سوال نمبر2

سوال نمبر2 : ’’قرض‘‘ کی کیا تعریف ہے؟ کیا ’’قرض‘‘ اور ’’اُدھار‘‘ (Loan) ہم معنی اصطلاحات ہیں؟ قرآن مجید میں ’’قرض‘‘ کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
جواب: قرآن حکیم میں قرض‘ قرض حسنہ اور دَین کی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں‘ دَین اور قرض قریب المعنی اصطلاحات ہیں جبکہ قرض حسنہ کو صدقات کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ عبادت کے مفہوم میں سے ہے ‘جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا:

{مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ۭوَاللّٰهُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ ۠وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٢٤٥؁{(البقرۃ)’’کوئی ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ۔اور اللہ روزی کو تنگ کرتا ہے اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے‘ اور تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘

پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو زبان میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے’’ادھار‘‘۔بسا اوقات قرض‘ دَین‘ Loan ‘ debt اور ادھار مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ لفظ ’’ادھار‘‘ انگریزی اصطلاح Credit کا ترجمہ ہے جبکہ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں لفظ Loan صرف قرض یا دَین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ ادھار‘ نقد کا متضاد ہے جو قرض کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ بالعموم بیع اور تجارت میں رائج ہے ‘جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے فلاں شے نقد خریدی یعنی فوری قیمت ادا کر کے خریدی۔ اس کے برعکس اگر کوئی کسی شے کی خریداری کے لیے فوری قیمت ادا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور ادائیگی کے لیے مہلت کا طلب گار ہو تو اسے اُدھار کہا جاتا ہے جو مقررہ مدت کے بعد واجب الادا ہوتا ہے‘ البتہ اُدھار عاریت کے معنوں میں بھی آتا ہے۔
علامہ شامیؒ دَین کی تعریف یوں کرتے ہیں:

الدَین: ما وجب فی الذمۃ بعقد أو استھلاک ‘ و ما صار فی ذمۃ دینًا باستقراضہ فھو أعم من القرض (رد المحتار علی الدر المختار‘ جلد ۷‘ کتاب البیوع‘ ص ۴۰۰) ’’جو چیز کسی عقد یا کسی چیز کے ضائع و ہلاک کرنے سے کسی کے ذمہ واجب ہوگئی یا کسی چیز کو قرض (ادھار) لینے کی وجہ سے کسی کے ذمہ لازم ہو گئی ہو وہ ’’دَین‘‘ ہے۔ دَین قرض سے عام ہے ‘اس میں مدت کا مقرر کرنا واجب ہے۔‘‘

اس کے برعکس امام ابن عابدین شامی ؒقرض میں مدت کے تعین کو لازم نہیں سمجھتے‘ البتہ جائز سمجھتے ہیں ‘جبکہ صاحب ہدایہ نہ تو مدت کا تعین لازم سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ دونوں جید فقہاء کا قرض میں مدت کے تعین کو لازم نہ سمجھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک قرض سے مراد چیزوں کا عاریتہ لین دین ہے‘ کیونکہ چیزوں کے عاریتہ لین دین میں مدت کا تعین کرنا لازم نہیں ہوتا۔

أنہ یصح تاجیلہ مع کونہ غیر لازم فللمقرض الرجوع عنہ ‘ لکن قال فی الھدایۃ: فان تاجیلہ لا یصح (رد المحتار علی الدر المختار‘ جلد ۷‘ کتاب البیوع‘ ص ۴۰۲)’’اور قرض میں مدت کا تعین کرنا لازم نہیں ہے‘ یعنی اگر قرض میں مدت کا تعین کر دیا جائے تو وہ غیر لازم ہونے کے باوجود صحیح ہے اور قرض دینے والا مدت کا تعین کرنے کے بعد اس سے رجوع کر سکتا ہے‘ لیکن ھدایہ میں کہا ہے کہ قرض میں مدت کا تعین کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’قرض‘‘ اور ’’ادھار‘‘ قریب المعنیٰ اصطلاحات ہیں۔ ’’لون‘‘ کا لفظ عموماًقرض کے لیے استعمال ہوتا ہے ‘تاہم بعض اوقات یہ عاریت کے معنی میں بھی آتا ہے (ملاحظہ کیجیے المورد)۔ تاہم بینکنگ اور مالیاتی اداروں کے معاملات میں لفظ’’ لون‘‘ صرف قرض کے معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کا موجودہ بینکوں کے کاروبار سے تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ کنوینشنل بینکوں کا پورا نظام سودی قرضہ یعنی ربا پر ہی مبنی ہے۔ قرض کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ: کسی بدل پذیر (استہلاکی) مال کی ملکیت ایک ایسے شخص کو منتقل کرنا جو مستقبل میں اسی نوع کا مال واپس کرنے پر راضی ہو‘‘۔ یا بالفاظ دیگر ’’اپنا کچھ مال دوسرے کو دینا تاکہ (اس کا مثل) بعد میں مل جائے‘ ‘۔ مسلمہ اسلامی قانون میں اسے عام طور پر on demand liability سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فقہ مالکی میں قرض کی ادائیگی کے لیے وقت کی تعیین ضروری سمجھی جاتی ہے۔ AAOIFI نے اس نقطۂ نظر کی توثیق کی ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلامی قانون میں ’’قرض‘‘ اور ’’قرضِ حسنہ‘‘ کی اصطلاحات کوئی الگ الگ مفہوم نہیں رکھتیں۔ اسلامی فقہ کے مستند علماء کی تحریروں میں ’’قرض حسنہ‘‘ کی اصطلاح کہیں نظر نہیں آتی۔AAOIFI نے اپنے standards میں قرض کی تعریف یہ کی ہے کہ: ’’کسی بدل پذیر شے کی ملکیت ایک ایسے شخص کو منتقل کرنا جو اسی نوع کا مال واپس کرنے کا پابند ہو‘‘۔ اصلاً یہ انتقال نقدی کی صورت میں ہوتا ہے۔ تاہم‘ دوسری بدل پذیر اشیائے صرف بھی ادھار کا مواد ہو سکتی ہیں۔ قرآن مجید میں قرض کالفظ کسی اصطلاحی یا قانونی مفہوم میں استعمال نہیں ہوا۔ اس کا بیان فی سبیل اﷲ کسی خیراتی عمل اور دولت کے اصراف کے معنوں میں ہوا ہے۔ (البقرۃ2:245‘ الحدید 57:11,18‘ التغابن 64:17‘ المزمل73:20 )

Previous Chapter Next Chapter