:پہلا اعتراض
سورۃ البقرۃ میں سود کی حرمت سے متعلق آیات کا اطلاق فقراء و مساکین کے لیے ہے ‘نہ کہ اُن صنعت کاروں اور تا جروں کے لیے جو بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں۔
جواب :سورۃ البقرۃ آیت 278میں حکم ہے کہ: (وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا)’’چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی بچا ہے‘‘۔ اس حکم میں ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ ربا کس سے لینا جائز ہے اور کس سے لینا ممنوع ہے‘ بلکہ ہر قسم کے رباکی ممانعت کردی گئی ہے۔ آیت280میں فرمایا گیا :’’ قرض خواہ اگر تنگ دست ہو تو اس کو مہلت دو‘‘۔ اس سے یہ مراد لینا کہ قرض خواہ اسی صورت میں تنگدست ہو سکتا ہے کہ فقیر ہو‘ درست نہیں۔ یہ صورت کسی تاجر یا صنعت کا ر کے لیے بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا ما ل کاروبار میں لگا ہوا ہو اور فوری طور پر قرض کی واپسی اس کے لیے ممکن نہ ہو ۔ بلکہ مہلت کا معاملہ تو اسی کے لیے ہے جس کے معاشی حالات بہتر ہونے کی توقع ہو ۔ فقراء اور مساکین کے لیے تو زیادہ مناسب ہے کہ (اَنْ تَصَدَّ قُوْا خَےْرٌ لَّکُمْ) کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ان کا قرض معاف ہی کر دیا جائے۔ رباکی ممانعت سے متعلق جو آیات سورۃ البقرۃ میں نازل ہو ئیں ا ن میں سے آیت279 میں فر مایا گیا :(لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ)’’نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ لہٰذا سود کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے نوعِ انسانی پر ظلم ہو تا ہے۔ جو صنعت کار یا تاجر بینک سے بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں کیا وہ سود اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں ؟ نہیں‘ بلکہ وہ صنعتی طور پر تیار شدہ مال یا مالِ تجارت کی قیمت میں سود کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ لہٰذا اصل بوجھ تو خریداروں یعنی صارفین پر آتا ہے جن میں امراء اورغرباء سب ہی شامل ہوتے ہیں ۔ پھر کیا قرض لینے والے صنعت کاروں یا تاجروں کا نفع یقینی ہوتا ہے کہ وہ بینک کو لازماً قرض کے ساتھ اضافہ بھی ادا کریں؟ظلم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک فریق (یعنی بینک)کے نفع کی ضمانت ہو اور دوسرے کے نفع کی کوئی ضمانت نہ ہو۔ بینک صرف تجارتی اور صنعتی قرضوں پر ہی سود وصول نہیں کرتے بلکہ صرفی قرضوں پر بھی سود وصول کرتے ہیں۔مثلاً حکومت بینکوں سے جو قرض لیتی ہے ان میں سے بڑا حصّہ دفاع اور غیرترقیاتی کاموں کے لیے ہوتا ہے۔ اسی طرح عام شہری بھی بینکوں سے مکانات کی تعمیر ‘ سواریوں کے حصول ‘ گھریلو اثاثہ جات کی خریداری اور شادی بیاہ کی رسومات وغیرہ کے لیے قرض لیتے ہیں۔
:دوسرا اعتراض
سورۂ آل عمران آیت 130 میں کہا گیا کہ دگنا چوگناسودنہ لو۔ گویا منا سب سود لینا جائز ہے۔
جواب :سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت جنگِ اُحد کے بعد3ہجری میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں دیا گیا حکم عبوری دَور کے لیے تھا۔ سود کی ممانعت کا حتمی حکم 9ہجری میں سورۃ البقرۃ آیات 280-275 میں نازل ہوا۔سورۂ آل عمران کی اس آیت میں عبوری دَور کے لیے حکم دیا گیا تھا کہ سود مرکب یعنی سود دَر سود لینا چھوڑ دو ۔ کسی ایسے حکم کو جو عبوری دَور کے لیے ہو ‘قانون یا دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔ مثلاً شراب کی حرمت کے حوالے سے کوئی سورۃ النساء کی آیت (لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی)’’نماز کے قریب مت جاؤ جبکہ تم نشے کی حالت میں ہو‘‘ کو دلیل نہیں بنا سکتا کہمیں اس آیت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے صرف نمازکے اوقات میں شراب نوشی سے اجتناب کروں گا ۔سود کی ممانعت کے حوالے سے حتمی حکم سورۃ البقرۃ آیت 278میں ہے کہ: (وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا)’’جو کچھ سود میں سے رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو‘‘ ۔ قرض دار صرف اصل زر واپس لینے کا حق دار ہے‘ جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت 279 میں فرمایا گیا:(فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُم)یعنی تمہارے لیے صرف اصل زر ہے۔ اصل زر سے زائد جو بھی لیا جائے وہ ظلم ہے ‘جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا:(لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ)’’نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ مزید برآں آیت میں ’’بڑھتا چڑھتاسود نہ لو‘‘ کے الفاظ مرکب سود کی شناعت اور خباثت ظاہر کرنے کے لیے ہیں نہ کہ مناسب حد تک سود لینے کے جواز کے لیے۔ سورۃ المائدۃآیت44میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے میں خواہ کتنی ہی دنیا کمالی جائے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس آیت کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ کی آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت لینا حرام اورزیادہ قیمت لینا جائز ہے۔ سورۂ آلِ عمران آیت130 کو دلیل بنا کر اگر کوئی سودِ مفرد کوجائزسمجھنے لگے تو یہ بھی درست نہیں ‘کیوں کہ سود سے حاصل ہونے والی رقم کو دوبارہ قرض کے طور پر دینے سے سودِ مرکب ہی کی صورت پیدا ہوجائے گی ۔
:تیسرا اعتراض
بینکوں کا کام ربا نہیں بلکہ بیع کے زمرے میں آ تا ہے ‘جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔
جواب:بینک بیع یعنی تجارت نہیں کرتے بلکہ صرف قرض دیتے ہیں ۔ تجارت میں سرمائے اور اشیاء کا لین دین ہوتا ہے‘ نفع کے حصول کے لیے ذہنی و جسمانی محنت کرنا پڑتی ہے اور کسی وقت بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بینک جو قرض دیتا ہے اس میں یہ امور نہیں پائے جاتے۔ بینک دیے گئے قرض پرلازمی اضافہ کا طلب گار ہوتا ہے اوریہی ’’ربا‘‘ہے۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے الجامع الصغیر سے ربا کی تعریف کرتے ہوئے ارشادِ نبوی ؐ ‘نقل کیا ہے: (کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبَا )’’قرض پر لیا گیا اضافہ رِباہے۔ ‘‘ لہٰذا بینکوں کا کام بیع نہیں بلکہ رباکے زمرے میں آ تا ہے ۔ اس حقیقت کو وہ شخص بھی جانتا ہے جو بینکنگ کے لین دین کے بارے میں سطحی سی معلومات رکھتا ہے۔جو لوگ جانتے بوجھتے بینک کے ربا کو بیع قرار دے رہے ہیں ان کا ذکر سورۃ البقرۃ آیت 275میں اس طرح سے آیا ہے :(قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَےْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا)’’انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو ربا کی طرح ہے‘‘۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَےْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا)’’اوراللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔اگلی آیت میں اس طرح کی بات کہنے والوں کو ’’کَفَّار‘‘ کہا گیا ہے۔لہٰذا بقول مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اس طرح کا قول کفر پر دلالت کرتا ہے۔
