اصلاح کی عملی صورت

اب ہمیں اس سوال پر بحث کرنی ہے کہ کیا فی الواقع سود کو ساقط کرکے ایک ایسا نظامِ مالیات قائم کیا جا سکتا ہے۔ جو موجودہ زمانے میں ایک ترقی پذیر معاشرے اور ریاست کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔

چند غلط فہمیاں

اس سوال پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض ایسی غلط فہمیوں کو صاف کردیا جائے جو نہ صرف اس معاملہ میں’ بلکہ عملی اصلاح کے ہر معاملہ میں لوگوں کے ذہنوں کو الجھایا کرتی ہیں۔
سب سے پہلی غلط فہمی تو وہی ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا سوال پیدا ہوا ہے۔ پچھلے صفحات میں عقلی حیثیت سے بھی یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ سود ایک غلط چیز ہے اور نقلی حیثیت سے بھی اس کا ثبوت پیش کردیا گیا ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہر قسم کے سود کو حرام کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں اگر مان لی جائیں تو اس کے بعد لوگوں کا پوچھنا کہ ” کیا اس کے بغیر کام چل بھی سکتا ہے؟ اور کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟” دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کوئی غلطی ناگزیر بھی ہے۔ اور کوئی راستی ناقابل عمل بھی پائی جاتی ہے۔ یہ در اصل فطرت اور اس کے نظام کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ایک ایسے فاسد نظامِ کائنات میں سانس لے رہے ہیں جس میں ہماری بعض حقیقی ضرورتیں غلطیوں اور بدکاریوں سے وابستہ کردی گئی ہیں۔ اور بعض بھلائیوں کے دروازے جان بوجھ کر ہم پر بند کردیے گئے ہیں۔ یا اس سے بھی گزر کر یہ بات ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتی ہے کہ فطرت خود اس قدر ٹیڑھی واقع ہوئی ہے کہ جو کچھ خود اس کے اپنے قوانین کی رو سے غلط ہے وہی اس کے نظام میں مفید اور ضروری اور قابل عمل ہے’ اور جو کچھ اس کے قوانین کی رو سے صحیح ہے وہی اس کے نظام میں غیر مفید اور ناقابل عمل ہے۔
کیا واقعی ہماری عقل اور ہمارے علوم اور ہمارے تاریخی تجربات مزاج فطرت کو اسی بدگمانی کا مستحق ثابت کرتے ہیں! کیا یہ سچ ہے کہ فطرت بگاڑ کی حامی اور بناؤ کی دشمن ہے۔ اگر یہ بات ہے تب تو ہمیں اشیاء کی صحت اور غلطی کے متعلق اپنی ساری بحثیں لپیٹ کر رکھ دینی چاہئیں اور سیدھی طرح زندگی سے استعفی دے دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بعد تو ہمارے لیے امید کی ایک کرن بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر ہماری اور کائنات کی فطرت اس سوء ظن کے لائق نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ اندازِ فکر چھوڑ دینا چاہیے کہ” فلاں چیز ہے تو بری مگر کام اسی سے چلتا ہے” اور “فلاں چیز ہے تو برحق مگر چلنے والی چیز نہیں ہے”۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو طریقہ بھی رواج پاجاتا ہے’ انسانی معاملات اسی سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور اس کو بدل کر کسی دوسرے طریقے کو رائج کرنا مشکل نظر آنے لگتا ہے۔ ہر رائج الوقت طریقے کا یہی حال ہے خواہ وہ طریقہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ دشواری جو کچھ بھی ہے تغیر میں ہے اور سہولت کی اصل وجہ رواج کے سوا کچھ نہیں مگر نادان لوگ اس سے دھوکا کھا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ جو غلطی رائج ہوچکی ہے انسانی معاملات بس اسی پر چل سکتے ہیں اور اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ قابل عمل ہی نہیں ہے۔

دوسری غلط فہمی اس معاملہ میں یہ ہے کہ لوگ تغیر کی دشواری کے اصل اسباب کو نہیں سمجھتے اور خواہ مخواہ تجویز تغیر کے سر پر ناقابل عمل ہونے کا الزام تھوپنے لگتے ہیں۔ آپ انسانی سعی کے امکانات کا بہت ہی غلط اندازہ لگائیں گے اگر رائج الوقت نظام کے خلاف کسی تجویز کو بھی ناقابل عمل سمجھیں گے۔ جس دنیا میں انفرادی ملکیت کی تنسیخ اور اجتماعی ملکیت کی ترویج جیسی انتہائی انقلاب انگیز تجویز تک عمل میں لاکر دکھا دی گئی ہو وہاں یہ کہنا کس قدر لغو ہے کہ سود کی تنسیخ اور زکوۃ کی تنظیم جیسی معتدل تجویزیں قابل عمل نہیں ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ رائج الوقت نظام کو بدل کر کسی دوسرے نقشے پر زندگی کی تعمیر کرنا ہر عمرو زید کے بس کا کام نہیں ہے۔ یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جن میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں۔

ایک یہ کہ وہ فی الحقیقت پرانے نظام سے منحرف ہوچکے ہوں اور سچے دل سے اس تجویز پر ایمان رکھتے ہوں جس کے مطابق نظام زندگی میں تغیر کرنا پیش نظر ہے۔
دوسرے یہ کہ ان میں تقلیدی ذہانت پائی جاتی ہو۔ وہ محض اس واجبی سی ذہانت کے مالک نہ ہوں جو پرانے نظام کو اس کے اماموں کی طرح چلا لے جانے کے لیے کافی ہوتی ہے’ بلکہ اس درجے کی ذہانت رکھتے ہوں جو پامال راہوں کو چھوڑ کر نئی راہ بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

