سوال 7:کیا سود کی حرمت کا اطلاق اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر بھی ہوتا ہے؟ کیا اس کا اطلاق غیر مسلم حکومتوں و ریاستوں سے لیے گئے قرضوں پر بھی ہو گا جب کہ غیر مسلم ممالک کی پالیسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی قوانین پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے؟
جواب: ایک اسلامی ملک کے غیرمسلم شہریوں پر بھی یہ لازم ہو گا کہ وہ سود سے دُور رہیں‘ کیونکہ یہ قانونِ عامہ (پبلک لاء) کے زمرے میں آتا ہے۔ اس ضمن میں رہنمائی ہمیں اُس معاہدے سے حاصل ہوتی ہے جو آنحضورﷺ اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان طے پایا تھا۔ اس معاہدے میں صراحت کے ساتھ مذکور تھا کہ عیسائی سودی کاروبار نہیں کریں گے جبکہ اُنہیں شراب اور سؤر کا گوشت استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ مسلمان ریاست پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ بیرونی ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسد اری کرے۔
معزز عدالت کی طرف سے اٹھایا جانے والا سوال خاص اور متعین ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان سودی لین دین کی دیگر کئی صورتوں سے صرف نظر کر کے صرف یہ پوچھا گیا ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر بھی سود کی حرمت کا اطلاق ہو گا یا نہیں۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے مابین باہم سودی لین دین کی بات کی جا رہی ہے کیونکہ اسلامی ریاست میں ان کا کسی مسلمان سے سودی لین دین نہ کر سکنا تو اس قدر واضح ہے کہ اسے ہم نے خارج از بحث ہی رکھا ہے۔
اس کے جواب میں ہمارے دلائل حسب ذیل ہیں:
اولاً: سود کی حرمت کا قطعی حکم آنے کے بعد حضورﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسقاطِ سود کے حوالے سے جو حکم دیا وہ بھی عام اور مطلق ہے۔
قَضَی اللّٰہُ اَنَّہٗ لَا رِبًا ‘وَاِنَّ اَوَّلَ رِبًا أَضَعُ رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلبِ فَاِنَّہٗ مَوضُوعٌ کُلَّہ (ضیاء النبی: ج۴‘ ص ۷۵۳) ’’اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ کوئی سود نہیں۔ سب سے پہلے جس ربا کو میں کالعدم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ‘یہ سب کا سب معاف ہے۔‘‘
اسی طرح خود آیت ربا میں جس ربا کا ذکر کیا گیا ہے وہ عام اور مطلق ہے‘ یعنی اس میں سود لینے دینے کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے اور قرآن حکیم میں کسی مقام پر بھی اس عام اور مطلق حکم کی کوئی تخصیص اور تقیید نہیں کی گئی‘جس سے اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلم شہریوں کے لیے سودی لین دین کی گنجائش پیدا ہوتی ہو۔ احناف کے ہاں تو قرآن حکیم کے حکم قطعی کو صحیح حدیث رسول (خبر واحد) سے بھی مقید کرنا درست نہیں ہے‘ جبکہ ہمارے سامنے تو کوئی ایسی حدیث شریف بھی نہیں جو صحیح الاسناد اور صریح الدلالۃ ہو‘جس سے اس عام اور مطلق حکم میں تخصیص اور تقیید کرنے کے لیے راستے پیدا کیے جا سکیں‘ تاکہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو سودی لین دین کی اجازت مل جائے۔
ثانیًا: امام سرخسی کی ذکر کردہ احادیث سے یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ نے اسلامی ریاست کے ساتھ عقد ذمہ کرنے والوں کو بھی باہم سودی لین دین سے روک دیا تھا۔
