سوال 9: قرآن حکیم میں ’’رأس المال‘‘ کی اصطلاح کن معنوں میں استعمال ہوئی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ افراطِ زر کے ماحول میں کرنسی کی قدر میں کمی کا رجحان ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے کرنسی کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادھار لے کر کافی عرصے کے بعد اتنی ہی رقم واپس کرتا ہے تو قرض خواہ افراطِ زر کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اگر وہ قرض دار سے یہ تقاضا کرے کہ اسے کرنسی کی قدر میں کمی کے سبب پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے زیادہ رقم ادا کی جائے تو کیا اس قسم کا مطالبہ ربا کے ذیل میں شمار ہو گا؟
جواب:’’رأس المال‘‘ ایک مخصوص اصطلاح ہے۔ یہ قرآنی اصطلاح معاملۂ قرض کے اصل زر کو ظاہر کرتی ہے‘ قطع نظر اس کے کہ قرض کی رقم صرفی مقاصد کے لیے دی گئی ہے یا پیداواری مقاصد کے لیے۔ یہ اصطلاح رقم کی نفسی قدر (intrinsic value) کے لیے کبھی بھی استعمال نہیں ہوتی‘ کہ اس سے کسی بھی صورت میں قرضوں کی انڈیکسیشن کا جواز نکالا جاسکے۔
قرآن حکیم میں رأس المال سے مراد اصل مال ہے جو قرض خواہ مقروض کو بوقت قرض دیتا ہے۔ اسلام اس میں کسی بھی قسم کے اضافے کو سود قرار دیتا ہے۔ رأس المال کا ذکر اور اس کی تعریف خود قرآن حکیم نے کر دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
}فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩)البقرۃ(’’ پھر اگر ایسا نہ کرو توتو سن لو اللہ اور اُس کے رسول سے لڑائی کا ‘اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو‘نہ تو کسی پر ظلم کرو اور نہ تمہارے ساتھ کوئی ظلم کرے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر تم سود سے توبہ کر لو تو تمہارے رأس المال تمہیں مل جائیں گے ‘اور تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ کوئی تم پر ظلم کرنے پائے گا۔
آیت کریمہ کے اس حصے نے واضح کر دیا کہ رأس المال سے زیادہ وصول کرنا سود ہے اور یہ مقروض پر ظلم ہے‘ اور اس میں کمی کرنا قرض خواہ پر ظلم ہے‘ لہٰذا ’’لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ‘‘ کا مطلب یہ ہوا کہ مقروض قرض خواہ کی اصل رقم میں کمی نہ کرے اور قرض خواہ اصل رقم پر اضافہ نہ لے۔ تمام جید مفسرین کرام نے اس کی وضاحت یوں ہی کی ہے کہ ’’لاَ تَظْلِمُوْنَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ زیادتی نہ کرو اور ’’وَلاَ تُظْلَمُوْنَ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رأس المال میں کمی نہ کی جائے۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر‘تفسیر معالم التنزیل‘تفسیر روح المعانی‘ تفسیرجامع البیان۔
بلا شبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح روز افزوں ہے‘ جس سے قرض خواہ اگر اپنی اصل رقم یعنی رأس المال پر کوئی اضافہ نہ لے تو اس کے رأس المال کی قیمت خرید چند سال بعد کم ہو جائے گی‘ جس کی وجہ سے اسے نقصان ہو گا۔ لہٰذا بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اشاریہ بندی یعنی Indexation کے ذریعے اس نقصان کی تلافی ضروری ہے‘ اس لیے اس پر سود کا اطلاق نہیں ہو گا اور یہ قرآنی حکم ’’ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ‘‘ کی تعبیر ہے۔