یہ دو شرطیں جن لوگوں میں پائی جاتی ہوں وہ کمیونزم اور نازی ازم اور فاشزم جیسے سخت انقلابی مسلکوں کی تجاویز تک عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور ان شرطوں کا جن میں فقدان ہو وہ اسلام کے تجویز کیے ہوئے انتہائی معتدل تغیرات کو بھی نافذ نہیں کرسکتے۔

ایک چھوٹی سی غلط فہمی اس معاملے میں اور بھی ہے ۔ تعمیری تنقید اور اصلاحی تجویز کے جواب میں جب عمل کا نقشہ مانگا جاتا ہے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک عمل کی جگہ شاید کاغذ ہے حالانکہ عمل کاغذ پر نہیں زمین پر ہوا کرتا ہے۔ کاغذ پر کرنے کا اصل کام تو صرف یہ ہے کہ دلائل اور شواہد سے نظامِ حاضر کی غلطیاں اور ان کی مضرتیں واضح کردی جائیں اور ان کی جگہ جو اصلاحی تجویزیں ہم عمل میں لانا چاہتے ہیں ان کی معقولیت ثابت کردی جائے۔ اس کے بعد جو مسائل عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں کاغذ پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں کو ایک عام تصور اس امر کا دیا جائے کہ پرانے نظام کے غلط طریقوں کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ اور ان کی جگہ نئی تجویزیں کیونکر عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔ رہا یہ سوال کہ اس شکست و ریخت کی تفصیلی صورت کیا ہوگی’ اور اس کے جزوی مراحل کیا ہوں گے’ اور ہر مرحلے میں پیش آنے والے مسائل کو حل کیسے کیا جائے گا’ تو ان امور کو نہ تو کوئی شخص پیشگی جان سکتا ہے اور نہ ان کا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ اگر آپ اس امر پر مطمئن ہوچکے ہوں کہ موجودہ نظام واقعی غلط ہے اور اصلاح کی تجویز بالکل معقول ہے تو عمل کی طرف قدم اٹھائیے اور زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیجیے جو ایمان اور اجتہادی ذہانت رکھتے ہوں۔ پھر جو عملی مسئلہ جہاں پیدا ہوگا اسی جگہ وہ حل ہوجائے گا۔ زمین پر کرنے کا کام آخر کاغذ پر کر کے کیسے دکھایا جا سکتا ہے؟

اس توضیح کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس باب میں جو کچھ ہم پیش کریں گے وہ غیر سودی مالیات کا کوئی تفصیلی نقشہ نہ ہوگا بلکہ اس چیز کا صرف ایک عام تصور ہوگا کہ سود کو اجتماعی مالیات سے خارج کرنے کی عملی صورت کیا ہوسکتی ہے اور وہ بڑے بڑے مسائل جو اخراج سود کا خیال کرتے ہی بادیٔ النظر میں آدمی کے سامنے آ جاتے ہیں’ کس طرح حل کیے جا سکتے ہیں۔

اصلاح کی راہ میں پہلا قدم

پچھلے ابواب میں سود کی خرابیوں پر جو تفصیلی بحث کی گئی ہے اس سے یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں یہ سب خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرضِ حسن کیوں دے؟ اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے! اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کا ہاتھ کیوں بڑھائے؟ اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ ساہوکار کے حوالہ کردے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو؟ آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھرنے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں کرسکتے کہ نرے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعہ ہی سے آپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے۔ پھر یہاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض کھلی چھٹی دے رکھی ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور حکومت خود اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال اورچلا رہی ہے۔ اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی قسم کی جزوی ترمیمات اور فروع اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سد باب اگر ہوسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آ رہی ہے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظامِ مالیات بن کر تیار ہولے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہوجائے گا’ یا اسے قانوناً بند کردیا جائے گا’ وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سود ازروئے قانون جاری ہے’ جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کرکے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں’ جب تک ساہوکاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکٹھا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں۔ اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ غیر سودی نظام مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے۔ لہذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہولے جو موجودہ سودی نظام کی جگہ لے سکتا ہو’ تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آسکتی۔ یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اول قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کردیا جائے۔ پھر خود بخود غیر سودی نظامِ مالیات پیدا ہوجائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے’ آپ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائیگی۔

سود نفس انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے’ ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشے میں اس بلا کا استیصال نہیں کیا جا سکتا’ اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اسی سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے ۔ اسلام سودی کاروبار کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذہبی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے’ تمام سودی معاہدوں کو کالعدم ٹھہراتا ہے’ سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابلِ دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے’ اور اگر کہیں یہ کاروبار معمولی سزاؤں سے بند نہ ہو تو اس کے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائیداد تک کی سزائیں دیتا ہے۔ تیسری طرف وہ زکوۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کرکے ایک دوسرے نظامِ مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے’ اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تاکہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خواری کے موجب ہوتے ہیں’ اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہوسکے۔

انسداد سود کے نتائج

جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسدادکرنا چاہتا ہو اسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا ۔ سود کی یہ قانونی بندش’ جب کہ اس کے ساتھ زکوۃ کی تحصیل و تقسیم کا اجتماعی نظام بھی ہو’ مالیات کے نقطہ نظر سے تین بڑے نتائج پر منتج ہوگی۔

