۱) اپنے سرکاری نوٹوں سے قومی قرضہ چکا دو۔ ضرورت کے مطابق نوٹ بنا لو۔
۲) جزوی ریزرو بینکنگ ختم کر دو۔ قرضہ چکانے کے لیے زیادہ نوٹ چھاپ لو۔ ان سے بینکوں کا اصلی ریزرو بڑھ جائے گا‘ یعنی وہ حکماً اپنا ریزرو بڑھائیں تا کہ قرضہ دے سکیں۔ اس طرح افراطِ زر بھی نہ ہوگا۔
۳) فیڈرل ریزرو ایکٹ 1913ء اور نیشنل بینکنگ ایکٹ 1864ء منسوخ کر دو ‘ تا کہ اختیارات حکومت کو لوٹ آئیں۔
۴) امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے الگ ہو جائے۔ وہ عام بینکوں کی طرح کام کریں۔
عالمی حکومت کی بجائے قومی حکومتیں قائم رکھیں تا کہ عام ضروریات پوری کر سکیں اور اپنی تاریخی اور تمدنی حیثیت برقرار رکھ سکیں۔ جس طرح خانداننوں کو برقرار رکھنا ضروری ہے اسی طرح قوموں کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
یو این او‘ ورلڈ بینک اور ورلڈ کورٹ کو یا تو ختم کر دیا جائے یا ان کی اس طرح اصلاح کی جائے کہ وہ قوموں کی آزادی ختم کیے بغیر مفید کام کر سکیں۔ ککیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ منی چینجرز کیا چاہتے ہیں؟ وال سٹریٹ کے سب سے بڑے بینک چیزمین ہٹن (Chase Manhattan) کے اس وقت کے چیئرمین راک فیلر نے کہا:
’’ہم زمین پر مکمل تبدیلی کے کنارے پر ہیں۔ ایک بڑا بحران اس کی ضرورت ہے ‘پھر قومیں نیا ورلڈ آرڈر قبول کریں گی‘‘۔
سوال صرف یہ ہے کہ وہ بحران کب ہوگا؟ کیا فوری دھماکے سے یا ٹیکس بڑھا کر‘ اور جاب ختم کر کے یا تدریجی کساد بازاری سے؟ حال ہی میں پوپ پائس ننے کہا:
’’ہمارے زمانے میں نہ صرف دولت اکٹھی ہو گئی ہے بلکہ بہت بڑی طاقت اور جابرانہ اقتصادی غلبہ چند ہاتھوں میں آگیا ہے۔ اس طاقت کا مقابلہ نہیں کیاکیا جا سکتا ‘کیونکہ ان کے پاس روپیہ ہے اور وہ اسے کنٹرول کرتے ہیں۔قرضہ دینے اور اس کا انتخاب بھی انان کے ہاتھ میں ہے۔ اس طرح اقتصادی جسم کو وہی خون سپلائی کرتے ہیں۔ گویا ان کے ہاتھ میں اقتصادیات کی روح ہے اس لیے کوئی ان کی مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتا‘‘۔
مقروض اقوام کیا کر سکتی ہیں؟
اگر ایک مقروض قوم اپنی معیشت میں بنیادی اصلاحات لانے میں ناکام رہتی ہے تو اسے قرض چکانے کے لیے لامحالہ ان پانچ چیزوں میں سے کوئی ایک راستہ اپنانا پڑے گا۔
۱) ایکسپورٹ بڑھا کر زیادہ زر مبادلہ حاصل کریں۔
۲) مزید قرضہ لے کر پچھلا قرضہ چکائے۔
۳) بیرونی قرضے چکانے سے انکار کر دیں۔ اس طرح اس پر تجارتی پابندی لگ سکتی ہے یا فوجی حملہ ہو سکتاہے۔ (صومالیہ‘ عراق اور بوسنیا میں یہ ہوا)
۴) قرضوں کو ناجائز قرار دے کر معاف کرائے۔
۵) نوٹ چھاپ کر قرضہ چکائے‘ مگر اس سے افراطِ زر پیدا ہوگا۔