کتب الٰی نصاری نجران: مَنْ اَرْبٰی فَلَیْسَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہٗ عَھْد‘ وکتب الٰی مجوس ھجر: اِمَّا اَنْ تَدَعُوا الرِّبَا اَوْ تَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ (کتاب المبسوط ‘ج۱۴ ‘باب الصرف: ۷۲)’’نجران کے نصاریٰ کو آپﷺ نے خط لکھ دیا کہ جو ربا (سود) کا کاروبار کرے پس ہمارے اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ‘اور ہجر کے مجوسیوں کو لکھ دیا کہ جو سود کی دعوت دے وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔‘‘
سنن ابو دائود کی ایک روایت میں بھی منقول ہے:ولا یفتنوا عن دینھم مالم یحدثوا حدثًا و یاکلوا الربا (ابو داوٗد ‘رقم: ۲۶۴۴)’’انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کیا جائے گا (یہ معاہدہ اُس وقت تک قائم رہے گا) جب تک کہ وہ اس کی خلاف ورزی نہ کریں یا سود نہ کھائیں۔‘‘
ثالثًا: فقہا ء کے مابین یہ اختلاف تو پایا جاتا ہے کہ دار الحرب میں مسلمان اور حربی کے درمیان سودی لین دین جائز ہے کہ نہیں‘ لیکن اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں اور مسلمان شہریوں کے درمیان یا غیر مسلم شہریوں کے مابین باہم سودی لین دین کی ممانعت ایسے مسلمات میں سے ہے کہ اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر دیگر محرمات کا اطلاق نہیں ہوتا تو سودی حرمت کا اطلاق کیونکر ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ربا کی حرمت کا قرآنی حکم عام ہے جس کا منشا یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں ربا کا بالکلیہ استیصال ہو جائے اور اس کے شہریوں میں سے کسی کو بھی اجازت نہ ہو کہ وہ سودی لین دین کر سکے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ‘جبکہ دیگر محرمات جیسے شراب حتیٰ کہ خنزیر کا گوشت نہ کھانے پینے کے حوالے سے جو احکام وارد ہوئے ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں صراحت کے ساتھ مذکور تھا کہ عیسائی سودی کاروبار نہیں کریں گے۔
ومن أکل ربا من ذی قیل فذمتی منہ بریئۃ
(کتاب الخراج ‘لابی یوسف: ۷۸)’’جو صاحب ریاست بھی ربا کھائے گا اس سے میری ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔‘‘
حضورﷺ کے اس عمل مبارک کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ دیگر محرمات کے مقابلے میں سود کا ضرر معاشرتی اور اقتصادی اعتبار سے بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر کسی اسلامی ریاست کے عیسائیوں کو سودی لین دین کی اجازت دے دی جائے تو اس کے اسلامی معاشرت اور ریاست کی اقتصادی صورتحال پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہو گا۔ غالباً اس حکمت کی بنیاد پر حضورﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو سودی لین دین سے روک دیا تھا۔ اہل علم نے اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو سودی لین دین سے منع کرنے کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں۔ ایک حکمت تو یہ ہے کہ سود کی حرمت کا حکم سابقہ آسمانی شرائع میں بھی دیا گیا ہے۔ لہٰذا انہیں سود سے روکنا صرف اسی غرض سے نہ تھا کہ انہیں شریعت اسلامیہ کے احکام کی پیروی پر مجبور کیا جائے بلکہ ان پر آسمانی شرائع کی متفق علیہ ہدایات میں سے ایک ہدایت کا نفاذ تھا۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ قرآن حکیم نے تو محض تصدیق کے لیے بیان کیا ہے کہ یہود کو سود کی ممانعت تھی جبکہ بائبل اور زبور میں متعدد مقامات پر سود کی حرمت اور ممانعت کا تذکرہ ملتا ہے۔ علامہ سید سابق نے تمام اہل کنیسہ کا اس کی حرمت پر اتفاق نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