:چوتھا اعتراض
تجارتی / صنعتی قرضوں پر سود ربا کے زمرے میں نہیں آتا ۔
جواب :قرض تجارتی ہو ‘ صنعتی ہو یا ذاتی ضرورت کے لیے ہو‘اگر اس کے معاملے میں مقروض سے اضافہ وصول کیا جا رہا ہے تو یہ رباہے اور مقروض پر ظلم ہے۔ صرفی قرضوں کی طرح تجارتی اور صنعتی قرضوں میں بھی دو اعتبارات سے ظلم کا اندیشہ ہوتا ہے
جو صنعت کار یا تاجر بینک سے سودی قرض لیتے ہیں وہ صنعتی طور پر تیار شدہ مال یا مالِ تجارت کی قیمت میں سود کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ اس سے جو مہنگائی ہوتی ہے اس کا بوجھ صارفین پر آتا ہے اور صنعتی یا تجارتی قرض لینے والے کو بعض اوقات نقصان ہو جاتا ہے ‘لیکن اسے بینک کو قرض کے ساتھ لازمی اضافہ پھر بھی ادا کر ناپڑتا ہے جو کہ ظلم ہے۔
:پانچواں اعتراض
اللہ تعالیٰ بھی فر ماتا ہے کہ مجھے قرض دو ‘ میں تمہیں بڑھا چڑ ھا کر لوٹاؤں گا ۔
جواب:اللہ کو دیے جانے والے قرض اور بندوں کو دیے جانے والے قرض میں فرق یہ ہے کہ بندہ محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے جبکہ اللہ ہر قسم کی احتیاج سے پاک ہے۔اللہ نے اپنے لیے قرض کی اصطلاح ایسے بندوں کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کی ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کی راہ میں انفاق کرتے ہیں۔ دراصل اللہ سود خوری کو ختم کرنے کے لیے بندوں کو حکم دیتاہے کہ فاضل سر ما یہ بجائے سود پر قرض دینے کے اللہ کی راہ میں خرچ کرو ۔ جو کوئی ایسا کرے گا وہ نوعِ انسانی کے لیے رحمت کا سامان کرے گا ‘ لہٰذااللہ اس خرچ کو اپنے ذمہ قرض قرار دے کرگویا یقین دہانی کراتا ہے کہ وہ اسے روزِ قیامت بڑھا چڑھا کر لوٹائے گا ۔ اللہ کے اس وعدے سے کسی بھی انسان پر ظلم نہیں ہوگا‘ جبکہ دنیا میں جو لوگ سودلیتے ہیں وہ در حقیقت نوعِ انسانی پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔
:چھٹا اعتراض
ربا کے فیصلے کو حکومتی مشینری کے ذریعے نا فذ کر نا سنت نبوی ؐ کے خلاف ہے۔
جواب :مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے معارف القرآن میں تحریر فرمایا ہے کہ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں سودکی حرمت کے قانون کو رائج کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قانون پوری انسانیت کی تعمیر اور صلاح و فلاح کے لیے ہے ‘لہٰذا اس کا اطلاق نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔ آپ ؐ نے فوری طور پر اپنے چچا حضرت عباسؓ کے سود کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ سود کی ممانعت کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال سنت کے خلاف ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ؒ نے تفہیم القرآن میں بیان فرمایا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت 279 کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم بن گیا۔عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے ‘ اُن کو نبیﷺ نے اپنے عُمّال کے ذریعے آگاہ فرما دیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔نجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خودمختاری دی گئی تو معاہدے میں تصریح کر دی گئی کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے تو معاہدہ فسخ ہو جائے گا اور ہمارے تمہارے درمیان حالتِ جنگ قائم ہو جائے گی۔ آپ ؐ نے جب اہلِ طائف سے امن کا معاہدہ کیا تو اس میں سودی لین دین کے خاتمے کی شرط لگائی۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا قول ہے کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے ( ابن کثیر)۔
