے ہیں۔ بیک وقت دو مخالف سمتوں میں سفر کرنے والی کشتیوں میں سوار ہونا کسی مرد عاقل کا کام نہیں ہوسکتا۔ا گر بے خبری کی وجہ سے اس نے ایسا کیا بھی ہو تو ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جونہی اس کو اپنی غلطی پر تَنَبُّہ ہو’ وہ اپنے لیے دونوں کشتیوں میں سے ایک کو پسند کرکے دوسری کشتی سے فوراً پاؤں کھینچ لے۔ سود کے حلال و حرام ہونے کی بحث اور اس کے حدود کی تعیین تو بعد کی چیز ہے۔ سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ اسلامی نظمِ معیشت اور سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت کے اصولی اور روحی فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں اور قرآن و حدیث کے احکام پر غور کرکے ان اصول و قواعد سے باخبر ہوجائیں جن پر اسلام نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک متوسط نظم معیشت قائم کیا ہے۔ اس تحقیق سے آپ پر خود بخود منکشف ہوجائے گا کہ اسلام جس ڈھنگ پر انسان کے معاشی معاملات کی تنظیم کرتا ہے اس میں صرف یہی نہیں کہ سود کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے’ بلکہ وہ سرےسے اس نظریہ اور اس ذہنیت اور ان معاشی حالات ہی کا استیصال کردیتا ہے جن کی وجہ سے سودی معاملات کی مختلف صورتیں وجود میں آتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کے لیے ناگزیر ہوگا کہ دو راہوں میں سے ایک راہ کا انتخاب کرلیں۔ ایک راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معیشت کو رد کرکے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے اصولوں پر ایمان لے آئیں۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے اصول اور احکام میں ترمیم کرنے کی زحمت ہی نہ اٹھانی پڑے گی۔ بلکہ آپ کے لیے سیدھا اور صاف راستہ یہ ہوگا کہ اس کے اتباع سے انکار کردیں۔ دوسری راہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے اصولِ معاشی کو صحیح سمجھیں اور سود کو اس کی تمام صورتوں کے ساتھ علی وجہ البصیرت حرام جانیں۔ مگر سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں گھر جانے کے باعث اپنے آپ کو اس حرام چیز سے محفوظ رکھنے میں قاصر پائیں تواس صورت میں آپ کو سود کھانا اور کھلانا چاہیں تو کھائیے اور کھلائیے۔ کیونکہ ہر گناہ کرنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ جرأت آپ کبھی نہیں کر سکتے کہ سود کو حلال کرکے کھائیں یا کھلائیں اور اپنے ضمیر پر سے اکل حرام کے بار کو ہلکا کرنے کے لیے اس چیز کو پاک کرنے کی کوشش کریں جس کو خدا اور اس کے رسولﷺ نے ناپاک قرار دیا ہے۔ ایک شخص حق رکھتا ہے کہ علانیہ اسلام کے قانون کو رد کرکے کسی دوسرے قانون کی پیروری اختیار کرلے۔ اور بدرجۂ آخر اس کو یہ حق حاصل ہے کہ اسلامی قانون کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ماتحت ایک گناہ گار بندہ بن کر رہنا پسند کرے یا نامساعد حالات میں مجبوراً ایسا بن جائے۔ لیکن کسی حال میں یہ حق تو کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ اسلامی قانون کو جس غیر اسلامی قانون سے چاہے بدل دے اور پھر دعویٰ کرے کہ بدلا ہوا قانون ہی در اصل اسلام کا قانون ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم ان مباحث کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