ان معاصر اہل علم میں رفیق المصری‘سلطان ابو علی‘ایم اے منان‘ضیاء الدین احمد‘عمر زبیر اور گل محمد کے نام شامل ہیں ‘جبکہ کئی معاصر علماء قرضوں کی انڈیکسیشن کے حامی نہیں ہیں۔ ان میں محمد عمر چھاپڑہ منظر کیف‘ایم نجات اللہ صدیقی‘محمد حسن الزماں‘مولانا تقی عثمانی اور علی احمد سلوس سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔
ہم بھی درج ذیل عقلی و نقلی دلائل کی بنیاد پر مؤخر الذکر نکتہ نظر کے حاملین معاصر علماء سے موافقت اختیار کرتے ہیں۔
)۱ (سب سے پہلے تو یہ تعین کیا جانا ضروری ہے کہ افراطِ زر یا تخفیف قدرِ زر کی صورت میں روپے کی قوت خرید میں جو کمی واقع ہوتی ہے کیا وہ مقروض کی کسی کوتاہی یا غلطی کا نتیجہ ہے‘ جو اسے قرضوں کی انڈیکسیشن کی صورت میں تاوان ادا کرنے پر مجبور کیا جائے؟ ادنیٰ تأمل سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں صورتیں کسی مقروض کے اختیار میں نہیں اور نہ ہی اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ملک میں افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے یا ہماری کرنسی کی قدر گھٹتی چلی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ تو ہمارے حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو آئے دن اربوں روپے کے نئے نوٹ چھاپ کر ملک میں مہنگائی اور افراطِ زر کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں نہ تو افراطِ زر کی شرح ہمارے جیسی ہے اور نہ ہی ان کی کرنسیاں اس قدر غیرمستحکم ہیں۔ خود پاکستان کی کرنسی ایک خاص وقت تک مستحکم رہی ہے۔ افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح اور تخفیف قدر زر کی ذمہ داری مقروض پر ڈالنا قرین انصاف نہیں ہے۔اصول یہ ہے کہ ہر کوئی اپنا بوجھ اٹھائے گا ‘کسی پر کسی کی غلطی یا کوتاہی کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔لہٰذا افراطِ زر یا تخفیف قدر زر کی صورت میں کرنسی کی قوتِ خرید میں جو کمی واقع ہوتی ہے اس کی تلافی کے لیے مقروض کو پابند کرنا ہرگز قرین انصاف نہیں ہے۔
)۲ (یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بفرض محال کوئی قرض خواہ اپنی رقم بطور قرض نہیں دیتا تو کیا وہ اپنی اس رقم کو افراطِ زر اور تخفیف قدرِ زر کے اثرات سے بچا سکے گا؟
یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس کئی اور راستے موجود ہیں جن کے ذریعے وہ کسی نہ کسی درجے میں اپنی رقم کو ان اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ مثلاً
ا: وہ اپنی رقم کو شراکت یا مضاربت کی بنیاد پر کسی کاروبار میں لگا سکتا ہے۔
ب: وہ سونا‘چاندی یا کوئی اور مستحکم کرنسی خرید کر رکھ سکتا ہے۔
ج: وہ اس مال سے کوئی زمین یا جائیداد خرید کر رکھ سکتا ہے۔
د: وہ اس رقم کو اپنے کاروبار کی توسیع میں استعمال کر سکتا ہے۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب اس کے پاس اپنی رقم کو افراطِ زر اور تخفیف قدر زر کے اثرات سے بچانے کے شرعی طو پر جائز راستے موجود ہیں تو اسے یہ راستہ اختیار کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے جس میں واضح طور پر ربا میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہے۔
(۳) بینکوں میں قرضوں کی انڈیکسیشن کا معاملہ مروّجہ نظام بینکاری میں سود کی معروف متبادل اساس کے طور پر رائج بھی نہیں ہو سکتا‘جس کی کئی وجوہ ہیں:
۱۔ یہ کس طرح تعین کیا جائے گا کہ افراطِ زر اور تخفیف قدرِ زر کی شرح انڈیکسیشن کی شرح کا مساوی ہے ‘کیونکہ ان کے مابین عدم مساوات کی صورت میں تو صریحاً سود کا قوی اندیشہ ہے‘ کیونکہ اس کے جواز کے قائلین بھی اسے تلافی قرار دیتے ہیں نہ کہ نفع بصورت سود۔ اگر انڈیکسیشن کی شرح افراطِ زر وغیرہ سے زیادہ ہو تو یہ سیدھا سیدھا سود ہو گا۔
ب۔ اگر یہ دونوں شرحیں برابر ہوں تو کیا بینک جن قرض داروں سے قرض حاصل کرتا ہے ان کو انڈیکسیشن کی صورت میں تلافی نہیں دے گا؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ اصول اس کے کھاتہ داروں پر بھی لاگو ہو گا تو اس صورت میں بھلا بینک کے لیے کیا کشش رہ جاتی ہے کہ وہ جس قدر رقم انڈیکسیشن کی صورت میں قرضہ داروں سے وصول کرے اسی قدر رقم اپنے کھاتہ داروں کو ادا کر دے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے بھاری بھرکم اخراجات کیسے پورے گا؟
(۴) انڈیکسیشن کے جواز کے قائلین کی نظر ’’لَا تُظْلَمُوْن‘‘ کی طرف تو گئی ہے لیکن ’’لَا تَظْلِمُوْنَ‘‘ کی طرف نہیں گئی‘ کیونکہ اگر بالفرض کوئی ایک لاکھ روپے بطور قرض لیتا ہے اور انڈیکسیشن کی شرح 12% سالانہ مقرر ہو جاتی ہے۔ اس طرح دو سال بعد اسے ایک لاکھ چوبیس ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے جبکہ روپے کی قدر یا قوتِ خرید تو کم ہو کر چھہتر ہزار روپے رہ گئی ہو گی۔ لہٰذا یوں اس انڈیکسیشن کی صورت میں قرض خواہ پر اضافی ادائیگی کا بوجھ ڈالنا ’’اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃ‘‘ کی ہی صورت بن جائے گا کیونکہ یہ اس کے لیے دوہرا نقصان ہو گا۔ ایک تو وہ بطور مقروض رأس المال میں افراطِ زر وغیرہ کی صورت میں ہونے والی کمی کا نقصان خود برداشت کرے اور دوسرا قرض خواہ کی اصل رقم یعنی رأس المال کی قوتِ خرید میں پیدا ہونے والی کمی کا بھی ازالہ کرے گا جبکہ اصلاً وہ اس کمی یا نقصان کا ذمہ دار نہ ہے۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ قرض کی واپسی میں جنس اور مقدار میں برابری ضروری ہوتی ہے کہ جتنا اور جیسا لیا تھا اتنا ہی اور ویسا ہی واپس کرنا ہو گا۔ قیمت اور قوت خرید میں برابری اور تناسب ضروری نہیں۔ لہٰذا قرضوں کی واپسی میں جنس اور مقدار فیصلہ کن عامل ہیں نہ کہ قوت خرید۔ جبکہ قرضوں کی انڈیکسیشن کے تصور کی بنیاد ہی یہی ہے کہ قرض دار جنس اور مقدار میں برابری کی بجائے قوت خرید میں برابری اور مثلیت کی بنیاد پر قرض کی واپسی کرے۔ فقہاء نے قرض کی تعریف یوں کی ہے:
ھو عقد مخصوص ‘یرد علی دفع مال مثلی لأخر لیرد مثلہ و صح فی مثلی لا فی غیر … ما یکال أو یوزن أو یعد متقاربًا فصح استقرض جوز وبیض (الدر المختار‘کتاب البیوع ‘فضل فی القرض‘جلد ۷،ص ۴۰۶)
’’قرض ایک معاہدہ ہے جس میں ایک شخص دوسرے کو مال مثلی دیتا ہے اور لینے والا ادائیگی کے وقت اس کی مثل واپس کرتا ہے ۔قرض لین دین مال مثلی میں صحیح ہے اور غیر مثلی میں صحیح نہیں ہے … (مال مثلی وہ ہے) جسے ماپا اور تولا جا سکتا ہے یا جس کی مقدار گننے سے معلوم کی جا سکتی ہو بشرطیکہ اس کی اکائیاں مقدار میں ایک دوسرے سے زیادہ متفاوت نہ ہوں بلکہ قریب قریب ہوں‘ مثلاً اخروٹ اور انڈے۔‘‘
لہٰذا یہ وہ دلائل ہیں جن کی بنیاد پر ہم قرضوں کی انڈیکسیشن کو نہ تو شرعاً جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی بینکوں کے لیے قابل عمل۔