اس کا اولین اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوگا کہ اجتماع سرمایہ کی موجودہ فساد انگیز صورت ایک صحیح اور صحت بخش صورت سے بدل جائے گی۔
موجودہ صورت میں تو سرمایہ اس طرح جمع ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی نظام بخل اور جمعِ مال کے اس میلان کو جوہر انسان کے اندر طبعاً تھوڑا بہت موجود ہے’ اپنی مصنوعی تدبیروں سے انتہائی مبالغے کی حد تک بڑھا دیتا ہے’ وہ اسے خوف اور لالچ’ دونوں ذرائع سے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم حصہ خرچ اور زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرے۔ وہ اسے خوف دلاتا ہے کہ جمع کر کیونکہ پورے معاشرے میں کوئی نہیں ہے جو تیرے برے وقت پر کام آئے۔ وہ اسے لالچ دیتا ہے کہ جمع کر کیونکہ اس کا اجر تجھے سود کی شکل میں ملے گا۔ اس دوہری تحریک کی وجہ سے معاشرے کے وہ تمام افراد جو قدرِ کفاف سے کچھ بھی زائد آمدنی رکھتے ہیں خرچ روکنے اور جمع کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منڈیوں میں اموال تجارت کی کھپت امکانی حد سے بہت کم ہوتی ہے۔ اور آمدنیاں جتنی کم ہوتی جاتی ہیں’ صنعت و تجارت کی ترقی کے امکانات بھی اس کے مطابق کم اور اجتماع سرمایہ کے مواقع کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح چند افراد کے اندوختوں کا بڑھنا اجتماعی معیشت کے گھٹنے کے موجب ہوتا ہے۔ ایک آدمی ایسے طریقہ سے اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں میں اضافہ کرتا ہے جس سے ہزار آدمی سرے سے کچھ کمانے ہی کے قابل نہیں رہتے کجا کہ کچھ پس انداز کرسکیں۔
اس کے برعکس جب سود بند کردیا جائے گا اور زکوۃ کی تنظیم کرکے ریاست کی طرف سے معاشرے کے ہر فرد کو اس امر کا اطمینان بھی دلا دیا جائے گا کہ برے وقت میں اس کی دست گیری کا انتظام موجود ہے تو بخل و زر اندوزی کے غیر فطری اسباب و محرکات ختم ہوجائیں گے۔ لوگ دل کھول کر خود بھی خرچ کریں گےاور نادار افراد کو بھی زکوۃ کے ذریعہ سے اتنی قوت خریداری بہم پہنچاویں گے کہ وہ خرچ کریں۔ اس سے صنعت و تجارت بڑھے گی۔ صنعت و تجارت کے بڑھنے سے روزگار بڑھے گا۔ روزگار بڑھنے سے آمدنیاں بڑھیں گی۔ ایسے ماحول میں اول تو صنعت و تجارت کا اپنا منافع ہی اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کا خارجی سرمایہ کی اتنی احتیاج باقی نہ رہے گی جتنی اب ہوتی ہے۔ پھر جس حد تک بھی اسے سرمایہ کی حاجت ہوگی وہ موجودہ حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ سہولت کے ساتھ بہم پہنچ سکے گا۔ کیونکہ اس وقت پس انداز کرنے کا سلسلہ بالکل بند نہیں ہوجائے گا’ جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں’ بلکہ کچھ لوگ تو اپنی پیدائشی افتاد طبع کی بنا پر ہی اندوختہ کرتے رہیں گے’ اور بیشتر لوگ آمدنیوں کی کثرت اور معاشرے کی عام آسودگی کے باعث مجبوراً پس انداز کریں گے۔ اس وقت یہ پس اندازی کسی بخل یا خوف یا لالچ کی بنا پر نہ ہوگی’ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کمائیں گے۔ اسلام کی جائز کی ہوئی مدات خرچ میں خوب دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود ان کے پاس بہت کچھ بچ رہے گا’ اس بچی ہوئی دولت کو لینے والا کوئی محتاج آدمی بھی ان کو نہ ملے گا’ اس لیے وہ اسے ڈال رکھیں گے’ اور بڑی اچھی شرائط پر اپنی حکومت کو’ اپنے ملک کی صنعت و تجارت کو’ اور ہمسایہ ملکوں تک کو سرمایہ دینے کے لیے آمادہ ہوجائیں گے۔

دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ جمع شدہ سرمایہ رکنے کے بجائے چلنے کی طرف مائل رہے گا اور اجتماعی معیشت کی کھیتیوں کو ان کی حاجت کے مطابق اور ضرورت کے موقع پر برابر ملتا چلا جائے گا۔ موجودہ نظام میں سرمایہ کو کاروبار کی طرف جانے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ سود کا لالچ ہے’ مگر یہی چیز اس کے رکنے کا سب بھی بنتی ہے۔ کیونکہ سرمایہ اکثر اس انتظار میں ٹھہرا رہتاہے کہ زیادہ شرح سود ملے تو وہ کام میں لگے۔ نیز یہی چیز سرمایہ کے مزاج کو کاروبار کے مزاج سے منحرف بھی کردیتی ہے۔ جب کاروبار چاہتا ہے کہ سرمایہ آئے تو سرمایہ اکڑ جاتا ہے اور اپنی شرائط سخت کرتا چلا جاتا ہے۔ اور جب معاملہ برعکس ہوتا ہے تو سرمایہ کاروبار کے پیچھے دوڑتا ہے اور ہلکی شرائط پر ہر اچھے برے کام میں لگنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن جب سود کا دروازہ ازروئے قانون بند ہوجائے گا اور تمام جمع شدہ رقموں پر الٹی زکوۃ ڈھائی فی صدی سالانہ کے حساب سے لگنی شروع ہوگی’ تو سرمایہ کی یہ بدمزاجی ختم ہوجائے گی۔ وہ خود اس بات کا خواہش مند ہوگا کہ معقول شرائط پر جلدی سے جلدی کسی کاروبار میں لگ جائے اور ٹھہرنے کے بجائے ہمیشہ کاروبار ہی میں لگا رہے۔

تیسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروباری مالیات اور مالیاتِ قرض کی مدیں بالکل الگ ہوجائیں گی۔ موجودہ نظام میں تو سرمایہ کی بہم رسانی زیادہ تر’ بلکہ قریب قریب تمام تر ہوتی ہی صرف قرض کی صورت میں ہے۔ خواہ روپیہ لینے والا شخص یا ادارہ کسی نفع آور کام کے لیے لے یا غیر نفع آور کے لیے’ اور خواہ کسی عارضی ضرورت کے لیے یا کسی طویل المدت تجویز کے لیے’ ہر صورت میں سرمایہ صرف ایک ہی شرط پر ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقرر شرح سود پر اسے قرض حاصل کیا جائے۔ لیکن جب سود ممنوع ہوجائے گا تو قرض کی مد صرف غیر نفع آور اغراض کے لیے’ یا جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے’ عارضی ضروریات کے لیے مخصوص ہوجائے گی’ اور اس کا انتظام قرضِ حسن کے اصول پر کرنا ہوگا۔ رہیں دوسری اغراض’ خواہ وہ صنعت و تجارت وغیرہ سے متعلق ہوں یا حکومتوں اور پبلک اداروں کی نفع بخش تجویزوں سے متعلق’ ان سب کے لیے سرمایہ کی فراہمی قرض کے بجائے مضاربت (حصہ داری) (Profit sharing)کے اصول پر ہوگی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ بتائیں گے کہ غیر سودی نظامِ مالیات میں یہ دونوں شعبے کس طرح کام کرسکتے ہیں۔

غیر سودی مالیات میں فراہمی قرض کی صورتیں

پہلے قرض کے شعبے کو لیجیے’ کیونکہ لوگ سب سے بڑھ کر جس شک میں مبتلا ہیں وہ یہی ہے کہ سود کے بند ہوجانے سے قرض ملنا بھی بند ہوجائے گا۔ لہذا پہلے ہم یہی دکھائیں گے کہ اس ناپاک رکاوٹ کے دور ہوجانے سے قرض کی فراہمی صرف یہی نہیں کہ بند نہ ہوگی’ بلکہ موجودہ حالت سے زیادہ آسان ہوگی اور بدرجہا زیادہ بہتر صورت اختیار کرلے گی۔

شخصی حاجات کے لیے

موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے’ اور وہ یہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے’ اور صاحبِ جائداد آدمی بینک سے سودی قرض حاصل کرے۔ دونوں صورتوں میں ہر طالب قرض کو ہر غرض کے لیے ہر مقدار میں روپیہ مل سکتا ہے اگر وہ مہاجن یا بینکر کو اصل و سود کے ملتے رہنے کا اطمینان دلا سکتا ہو’ قطع نظر اس سے کہ وہ گناہ گاریوں کے لیے لینا چاہتا ہو یا فضول خرچیوں کے لیے یا حقیقی ضرورتوں کے لیے۔ بخلاف اس کے کوئی طالب قرض کہیں سے ایک پیسہ نہیں پا سکتا اگر وہ اصل و سود کے ملنے کا اطمینان نہ دلا سکتا ہو’ چاہے اس کے گھر ایک مردہ لاش ہی بے گور وکفن کیوں نہ پڑی ہو۔ پھر موجودہ نظام میں کسی غریب کی مصیبت اور کسی امیر زادے کی آوارگی’ دونوں ہی ساہوکار کے لیے کمائی کے بہترین مواقع ہیں۔ اور اس خود غرضی کے ساتھ سنگ دلی کا یہ حال ہے کہ جو شخص سودی قرض کے جال میں پھنس چکا ہے اس کے ساتھ نہ سود کی تحصیل میں کوئی رعایت ہے نہ اصل کی بازیافت میں۔ کوئی یہ دیکھنے کے لیے دل ہی نہیں رکھتا کہ جس شخص سے ہم اصل و سود کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کم بخت کس حال میں مبتلا ہے۔ یہ ہیں وہ “آسانیاں” جو موجودہ نظام شخصی حاجات میں فراہمی قرض کے لیے بہم پہنچاتا ہے۔ اب دیکھیے کہ اسلام غیر سودی صدقاتی نظام اس چیز کا انتظام کس طرح کرے گا۔

اول تو اس نظام میں فضول خرچیوں اور گناہ گاریون کے لیے قرض کا دروازہ بند ہوجائے گا’ کیونکہ وہاں سود کے لالچ میں بے جا قرض دینے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس حالت میں قرض کا سارا لین دین آپ سے آپ صرف معقول ضروریات تک محدود ہوجائے گا اور اتنی ہی رقمیں اور دی جائیں گی جو مختلف انفرادی حالات میں صریح طور پر مناسب نظر آئیں گی۔