واتفقت کلمۃ رجال الکنیسۃ علی تحریم الربا تحریمًا قاطعًا۔’’کنیسہ کے پادریوں اور عالموں کا سود کی قطعی حرمت پر اتفاق ہے‘‘۔(فقہ السنۃ: ج۳‘ص ۱۳۰‘۱۳۲)
امام سرخسی نے نجران کے عیسائیوں کو سودی لین دین سے روک دینے کی حکمت یہی بیان کی ہے:قد صح ان رسول اللّٰہ ﷺ کتب الی اھل نجران بأن تدعوا الربا او تاذنوا بحرب من اللّٰہ و رسولہ‘ وکان ذلک لھذا المعنی انہ فسق منھم فی الدیانۃ‘ فقد ثبت بالنص حرمۃ ذلک فی دینھم‘ قال اللّٰہ تعالٰی: وَاَخْذِھِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْہُ (شرح السیر الکبیر: ۴/۱۵۴۶‘۱۵۴۷) ’’صحیح سند سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اہل نجران کو لکھا کہ سودی لین دین چھوڑ دو یا پھراللہ اور اس کے رسول کے طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ سود ان کے مذہب میں گناہ کا کام تھا۔ چنانچہ قرآن مجید سے صراحۃً ثابت ہے کہ یہ ان کے مذہب میں حرام ہے۔ فرمایا: ’’اور یہود کاایک جرم سود لینا بھی تھا حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا۔ ‘‘
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضورﷺ کے وصال کے بعد جب اہل نجران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے بھی اس معاہدہ کی تجدید کر دی جو حضورﷺ نے ان کے ساتھ فرمایا تھا‘ جس میں انہیں سود کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ چنانچہ اس معاہدہ کی تجدید کی صورت میں خلیفہ اول نے جو معاہدہ تحریر فرمایا اس میں لکھا گیا:
و فائً لھم بکل ما کتب لھم محمد النبی ﷺ’’(یہ عہد) ان تمام وعدوں کی تکمیل کے طور پر (کیا جا رہا ہے) جو محمد نبی ﷺ نے ان کے لیے تحریر فرمائے ہیں‘‘۔(کتاب الخراج لابی یوسف: ۷۹)
کتاب الخراج ہی میں اس طرح مذکور ہے کہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو یہ لوگ ان کے پاس آئے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو نجرانِ یمن سے جلا وطن کر کے نجرانِ عراق میں بسا دیا تھا ‘کیونکہ آپ کو اندیشہ تھا کہ یہ لوگ مسلمان کو نقصان پہنچائیں گے۔ ان کی جلا وطنی کے بعد حضرت عمر فاروق ؓنے ان اہل نجران کے لیے معاہدہ لکھا۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آخر نجران کے نصاریٰ سے مسلمان کو کیا خطرہ تھا جس کی بنیاد پر حضرت عمرؓ نے ان کی جلا وطنی کا فیصلہ کیا۔ اس کی وضاحت ’کتاب الاموال‘ کی درج ذیل عبارت سے بخوبی ہو جاتی ہے:
فلما ولی عمر بن الخطاب اصابوا الربا فی زمانہ فأجلاھم عمر
(کتاب الاموال: ۲۰۲) ’’جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اُس وقت ان (اہل نجران) کو سود خوری کا ارتکاب کرتے پایا تو حضرت عمرؓ نے ان کو جلا وطن کر دیا۔‘‘
دراصل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی خطرہ کا ادراک کرتے ہوئے انہیں جلا وطن کیا تھا کہ وہ سودی لین دین میں مشغول ہو گئے تھے اور خطرہ تھا کہ ان کی اس خرابی کے اثرات مسلمانوں تک پہنچ جائیں اور وہ انہیں بھی سودی لین دین میں ملوث نہ کر لیں۔چنانچہ امام ابوعبید ؒنے اسلامی ریاست کے غیر مسلموں پر سودی لین دین کی ممانعت کی توجیہہ ’’سد ِذریعہ‘‘ کے اصول پر کی ہے ‘کیونکہ سودی لین دین کے اثرات متعدی ہو سکتے ہیں جو مسلمانوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ لہٰذا نجران کے نصاریٰ پر اس پابندی کو عائد کرنے کا اصل مقصد مسلمانوں کو سودی معاملات سے محفوظ رکھنا تھا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