:ساتواں اعتراض
نبیﷺ کے زمانے اور ہمارے زمانے کے سود میں فرق ہے۔ اُس زمانے میں کاروباری سود نہ تھا۔
جواب :اسلام جب کسی شے کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیتا ہے جو مستقبل میں پیش آسکتی ہیں۔چنانچہ کیا شراب کی نئی اقسام ‘جوئے کے نئے طریقے ‘ فحاشی کی جدید شکلوں اورسُوَروں کی نئی اقسام کو صرف اس بنیاد پر جائز قرار دیا جاسکتا ہے کہ نبیﷺکے زمانے میں یہ سب موجود نہ تھے؟البتہ نبیﷺ کے زمانے میں بھی کاروبار ی مقاصد کے لیے سودی قرضوں کا لین دین ہوتا تھا۔طائف کے علاقے میں یہ کاروبار بہت پڑے پیمانے پر ہوتا تھا۔نبی کریمﷺ کی نبوت کے ظہور سے قبل حضرت عباس بن عبدالمطلب ‘ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم سود پر کاروباری قرضے دیا کرتے تھے۔
:آٹھواں اعتراض
باہمی رضامندی کی بنا پر سودی لین دین ممنوع نہیں۔
جواب :قرض دار اور قرض خواہ کسی معاملے پر ( چاہے اس میں ایک فریق کو تو نفع کی ضمانت ہے اور دوسرے کے لیے ایسی کوئی ضمانت نہیں) اگر باہم رضامند ہو بھی جائیں تو بھی یہ رضامندی سودی لین دین کو جائز نہیں قرار دے سکتی۔باہمی رضامندی اسلام میں کسی شے کے حلا ل وحرام ہونے کا معیار نہیں۔کیا دو افراد کے باہم راضی ہونے پر ہم جنس پرستی یا زنا کو جائز قرار دیا جاسکتاہے؟
:نواں اعتراض
قرض کی ادائیگی میں مزید مہلت کے عوض لیا جانے والا اضافہ ’’ربا‘‘کہلاتاہے
جواب :یہ ربا کی خود ساختہ تعریف ہے کہ’’ قرض کی ادائیگی میں مزید مہلت کے عوض لیا جانے والا اضافہ ربا کہلاتاہے‘‘۔ قرض پر لیا جانے والا کوئی بھی اضافہ رباہے اور اس کا مہلت سے کوئی تعلق نہیں۔ سورۃ البقرۃ آیت 279 میں فرمایا گیا: (وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ) یعنی اگر تم سود سے توبہ کرلو تو تمہارے لیے صرف اصل زر ہے۔ اس سے قبل نبی اکرمﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ: (کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِبًا) یعنی قرض پر لیا گیا اضافہ رباہے۔ اس ارشادِ نبویﷺ کی روشنی میں فقہاء نے ربا کی تعریف یوں بیان کی ہے : (ھُوَ الْقَرْضُ الْمَشْرُوْطُ فِیْہِ الْاَجَلُ وَ زِیَادَۃُ مَالٍ عَلَی الْمُسْتَقْرِضِ) ’’ ایسا قرض جو کسی میعاد کے لیے اس شرط پر دیا جائے کہ مقروض اس کو اصل مال میں اضافہ کے ساتھ ادا کرے گا‘‘ ۔ ( امام جصّاص فی احکام القرآن)
:دسواں اعتراض
رباکے بارے میں شرعی عدالت کا فیصلہ نا قا بلِ عمل ہے اوریہ ملک میں انارکی کا باعث ہوگا ۔
جواب : یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا رباکے حوالے سے فیصلہ قرآن وحدیث کی روشنی میں شریعت کے عین مطابق ہے۔ یہ کہنا کہ شریعت کے مطابق فیصلے کا نفاذ نا قابلِ عمل ہے‘ شریعت پر عدم اعتماد اور کلمۂ کفر ہے۔ سورۂ آلِ عمران آیت 130 میں سود کی حرمت بیان کرنے کے بعد اگلی آیت میں حرمتِ سود کا حکم نہ ماننے والوں کو کافر کہا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشہور مفسر قرآن امام قرطبی ؒ کا قول ہے: ’’سود کو حلال سمجھنے والے مرتد اور صرف لینے والے اسلامی حکومت کے باغی ہیں‘‘۔ لہٰذاسود کے خاتمہ سے متعلق قرآن وحدیث کے احکامات کو ناقابلِ عمل کہنا نہ صرف کفر ہے‘ بلکہ انسانوں کی طرف سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان ہے۔ سود کے خاتمے سے ملک میں انارکی نہیں پھیلے گی ‘بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ کی وجہ سے زمین اور آسمان سے اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ظاہر ہوں گی (المائدۃ آیت66)۔ مسلمانانِ پاکستان کی اکثریت کی بے عملی کی وجہ دین کے احکامات سے بغاوت نہیں بلکہ لاعلمی اور غفلت ہے۔ اگر تسلسل کے ساتھ تمام ذرائع ابلاغ سے سود کی حرمت ‘ دنیا میں سود کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خباثتیں اور آخرت میں اس گناہ کی بری سزا سے آگاہ کیا جاتا رہے تو لازماً لوگوں کی دینی غیرت بیدار ہوگی اور وہ اس گناہ سے بچنے کا عزمِ مصمم کرلیں گے۔ سود کے خاتمہ سے ملک میں انارکی نہیں پھیلے گی بلکہ کئی طرح کے مسائل حل ہوں گے۔ مثلاً وفاقی بجٹ برائے سال 2003 – 2002ئمیں اندرونِ ملک سود کی ادائیگی کے لیے 191.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جوکہ کل بجٹ کا25.8فیصد ہیں۔ اگر سودی لین دین کو ختم کردیا جائے تو ہم کتنے بڑے قرض کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں گے اوربجٹ کا 162ارب کا خسارہ نہ صرف پورا ہو جائے گا بلکہ اضافی رقم بھی دستیاب ہوگی۔
:گیارہواں اعتراض
علمائے کرام متبادل کے طور پر بلاسود معیشت کا ایک نظام قائم کرکے دکھائیں۔
جواب : غیر سودی نظامِ معیشت کے قیام کے لیے گزشتہ برسوں میں حکومتِ پاکستان کی زیرِ نگرانی کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں‘جن کی تیار کردہ رپورٹس حکومت کے پاس موجودہیں۔ان کمیٹیوں میں علمائے کرام اور ماہرین معیشت دونوں شامل تھے۔ لہٰذا نظری سطح پر علماء و ماہرین نے حکومت کوغیر سودی معیشت کے نظام کے لیے رہنمائی فراہم کر دی ہے۔ جہاں تک غیر سودی معیشت کے نظام کے عملی نفاذ کا تعلق ہے تو یہ نظام حکومت کے زیرِ نگرانی ہی قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی حسبِ ذیل وجوہات ہیں : (i) اگر سرکاری سرپرستی میں سودی نظام جاری رہے اور غیر سرکاری طور پر غیر سودی نظامِ معیشت کو چلانے کی کوشش کی جائے تو یہ تجربہ ناکام ہوجائے گا۔غیر سودی معیشت میں نفع کے ساتھ نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ‘ لہٰذا عوام کی اکثریت کے سرمائے کا رُخ سودی معیشت کی طرف ہی ہوگااور غیر سرکاری طور پر قائم ہونے والا غیر سودی نظام ناکام ہوجائے گا۔
(ii) عوام الناس کی اکثریت سرکاری نگرانی میں قائم نظام پر اپنے سرمائے کی حفاظت کے حوالے سے زیادہ اعتماد کرتی ہے۔ غیر سرکاری مالیاتی کمپنیوں نے ماضی میں عوام کے اعتماد کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ لہٰذااب غیر سرکاری طور پر کسی مالیاتی نظام کو چلانا تقریباً ناممکن ہے۔ (iii) حکومت ہی کے اختیار میں وہ تمام وسائل اور ذرائع ہیں جن کے ذریعے خیانت اور دھوکہ دہی کی کوششوں کو روکا جاسکتا ہے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر سزا دی جاسکتی ہے۔ (iv) سود کا انسداد ازروئے قرآن و سنت ہر مسلمان کا فرض ہے۔ لہٰذا حکومت اس کی ذمہ داری صرف علمائے کرام پر نہیں ڈال سکتی ۔ دستورِ پاکستان کی دفعہ37 حکومتِ پاکستان کو پابند کرتی ہے کہ وہ جلد از جلد ملک کی معیشت کو سود سے پاک کرے۔ جب ملک میں دیگرتمام اجتماعی نظام حکومت کی نگرانی میں چل رہے ہیں تو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں غیر سودی معیشت کا نظام بھی نافذ کرے۔
:بارہواں اعتراض
جب تک معاشرہ اسلامی نہیں ہوتا معیشت سے سود کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔
جواب : یہ بات درست ہے کہ احکاماتِ شریعت پر عمل ‘ خواہ ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو‘تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں۔اسی لیے قرآن کریم میں جب بھی احکاماتِ شریعت کا بیان آتا ہے تو ساتھ ہی تقویٰ کی تلقین کی جاتی ہے۔ البتہ معاشرے کو اسلامی بنانے اور افراد میں تقو یٰ پیدا کرنے کی اوّلین ذمہ داری حکومت کی ہے۔سورۃ الحج آیت 41میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’اگر ہم اُن ( اہلِ ایمان)کو زمین میں حکومت عطا کردیں تو وہ نماز قائم کریں گے ‘ زکوٰۃادا کریں گے ‘ نیک کاموں کاحکم دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے ۔‘‘ جب حکومت ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بے حیائی اور حرام خوری کی طرف راغب کرنے والی نئی نئی اسکیموں کی نشر و اشاعت کررہی ہو تو افراد میں ایمان و تقویٰ کیسے پیدا ہوگا! ہمارے ملک کی اکثریت دین کی دشمن اورباغی نہیں‘ بلکہ ان کی بے عملی کی وجہ لا علمی ہے۔اگر تمام ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں احکاماتِ شریعت ‘ ان پر عمل کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تو لازماً معاشرے میں خداخوفی اور دین داری پیدا ہوگی اور معیشت سمیت ہر شعبے میں شریعت پر عمل کی راہ ہموار ہوگی۔
:تیرہواں اعتراض
سود اصل میں افراطِ زر کی وجہ سے روپے کی قدرمیں کمی کی تلافی کا ذریعہ ہے۔
جواب : دراصل افراطِ زر کی بنیادی وجہ بھی سود ہی ہے۔جیسا کہ گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا کہ سود ہی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ اور لوگو ں کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوتی ہے۔پھر یہ سود ہی ہے جو سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرکے اشیاء کی پیدائش پر قدغن لگا تا ہے‘ جس سے رسد میں کمی آتی ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ سود کے خاتمے کے بغیر افراطِ زر کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ بعض ماہرین کی رائے تھی کہ عمومی اضافے کے ذریعے افراطِ زر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ جن ملکوں نے افراطِ زر کا علاج عمومی اضافے میں سمجھا انہیں کامیابی تونہ ملی مگروہاں افراطِ زر میں اور اضافہ ہی ہوا ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ افراطِ زر صر ف قرض خواہ کو متأثر نہیں کرتا بلکہ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی متأثر کرتا ہے۔ معاشرتی عدل کا تقاضا ہے کہ تمام متأثرین کو تحفظ دیا جائے۔ لیکن اعتراض کرنے والے صرف سود خور سرمایہ داروں کے مفادات کا رونا روتے ہیں۔پھر سوچنے کی بات ہے کہ
کیا افراطِ زر مقروض کے کسی عمل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ سود لے کر اسے ہی سزا دی جائے؟ روپے کی قدر میں کمی کا سہارا لے کر جو لوگ سود خوری کا جواز فراہم کرتے ہیں کیاوہ اس بات پر راضی ہوں گے کہ جب قیمتوں میں کمی واقع ہوجائے توقرض دار سے کم رقم وصول کریں ؟ بلا سود قرض دینا ہمارے دین میں ایک نیکی ہے اور اگر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے قرض خواہ کو نقصان ہوتا ہے تو آخرت میں اس کا بھی اجر ملے گا۔ البتہ اگر قرض خواہ روپے کی قدر میں کمی کے نقصان سے بچنا چاہتا ہو تو علماء نے اس کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ قرض روپے کے بجائے کسی ایسی جنس‘ مثلاًسونے یا چاندی کی صورت میں دے دیا جائے‘ جس کی قدر مستحکم ہو۔