پھر چونکہ اس نظام میں قرض لینے والے سے کسی نوعیت کا فائدہ اٹھانا قرض دینے والےکے لیے جائز نہ ہوگا اس لیے قرضوں کی واپسی زیادہ سے زیادہ آسان ہوجائے گی۔ کم سے کم آمدنی رکھنے والا بھی تھوڑی تھوڑی قسطیں دے کر بار قرض سے جلدی اور آسانی سے سبکدوش ہوسکے گا۔ جو شخص کوئی زمین یا مکان یا اور کسی قسم کی جائداد رہن رکھے گا اس کی آمدنی سود میں کھپنے کے بجائے اصل میں وضع ہوگی اور اس طرح جلدی سے جلدی رقم قرض کی بازیافت ہوجائے گی۔ اتنی آسانیوں کے باوجود اگر شاذ و نادر کسی معاملہ میں کوئی قرض ادا ہونے سے رہ جائے گا تو بیت المال ہر آدمی کی پشت پر موجود ہوگا جو ادائیگی قرض میں اس کی مدد کرے گا۔ اور بالفرض اگر مدیون کچھ چھوڑے بغیر مر جائے گا تب بھی بیت المال اس کا قرض ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ ان وجوہ سے خوش حال و ذی استطاعت لوگوں کے لیے اپنے کسی حاجت مند ہمسائے کی ضرورت کے موقع پر اسے قرض دینا اتنا مشکل اور ناگوار کام نہ رہے گا جتنا اب موجودہ نظام میں ہے۔

اس پر بھی اگر کسی بندہ خدا کو ا سکے محلے یا بستی سے قرض نہ ملے گا تو بیت المال کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہوگا۔ وہ جائے گا اور وہاں سے بآسانی قرض حاصل کرلے گا۔ لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ بیت المال سے استمداد ان اغراض کے لیے آخری چارہ کار ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے شخصی حاجات میں ایک دوسرے کو قرض دینا معاشرے کے افراد کا اپنا فرض ہے اور ایک معاشرے کی صحت مندی کا معیار یہی ہے کہ اس کے افراد اپنی اس طرح کی اخلاقی ذمہ داری کو خود ہی محسوس اور ادا کرتے رہیں۔ اگر کسی بستی کا کوئی باشندہ اپنے ہمسایوں سے قرض نہیں پاتا اور مجبور ہوکر بیت المال کی طرف رجوع کرتا ہے تویہ صریحاً اس بات کی علامت ہے کہ اس بستی کی اخلاقی آب و ہوا بگڑی ہوئی ہے۔ اس لیے جس وقت اس قسم کا کوئی معاملہ بیت المال میں پہنچے گا تو وہاں صرف اس طالب قرض کی حاجت پوری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے گا’ بلکہ فوراً اخلاقی حفظانِ صحت کے محکمے کو اس “واردات” کی اطلاع دی جائے گی اور وہ اسی وقت اس بیمار بستی کی طرف توجہ کرے گا جس کے باشندے اپنے ایک ہمسائے کی ضرورت کے وقت اس کے کام نہ آئے۔ اس طرح کے کسی واقعہ کی اطلاع ایک صالح اخلاقی نظام میں وہی اضطراب پیدا کرے گی جو ہیضے یا طاعون کے کسی واقعہ کی اطلاع ایک مادہ پرست نظام میں پیدا کیا کرتی ہے۔

شخصی حاجات کے لیے قرض فراہم کرنے کی ایک اور صورت بھی اسلامی نظام میں اختیار کی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام تجارتی کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر ان کے ملازموں اور مزدوروں کے جو کم سے کم حقوق ازروئے قانون مقرر کیے جائیں’ ان میں ایک حق یہ بھی ہو کہ وہ ان کی غیر معمولی ضرورت کے مواقع پر ان کو قرض دیا کریں نیز حکومت خود بھی اپنے اوپر اپنے ملازموں کا یہ حق تسلیم کرے اور اس کو فیاضی کے ساتھ ادا کرے۔ یہ معاملہ حقیقت میں صرف اخلاقی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کی معاشی و سیاسی اہمیت ہے۔ آپ اپنے ملازموں اور مزدوروں کے لیے غیر سودی قرض کی سہولت بہم پہنچائیں گے تو صرف ایک نیکی ہی نہیں کریں گے بلکہ ان اسباب میں سے ایک بڑے سبب کو دور کردیں گے جو آپ کے کارکنوں کو فکر’ پریشانی’ خستہ حالی’ جسمانی آزار اور مادی بربادی میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان بلاؤں سے ان کی حفاظت کیجیے۔ ان کی آسودگی ان کی قوت کار بڑھائے گی اور ان کا اطمینان انہیں فساد انگیز فلسفوں سے بچائے گا۔ اس کا نفع بہی کھاتے کی رو سے چاہے کچھ نہ ہو۔ لیکن کسی کو عقل کی بینائی میسر ہو تو وہ بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے ہی کے لیے نہیں’ بلکہ فرداً فرداً ایک ایک سرمایہ دار کارخانہ دار کے لیے اور ایک ایک معاشی و سیاسی ادارے کے لیے اس کا نفع اس سود سے بہت زیادہ قیمتی ہوگا جو آج مادہ پرست نظام میں محض احمقانہ تنگ نظری کی بنا پر وصول کیا جا رہا ہے۔