غلظ علیھم اکل الربا خاصۃ من بین المعاصی کلھا ‘و لم یجعلہ لہ مباحًا و ھو یعلم انھم یرکبون من المعاصی ما ھو اعظم من ذلک: من الشرک ‘و شرب الخمر‘ وغیرہ‘ الا دفعًا عن المسلمین و أن لا یبایعوھم بہ فیأکل المسلمون الربا (کتاب الاموال: ۲۰۳‘۲۰۴)’’سیدنا عمرؓ نے باقی تمام خلافِ شرع امور کو چھوڑ کر خاص طور پر سود کے معاملے میں ان پر سختی کی اور اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اس سے بھی بڑے گناہوں مثلاً شرک اور شراب نوشی وغیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے ایسا محض مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا تاکہ ان کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرنے کی صورت میں مسلمان بھی سود کھانے میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔ ‘‘
الغرض اگر سابقہ آسمانی شرائع کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہود و نصاریٰ کے لیے نہ صرف اسلامی ریاست میں بلکہ ان کی اپنی ریاستوں میں بھی سودی لین دین جائز نہیں ہے‘ جبکہ اسلامی ریاست میں تو انہیں ’’سد ذریعہ‘‘ کے اصول پر بھی سودی لین دین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور یہ اصول تمام اقلیتوں پر لاگو ہو گا خواہ وہ سابقہ آسمانی شرائع کو ماننے والی ہوں یا نہ ہوں۔
رابعًا: آئین پاکستان اور اس کے تحت قانون کے اطلاق کے دائرہ کے لیے ’’پاکستان کے تمام شہری ‘‘کے الفاظ لکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے نجی سود کی ممانعت کے ایکٹ 2007ء کا اطلاق پنجاب میں مقیم تمام شہریوں پر ہوتا ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔
غیر مسلم ممالک سے حاصل کیے گئے قرضے
غیر مسلم ممالک سے حاصل کیے گئے قرضوں پر بھی سودی لین دین کی ممانعت کا اطلاق ہوگا ‘کیونکہ جو ممانعت مسلمان ریاست کے شہری پر وارد ہے وہ بطریق اولیٰ اسلامی ریاست پر لاگو ہو گی‘ کیونکہ اسلامی ریاست کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ ریاست سے سود کا بالکلیہ استیصال کرے‘ جیسا کہ حضورﷺ نے بطور سربراہ مملکت حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا‘چہ جائیکہ وہ خود سودی لین دین میں ملوث ہو جائے ۔پھر اسلامی ریاست کی حیثیت مسلمان شہریوں کے نمائندہ اور وکیل کی ہے اور فقہی اصول ہے کہ جو چیز مؤکل کے لیے جائز نہ ہو وہ اس کے وکیل کے لیے بھی جائز نہیں ہو سکتی۔جیسا کہ فقہ خفی میں بھی یہی اصول کار فرما ہے۔
یہاں اس بات کی صراحت بھی مفید ہو گی کہ پبلک نوٹس میں مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے تناظر سے متعلق جو استفسار ہے‘اس کے بارے میں بھی ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے 23 دسمبر 1999 ء کے فیصلہ میں مذکور گفتگو سے پوری طرح متفق ہیں اور اسی کو اختیار (adopt) کرتے ہیں۔ اس کے متعلق گفتگو اس فیصلہ کے PLD درج ذیل صفحات میں آئی ہے:
1. Judgement of Justice Khalil Ur Rehman PLD page No. 313 to 321 (publisher Shariah Academy International Islamic University, Islamabad.)
2. Judgement of Justice Mufti Muhammad Taqi Usmani Sb PLD page No 725 to 757 (publisher: Malik Muhammad Saeed Pakistan Educational Press Lahore.)