سوال نمبر12

سوال12: ہنڈیوں اور ٹریڈ بلز پر مروجہ ڈسکاؤنٹنگ کا اسلام کے مالیاتی نظام میں کیا متبادل ہے؟ اس حوالے سے اسلامی بینکوں کے اختیار کردہ طریقے کیا شریعت کی روح کے مطابق ہیں؟

جواب: بینکنگ کے روایتی (Conventional) نظام میں Discounting of trade bills ایک قدرے سہل اور سادہ نظام ہے ‘لیکن چونکہ یہ نظام متعین شرح سود پر قائم ہے اس لیے اسے من و عن اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ روایتی طریقہ کار کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ کسی تجارتی بل میں کٹوتی کر کے بل کے حامل شخص کو ایک ایسی رقم دیتا ہے جو اس بل کی قدر عرفی سے کم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ یہ ادائیگی بل کی مدت مکمل ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بل جس کے عوض تین ماہ کے بعد 100,000 روپے ادا کرنا ہیں‘قبل از وقت ادائیگی کی صورت میں بینک اس کے عوض 90,000 روپے دے گا۔ یہ صریحاً ربا ہے‘جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔
آج کا اسلامی بینک کٹوتی کے بجائے 100,000 روپے کا تجارتی بل وصول کر کے اس کی مدتِ تکمیل‘مثلاً تین ماہ تک اسے بطور ضمانت اپنے پاس رکھتا ہے۔ گاہک کے ساتھ 90,000 روپے میں مرابحہ کا الگ معاہدہ کیا جاتا ہے‘جس میں خریدار کو اصل لاگت 90,000 روپے کے ساتھ منافع کا حصہ تقریباً10,000 روپے‘ملا کر مقررہ مدت کی تکمیل پر 100,000 روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ عرصہ اس تجارتی بل کی مدت سے مطابقت رکھتا ہے جسے بطور ضمانت قبول کیا گیا ہوتا ہے۔ تجارتی بل کی مدت مکمل ہونے پر ‘بینک اجراء کنندہ یعنی خریدار کے مقروض شخص سے بل وصول کرتا ہے۔ یہ رقم اس ادائیگی میں استعمال ہوتی ہے جو مرابحہ کے تحت مقررہ مدت کی تکمیل پر گاہک کو واجب الادا ہوتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اور مروّجہ طریقے کے تحت‘اسلامی بینک بل کی کٹوتی کے بجائے خریدار کو اسی مالیت کا قرض حسنہ دیتے ہیں۔ پھر اسی خریدار کے نمائندے کی حیثیت سے اجراء کنندہ یعنی خریدار کے مقروض شخص سے بل وصول کرتے ہیں اور اس خدمت کے عوض محنتانہ طلب کرتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کٹوتی کے متبادل کے طور پر اس طریقہ کار کی توثیق کر دی ہے‘تاہم اسلام کے مالی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سکالرز اس ترکیب کے شرعی جواز پرحقیقی نوعیت کے تحفظات رکھتے ہیں۔
کٹوتی کے حوالے سے تیسری صورت یہ رائج ہے کہ اسلامی بینک تجارتی بل کے حامل شخص کے ساتھ بیع سلم (مستقبل میں حوالگی) کا معاہدہ کر لیتے ہیں۔ بینک اس شخص سے بل کی مالیت‘مثلاً ایک لاکھ روپے کے لیے 1000 ڈالر حاصل کر کے انہیں بینک کے حوالے کر دیتا ہے۔ بینک یہ ڈالر مارکیٹ میں موجود قیمت پر بیچ دیتا ہے۔ معاہدہ کرتے وقت اور اس کی تکمیل پر ڈالر کی قدر میں جو فرق ہوتا ہے‘ وہ منافع کی صورت میں بینک کے پاس آ جاتا ہے۔
اس قسم کی سوداکاری کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ موجودہ دَور میں مستعمل کاغذ کی کرنسی اصل میں کوئی سکہ نہیں ہے‘لہٰذا اس پر ربا الفضل کے اصول کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یوں شرعی طور پر دو کرنسیوں کے تبادلے میں تاخیر کی اجازت مفروض ہوتی ہے۔ یہ دلیل کاغذ کی کرنسی سے متعلق امت مسلمہ کے مجموعی نقطۂ نظر سے متصادم ہے۔ فقہ کے تمام قابل ذکر ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ عملی مقاصد کے لیے کاغذ کی کرنسی کی حیثیت درہم اور دینار کی طرح ہے۔ لہٰذا رقم کے تبادلے کی مدت میں کسی قسم کی تاخیر یا اضافہ ربا ہی کے ذیل میں شمار ہو گا۔
ہماری رائے میں اسلامی بینکوں کے ٹریڈ بلز کی ڈسکاؤنٹنگ کے مذکورہ بالا طریقے اسی وقت حقیقی ’’اسلامی‘‘ بن سکیں گے جب کنوینشنل بینکوں کے سودی طریقے قانوناً ممنوع قرار پاجائیں گے اور بینکوں پر سے وہ پابندی ہٹا دی جائے گی جس کی بنا پر بینک آج صرف ایک financial intermediary ہی بن سکتا ہے اور عملی طور پر تجارت نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں بینک کسی KIBOR یا LIBOR کا پابند نہیں ہو گا بلکہ مارکیٹ میں مروج تجارتی شرح منافع کے معیارات کا پابند ہو گا۔ اس لیے کہ اسلامی نظام میں بینک عملاً بھی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہو گا۔

Previous Chapter Next Chapter