کاروباری اغراض کے لیے

اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں ان مقاصد کے لیے یا تو بینکوں سے براہ راست قلیل المدت قرضے (Short term loan)حاصل کیے جاتے ہیں’ یا پھر ہنڈیاں (Exchange) بھنائی جاتی ہیں اور دونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں۔ یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا۔ اس لیے جب کاروباری لوگ بندشِ سود کا نام سنتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر روز مرّہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا؟ اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا؟

لیکن سوال یہ ہے کہ جس بینک کے پاس تمام رقومِ امانت (Deposits) بلا سود جمع ہوں’ اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلا سود رکھا رہتا ہو’ وہ آخر کیوں نہ ان کو بلا سود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے؟ وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہوگا تو تجارتی قانون کے ذریعہ سے اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کھاتہ داروں( Customers) کو یہ سہولت بہم پہنچائے’ اس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونا چاہیے۔

____________________________

یہ وہی چیز ہے جس کے لیے ہماری اسلامی فقہ میں “سفاتج” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جن تاجروں کا آپس میں بھی ایک دوسرے سے لین دین ہو اور بینک کے ساتھ بھی معاملہ ہو وہ نقد رقم اد اکیے بغیر بڑی مقدار میں ایک دوسرے سے مال قرض لے لیتے ہیں اور مہینہ’ دو مہینے’ چار مہینے کے لیے فریقِ ثانی کو ہنڈی لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اگر فریقِ ثانی اس پر مدت مقررہ تک انتظار کرسکتا ہو تو انتظار کرتا ہے اور وقت آنے پر قرض ادا ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر دورانِ مدت میں اس کو روپے کی ضرورت پڑجاتی ہے تو وہ اس ہنڈی کو اس بینک میں داخل کردیتا ہے جس سے دونوں فریقوں کا لین دین ہو اور اس سے رقم حاصل کرکے اپنا کام چلا لیتا ہے۔ اسی چیز کا نام ہنڈی بھنانا ہے۔

در حقیقت اس کام کے لیے خود تاجروں کی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ضرورت پڑجانے پر کوئی مضائقہ نہیں اگر بینک اپنے دوسرے سرمایہ میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لیے استعمال کرلے۔
بہرحال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا ہے وہ سود دے کیوں’ اور اجتماعی معیشت کے نقطہ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لیے بلا سود قرض ملتا رہے۔

رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چالو کھاتوں (Current account) کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلا سود رہیں گی تو اس کے لیے انہی رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا۔ کیوں کہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرتے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کرلے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی۔ تاہم بالفرض یہ طریقہ قابل عمل نہ ہو’ تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتہ داروں پر عائد کردے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو۔ سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کرلیں گے۔

حکومتوں کی غیر نفع آور ضروریات کے لیے

تیسری اہم مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتوں کو بھی وقتی حوادث کے لیے’ اور کبھی غیر نفع آور ملکی ضروریات کے لیے’ اور کبھی جنگ کے لیے لینے ہوتے ہیں۔ موجودہ نظام مالیات میں ان سب مقاصد کے لیے روپیہ تمام تر قرض’ اور وہ بھی سودی قرض کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسلامی نظام مالیات میں یہ عین ممکن ہوگا کہ ادھر حکومت کی طرف سے ضرورت کا اظہار ہو اور ادھر قوم کے افراد اور ادارے خود لا لا کر چندوں کے ڈھیر اس کے سامنے لگا دیں۔ اس لیے کہ سود کی بندش اور زکوۃ کی تنظیم لوگوں کو اس قدر آسودہ اور مطمئن کردے گی کہ اپنے اندوختے (Saving) اپنی حکومت کو یوں ہی دے دینے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔ اس پر بھی اگر بقدر ضرورت روپیہ نہ ملے تو حکومت قرض مانگے گی اور لوگ دل کھول کر اسے قرضِ حسن دیں گے۔ لیکن اگر اس سے بھی ضروریات پوری نہ ہوسکیں’ تو اسلامی حکومت اپنا کام چلانے کے لیے حسبِ ذیل طریقے اختیار کرسکتی ہے:۔

زکوۃ و خمس کی رقمیں استعمال کرے۔

تمام بینکوں سے ان کی رقوم امانت کا ایک مخصوص حصہ حکماً بطور قرض طلب کرے جس کا اسے اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا وہ افرادِ قوم سے لازمی فوجی خدمت (Conscriptions) طلب کرنے اور لوگوں سے ان کی عمارتیں اور موٹریں اور دوسری چیزیں بزور حاصل کرنے (Requisition) کا حق رکھتی ہے۔

بدرجہ آخر وہ اپنی ضرورت کے مطابق نوٹ چھاپ کر بھی کام چلا سکتی ہے جو در اصل قوم ہی سے قرض لینے کی ایک دوسری صورت ہے۔ لیکن یہ محض ایک آخری چارہ کار ہے جو بالکل ناگزیر حالات ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی قباحتیں بہت زیادہ ہیں۔

