انشورنش بیمہ کا جواز و عدم جواز

سوال: انشورنس کے مسئلے میں مجھے تردد لاحق ہے، اور صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکا کہ آیا بیمہ کرانا اسلامی نقطہ نظر سے جائز ہے یا ناجائز؟ اگر بیمے کا موجودہ کاروبار ناجائز ہو تو پھر اسے جائز بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہے۔ اگر موجودہ حالات میں ہم اسے ترک کردیں تو اس کے نتیجے میں معاشرے کے بہت سے افراد بہت سے فوائد سے محروم ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں یہ کاروبار جاری ہے۔ ہر قوم وسیع پیمانے پر انشورنس کی تنظیم کرچکی ہے اور اس سے مستفید ہو رہی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک اس بارے میں تامل اور تذبذب پایا جاتا ہے۔ آپ اگر اس معاملے میں صحیح صورت حال تک رہنمائی کریں تو ممنون ہوں گا۔

جواب: انشورنس کے بارے میں شرع اسلامی کی رو سے تین اصولی اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اسے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
اول کہ یہ انشورنس کمپنیاں جو روپیہ پریمیم (Premium) کی شکل میں وصول کرتی ہیں، اس کے بہت بڑے حصے کو سودی کاموں میں لگا کر فائدہ حاصل کرتی ہیں اور اس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ آپ سے آپ حصہ دار بن جاتے ہیں۔ جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے آپ کو یا اپنی کسی چیز کو ان کے پاس انشور کراتے ہیں۔
دوم یہ کہ موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں جو رقم دینے کی ذمہ داری کمپنیاں اپنے ذمہ لیتی ہیں، ان کے اندر قمار کا اصول پایا جاتا ہے۔
سوم یہ کہ ایک آدمی کے مرجانے کی صورت میں جو رقم ادا کی جاتی ہے، اسلامی شریعت کی رو سے اس کی حیثیت مرنے والے کے ترکے کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ مگر یہ رقم ترکے کی حیثیت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ اس شخص یا اشخاص کو مل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈروں نے وصیت کی ہو۔ حالاں کہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت ہی نہیں کی جاسکتی۔
رہا یہ سوال کہ انشورنس کے کاروبار کو اسلامی اصولوں پر کس طرح چلایا جاسکتا ہے تو اس کا جواب اتنا آسان نہیں جتنا یہ سوال آسان ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ماہرین کی ایک مجلس جو اسلامی اصول کو بھی جانتی ہو اور انشورنس کے معاملات کو بھی سمجھتی ہو، اس پورے مسئلے کا جائزہ لے اور انشورنس کے کاروبار میں ایسی اصلاحات تجویز کرے جن سے کاروبار چل بھی سکتا ہو اور شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔ جب تک یہ نہیں ہوتا تو ہمیں کم از کم یہ تسلیم تو کرنا چاہیے کہ ہم ایک غلط کام کر رہے ہیں۔ غلطی کا احساس بھی اگر ہم میں باقی نہ رہے تو پھر اصلاح کی کوشش کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔
بے شک موجودہ زمانے میں انشورنس کی بڑی اہمیت ہے، اور ساری دنیا میں اس کا چلن ہے مگر نہ اس دلیل سے کوئی چیز حلال ہوسکتی ہے اور نہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب حلال ہے یا اسے اس بنا پر حلال ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس کا چلن ہوگیا ہے۔ ایک مسلمان قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم جائز و ناجائز میں فرق کریں اور اپنے معاملات کو جائز طریقوں سے چلانے پر اصرار کریں۔
(ترجمان القرآن۔ اگست ۱۹۶۲ء)

FAQs