ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افراد قوم میں گردش دینے اور مالداروں کے مال میں ناداروں کو حصہ دار بنانے کا انتظام کیا ہے ،جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں ۔دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے تقسیم ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ.
وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا (بنی اسرائیل۔29) ” نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سےباندھے رکھ( کہ کھلے ہی نہیں )اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہے۔”
وَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۰۰۶۷(الفرقان۔67 ) “اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں ۔”
اس تعلیم کی منشا ءیہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسا ئل کی حد میں رہ کرخرچ کرے ۔نہ اس قدر حد سے تجاوز کر جائے کہ اس کا خرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے ۔یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے ۔دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے ،حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کے قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کیے کرتو توں سے فقراء ومساکین کے زمرہ میں شامل کردے ۔نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی وسائل جس قدر خرچ کرنے کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر وہ اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنے عیش وآرام اور تزک واحتشام پر صرف کردے، درآں حا لیکہ اس کے عزیز،قریب دوست ،ہمسائے مصبیت کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔اس قسم کی خود غرضا نہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے-
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۰۰۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ۠ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ١ؕ وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۰۰۲۷(بنی اسرائیل۔26۔27) “اور اپنے رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو ۔ فضول خرچی نہ کر۔ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے ۔”
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفا نہیں کیا،بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتو ں کو روکنے کے لیے اصول بھی بنائے ہی ہیں،اور ایسے تمام طریقوں کا سدباب کرنے کی کو شش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔وہ جوئے کو حرام قرار دیتا ہے ۔شراب اور زنا سے روکتا ہے ۔لہوو لعب کی بہت سی مسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاع وقت اور ضیاع مال ہے ، ممنوع قرار دیتا ہے ۔موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے ،جہان انسان کا انہماک دوسری اخلا قی وروحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بد نظمی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے اور فی الواقع ہو جاتا ہے ۔جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پا بند بناتا ہے قیمتی ملبوسات،زرو جواہر کے زیورات،سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسرے مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کا جو دولت تمہارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پو ری کر سکتی ہے ، ان کی زندگی کے مایحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے ،اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین اور آرائش پر صرف کر دینا جما لیت نہیں،شقاوت اور بد ترین خود غرضی ہے۔غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زند گی ہے کہ اس میں انسان کی ضروریات اور خو اہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک اوسط درجہ کی آمدنی میں گزر بسر نہ کر سکتا ہو ،اور اسے اپنے دائرہ سے پاؤں نکال کر دوسروں کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے۔یااگر وا اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنا تمام مال خود اپنی ذات پر خرچ کردے اور اپنے بھائیوں کی مدد نہ کر سکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہو ں۔