بین الاقوامی ضروریات کے لیے

اب رہے بین الاقوامی قرضے’ تو اس معاملہ میں یہ تو بالکل ظاہر ہی ہے کہ موجودہ سود خوار دنیا میں قومی ضرورت کے موقع پر کہیں سے ایک پیسہ بلا سود قرض پانے کی توقع نہیں کرسکتے۔ اس پہلو میں تو ہم کو تمام تر کوشش یہی کرنی ہوگی کہ ہم بیرونی قوموں سے کوئی قرض نہ لیں’ کم از کم اس وقت تک تو ہرگز نہ لیں جب تک کہ ہم خود دوسروں کو اس امر کا نمونہ نہ دکھا دیں کہ ایک قوم اپنے ہمسایوں کو کس طرح بلا سود قرض دے سکتی ہے۔ رہا قرض دینے کا معاملہ تو جو بحث اس سے پہلے ہم کر چکے ہیں اس کے بعد شاید کسی صاحب نظر آدمی کو بھی یہ تسلیم کرنے میں تامل نہ ہوگا کہ اگر ایک دفعہ ہم نے ہمت کرکے اپنے ملک میں ایک صالح مالی نظام بندشِ سود اور تنظیم زکوۃ کی بنیاد پر قائم کرلیا تو یقینا بہت جلد ہماری مالی حالت اتنی اچھی ہوجائے گی کہ ہمیں نہ صرف خود باہر سے قرض لینے کی حاجت نہ ہوگی بلکہ ہم اپنے گردوپیش کی حاجت مند قوموں کو بلا سود قرض دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ اور جس روز ہم یہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے وہ دن دور جدید کی تاریخ میں صرف مالی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور تمدنی اور اخلاقی حیثیت سے بھی انقلاب انگیزون ہوگا۔ اس وقت یہ امکان پیدا ہوجائے گا کہ ہمارا اور دوسری قوموں کا تمام لین دین غیرسودی بنیاد پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہوگا کہ دنیا کی قومیں یکے بعد دیگرے باہم ایسے معاہدات طے کرنے شروع کردیں کہ وہ ایک دوسرے سے سود نہیں لیں گی اور بعید نہیں کہ وہ دن بھی ہم دیکھ سکیں جب بین الاقوامی رائے عام سود خوری کے خلاف بالاتفاق اسی نفرت کا اظہار کرنے لگے جس کا اظہار 1945 میں برٹین ود وڈس کے معاملہ پر انگلستان میں کیا گیا تھا۔ یہ محض ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے’ بلکہ فی الواقع آج بھی دنیا کے سوچنے والے دماغ یہ سوچ رہے ہیں کہ بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے سے دنیا کی سیاست اور معیشت’ دونوں پر نہایت برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اس طریقہ کو چھوڑ کر اگر خوش حال ممالک اپنی فاضل دولت کے ذریعہ سے خستہ حال اور آفت رسیدہ ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کی مخلصانہ و ہمدردانہ کوشش کریں تو اس کا دوہرا فائدہ ہوگا۔سیاسی و تمدنی حیثیت سے بین الاقوامی بدمزگی بڑھنے کے بجائے محبت اور دوستی بڑھے گی۔ اور معاشی حیثیت ایک خستہ حال دیوالیہ ملک کا خون چوسنے کی بہ نسبت ایک خوش حال اور مال دار ملک کے ساتھ کاروبار کرنا بدرجہا زیادہ نافع ثابت ہوگا۔ یہ حکمت کی باتیں سوچنے والے سوچ رہے ہیں اور کہنے والے کہہ رہے ہیں’ لیکن ساری کسر بس اس بات کی ہے کہ دنیا میں کوئی حکیم قوم ایسی ہو جو پہلے اپنے گھر سے سود خوری کو مٹائے اور آگے بڑھ کر بین الاقوامی لین دین سے اس لعنت کو خارج کرنے کی عملاً ابتدا کردے۔

نفع آور اغراض کے لیے سرمایہ کی بہم رسانی

مالیات قرض کے بعد اب ایک نظر یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ہمارے پیش نظر نظام میں کاروباری مالیات کیا شکل اختیار کریں گے۔ اس سلسلہ میں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں’ سود کا انسداد لوگوں کے لیے یہ دروازہ تو قطعی بند کردے گا کہ وہ محنت اور خطرہ (Risk) دونوں چیزوں سے بچ کر اپنے سرمائے کو تحفظ اور متعین منافع کی ضمانت کے ساتھ کسی کام میں لگا سکیں۔ اور اسی طرح زکوۃ ان کے لیے اس دروازے کو بھی بند کردے گی کہ وہ اپنا سرمایہ روک رکھیں اور اس پر مارِ زر بن کر بیٹھ جائیں مزید بر آں ایک حقیقی اسلامی حکومت کی موجودگی میں لوگوں کے لیے عیاشیوں اور فضول خرچیوں کا دروازہ بھی کھلا نہ رہے گا کہ ان کی فاضل آمدنیاں ادھر بہہ نکلیں۔ اس کے بعد لا محالہ ان تمام لوگوں کو جو ضرورت سے زائد آمدنی رکھتے ہوں تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔

اگر وہ مزید آمدنی کے طالب نہ ہوں تو اپنی بچت کو رفاہ عام کے کاموں میں صرف کریں’ خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ وہ خود کسی کار خیر پر اسے وقف کریں’ یا یہ ہو کہ قومی اداروں کو چندے اور عطیے دیں’ یا پھر یہ ہو کہ بے غرضانہ و مخلصانہ طریقہ سے اسلامی حکومت کے حوالہ کردیں تاکہ وہ اسے امور نافعہ اور ترقیات عامہ اور اصلاح خلق کے کاموں پر صرف کرے۔ خصوصیت کے ساتھ آخری صورت کو لازماً ترجیح دی جائے گی اگر حکومت کا نظم و نسق ایسے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہو جن کی دیانت اور فراست پر عموماً لوگوں کو بھروسہ ہو۔ اس طرح اجتماعی مصالح اور ترقی و بہبود کے کاموں کے لیے حکومت اور دوسرے اجتماعی اداروں کو سرمائے کی ایک کثیر مقدار ہمیشہ مفت ملتی رہے گی جس کا سود ی منافع تو درکنار اصل ادا کرنے لیے بھی عوام الناس پر ٹیکسوں کا کوئی بار نہ پڑے گا۔

اگر وہ مزید آمدنی کے طالب تو نہ ہوں’ لیکن اپنی زائد از ضرورت دولت کو اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں تو اسے بینک میں جمع کرا دیں’ اور بینک اس کو امانت میں رکھنے کے بجائے اپنے ذمہ قرض قرار دے۔ اس صورت میں بینک اس بات کا ضامن ہوگا کہ ان کی جمع کردہ رقم عند الطلب’ یا طے شدہ وقت پر انہیں واپس کردے۔ اور اس کے ساتھ بینک کو یہ حق ہوگا کہ قرض کی اس رقم کو کاروبار میں لگائے اور اس کا منافع حاصل کرے۔اس منافع میں سے کوئی حصہ اسے کھاتہ داروں کو دینا نہ ہوگا’ بلکہ وہ کلیۃً بینک کا اپنا منافع ہوگا۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تجارت بہت بڑی حد تک اسی اسلامی اصول کی رہیں منت تھی۔ ان کی دیانت اور غیر معمولی ساکھ کی وجہ سے لوگ اپنا روپیہ ان کے پاس حفاظت کے لیے رکھواتے تھے۔ امام صاحب اس روپے کو امانت میں رکھنے کے بجائے قرض کے طور پر لیتے اور اسے اپنے تجارتی کاروبار میں استعمال کرتے تھے۔ ان کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ ان کی وفات کے وقت جب حساب کیا گیا تو ان کی فرم میں 5 کروڑ درہم کا سرمایہ اسی قاعدے کے مطابق لوگوں کی رکھوائی رقوم کا لگا ہوا تھا۔ اسلامی اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھوائے تو امین اسے استعمال نہیں کرسکتا’ مگر امانت ضائع ہوجائے تو اس پر کوئی ضمان عائد نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہی مال قرض کے طور پر دیا جائے تو مدیون اسے استعمال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق دار ہے اور وقت پر قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ اسی قاعدے پر اب بھی بینک عمل کرسکتے ہیں۔

اور اگر وہ اپنی پس انداز رقموں کو کسی نفع آور کام لگانے کے خواہشمند ہوں تو ان کے لیے اس چیز کے حصول کا صرف ایک راستہ کھلا ہوگا۔ یہ کہ اپنی بچائی ہوئی رقموں کو مضاربت یا نفع و نقصان میں متناسب پر شرکت کے اصول پر نفع بخش کاموں میں لگائیں’ خواہ حکومت کے توسط سے’ یا بینکوں کے توسط سے۔
خود لگانا چاہیں گے تو ان کو کسی کاروبار میں شرکت کی شرائط آپ طے کرنی ہوں گی جن میں ازروئے قانون اس امر کا تعین ضروری ہوگا کہ فریقین کے درمیان نفع نقصان کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی۔ علی ہذا القیاس مشترک سرمائے کی کمپنیوں میں بھی شرکت کی صورت صرف یہی ایک ہوگی کہ سیدھے سادھے حصے خرید لیے جائیں۔ بانڈ اور ڈینجر اور اس طرح کی دوسری چیزیں’ جن کے خریدار کو کمپنی سے ایک لگی بندھی آمدنی ملتی ہے’ سرے سے موجود ہی نہ ہوں گی ۔

حکومت کے توسط سے لگانا چاہیں گے تو انہیں امور نافعہ سے متعلق حکومت کی کسی اسکیم میں حصہ دار بننا ہوگا۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ حکومت برق آبی کی کوئی تجویز عمل میں لانا چاہتی ہے۔ وہ اس کا اعلان کرکے پبلک کو اس میں شرکت کی دعوت دے گی۔ جو اشخاص’ یا ادارے یا بینک اس میں سرمایہ دیں گے وہ حکومت کے ساتھ حصہ دار بن جائیں گے اور اس کے کاروباری منافع میں سے ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ پاتے رہیں گے۔ نقصان ہوگا تو اس کا بھی متناسب حصہ ان سب پر اور حکومت پر تقسیم ہوجائے گا۔ اور حکومت اس امر کی بھی حق دار ہوگی کہ ایک ترتیب کے ساتھ بتدریج لوگوں کے حصے خود خریدتی چلی جائے یہاں تک کہ چالیس پچاس سال میں برق آبی کا وہ پورا کام خالص سرکاری ملک بن جائے۔
مگر موجودہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سب سے زیادہ قابلِ عمل اور مفید تیسری صورت ہی ہوگی’ یعنی یہ کہ لوگ بینکوں کے توسط سے اپنا سرمایہ نفع بخش کاموں میں لگائیں۔ اس لیے ہم اس کو ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے اس امر کی صاف تصویر آجائے کہ سود کو ساقط کرنے کے بعد بینکنگ کا کاروبار کس طرح چل سکتا ہے اور نفع کے طالب لوگ اس سے کس طرح متمتع ہوسکتے ہیں۔

Previous Chapter Next Chapter